خواتین کی خبریںکالمز

  تان خشٹاران تان نیگور تان زپان تان نیگور  

  شمس الحق قمرؔ

کتنی خطر ناک بات ہے مرد کو مخاطب کرتے ہوئے کسی بچی نے اتنی بڑی بات کہنے کی جسارت کی ہے ۔ ایک ایسی بات جو ہمارے معاشرے کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے ۔ یہ بات سب کو بری لگی ہوگی  اسی لئے بہت سے مرد نوجوانوں نے اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  اُس بچی کو طنزو مزاح کا نشانہ بنایا ہے  ۔ ایک اور بچی فیفی  کے روایت شکن جملے کو بھی انہی خطوط پر اچھالا گیا تھا  ۔ ہمارے معاشرے کے مرد جوانوں نے "اپنے کھائے ہوئے برتن  مانجھو اور اپنے پہنے ہوئے  کپڑے خود  دھو لو” کے پلے کارڈ پر جتنی گہر ی باتیں کی ہیں یقیناً داد کے مستحق ہیں ۔  اُ ن کی تمام باتیں اُن کے ” لکھا  پڑھا ” ہونے کی دلیل ہیں ۔ جسکا ذہن کشادہ ہو اور جس پر دنیا کے علم کے تمام دروازے کھلے ہوں وہ انہی خطوط پر سوچتے ہیں  ۔ لیکن ان سے قطع نظر دنیا میں ایک ایسا بشر بھی گزرے ہیں جسکا  اس دنیا میں کوئی ثانی نہیں ، جس کے لئے یہ پوری کائینات بنائی گئی ہے اور آپ ﷺ کی شخصیت کے سامنے پوری کائینات ہیچ اور بے معنی ہے ۔آپﷺ کے سامنے ایک مرتبہ ایک شخص حاضر ہوئے جس نے جو کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے وہ میلے کچیلے  تھے  تو آپ ﷺ  نے اُس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا "کیا یہ آدمی اپنے کپڑے دھونے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا؟” ۔ ( یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب قبائل عورت ذات کو اور اُس کے وجود کو اپنے ساتھ توہیں سمجھتے تھے اور نبی کریم ﷺ آہستہ آہستہ انہیں انسانیت کی تعلیم دے رے تھے  )

ہم  نبی کریم ﷺ  کے اسی ارشاد سے اپنی بات شروع کرتے ہیں ۔ چترال کی ایک  بچی نے  یوم خواتین  کے موقعے پر جو کہا ہے میری نظر میں انکا نعرہ” تان خشٹاران تان نیگور تان زپان تان نیگور” اسلامی تعلیمات  کے عین مطابق ہے البتہ  مدعا  کہنے یا پیش کرنے کے انداز میں تندی ضرورہے لیکن بات بالکل درست ہے ۔ مزکورہ نعرے کی تشریح کرنے سے پہلے ہم اسلامی تعلیمات اور نبی پاک کی ذات اور معالات کو دیکھتے ہیں کہ رحمت اللعالمین  کے زندگی گزارنے کے طور طریقے کیسے تھے ۔ اور کیا یہ نعرہ آپﷺ کی زندگی گزارنے کے طور طریقے سے متصادم ہے یا ہم آنکھیں موندھے جو بھی منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں ۔ یعنی جو ہمیں درست معلوم ہو وہی درست ہے ۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے دریافت کیا رسول اکرمؐ کی گھریلو زندگی کیسی تھی، آپؐ کے گھریلو معمولات کیا تھے ؟ آپؓ نے جواب دیا  ” آپؐ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے ، آپؐ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود فرمالیتے ، بکری کا دودھ خود دوہتے ، اپنی ضرورتیں خود ہی پوری کرلیتے ، اپنے کپڑوں کو خود ہی پیوند لگاتے ، اپنے جوتے کی مرمت خود ہی کرلیتے ، پانی کے ڈول کو ٹانکے لگاتے ، بوجھ اٹھاتے ، جانوروں کو چارہ ڈالتے ، کوئی خادم ہوتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرتے ۔ مثلاً اسے آٹا پسوا دیتے ، اکیلے ہی محنت و مشقت کے کام کرلیتے ، بازار جانے میں عار نہ تھا، سودا سلف خود ہی لاتے ۔ اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر خود اٹھا لاتے ۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرلیاکرتے ،کسی پر بوجھ بننا پسند نہیں فرماتے،اورگھر میں داخل ہوتے تو پہلے سلام کرتے اور ایسا انداز ہوتا کہ سونے والے بیدار نہ ہوں اور جو بیدار ہوں سلام کی آواز سن لیں. اگر گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو خود انجام دے لیتے ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ آپؐ گھر میں کیسے رہتے تھے ؟آپؓ نے فرمایا ”سب سے زیادہ نرم دل، نرم خُو، ہمیشہ مسکرانے والے ، خندہ جبیں اور نرم خوئی کی شان یہ تھی کہ کبھی کسی خادم کو جھڑکا نہیں، حق یہ کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بھی اپنے اہل و عیال کے لیے شفیق نہ تھا۔”

مجھے یہ نادر جملے ڈاکٹر علی محمد الصلابی کی لکھی ہوئی سیرت النبی ﷺ سے ملے تھے جو میں نے آپ کے گوش گزار کئے ۔ اگر ہمارے نبیﷺ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود فرماتے تھے تو ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کریں کہ جہاں ماں سے تقاضا کریں کہ وہ ہمارے کپڑے دھوئے ۔    ہر عورت ماں ہے اور ماں تو وہ ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔ ہمارے یہاں وہ کونسا گھر ہے جہاں مرد حضرات کھانہ بناتے ہیں ؟  بھائیو! اتنی زحمت تو گوارا کرو یارو کہ ماں اگر کھانہ بنا کے آپ کو دیتی ہے تو آپ کم از کم اُس پلیٹ کو تو صاف کرلیا کرو ۔ کپڑے تو  اپنے جسم پر آپ ہی  پہنتے ہو نا تو پھر اُس کو خود دھو کر زیب تن کرنے میں کیا قباحت ہے ۔

نبی پاک ﷺ کا یہ فرمان "کیا یہ آدمی اپنے کپڑے دھونے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا؟” آپ کی نظر اس ارشاد نبوی ﷺ میں کیا کہا گیا ہے ؟ کیا اس سے یہ بات بالکل صاف نظر نہیں آتی کہ ہمیں اپنے کپڑوں کو خود دھونا چاہئے ۔  ورنہ کیا نبی کریم یہ نہیں فرما سکتے تھے کہ  آپ کے گھر میں کوئی عورت نہیں کہ آپ اتنے گندے کپڑے پہنے ہوے ہو ؟ کوئی بھی عورت آخر ایک ماں ہی ہے ۔ نو مہینے تک پیٹ میں پال لینا جب تک  بچہ رفع حاجت  کے اصولوں کا محتاج ہو تب تک اپنے گود میں بٹھا کر اُسے سنبھالا دینا ، اچھا کھانا بچے کو کھلاکر خود بھوکا سونا ،لمبی راتوں کے پہر در پہر بچے کی ہر کروٹ پر اپنی نیندیں اُچاٹ کرنا یہاں تک کہ پوری زندگی اُسی کے لئے قربان کردینا ، کیا یہ سب مذاق ہے کیا اس کا بہتر صلہ یہ ہے کہ ہم ہوش سنبھالنے کے بعد بھی ماں سے کہیں کہ ماں جی میرے کپڑے میلے ہوئے ہیں انہیں ذرا احتیاط سے دھونا۔  ہم شاید عورت کو صرف ایک روپ میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عورت انتہائی کمزور ذات ہے جو بھی کہو سہتی ہے اور خاموش رہتی ہے  ۔

 یوم خواتین مناتے ہوئے ہماری ایک بچی کے ہاتھ میں ایک چارٹ پر لکھا ہوا ہے کہ ” اپنے کپڑے خود دھولو اور اپنے برتن خود مانجھو ”  میری نظر میں یہ وہ بات ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ اور مجھے اُن لوگوں سے مشفقانہ اپیل ہے کہ سیرت نبی ﷺ وقت نکال کر پڑھا کریں ۔ نبی سے بڑھ  کر ہمارا راہنما اور راہبر کوئی نہیں اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ ﷺ عورتوں کے ساتھ کس حسن سلوک سے پیش آیا کرتے تھے ۔  مجھے معلوم ہے اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ سیخ پا ضرور ہوں گے مگر میں اپنے بارے میں یہی کہکر آپ سے معزرت کروں گا کہ

؎ یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی

دل کولگتی ہے بات بکری ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button