ایک اچھا فیصلہ
اس خبر کو خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر سراہا گیا ہے کہ حکومت نے پرائمری سکولوں میں 20طلباء یا طالبات کے لئے ایک استاد یا استانی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے آئندہ پرائمری سکول میں ا ساتذہ یا استانیوں کی کم سے کم تعداد 4ہوگی بچوں کی تعلیم کے لئے ماہرین نے’’پیڈا گوجی ‘‘ کے جوطریقے مقرر کئے اُن کی بنیاد یہ ہے کہ بچہ استاد کی توجہ کے بغیر تعلیمی عمل میں مثبت اور مطلوبہ کردار ادا نہیں کر سکتا بچے کو قدم قدم پر استاد کی توجہ چاہیے اگر 70بچوں کو ایک استاد پڑھا تا ہو تو اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے 50بچوں کے لئے ایک استاد ہو تب بھی پوری توجہ بچے کو نہیں ملتی اگر 30بچوں کے لئے ایک استاد ہو تب بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے طلباء کی استعداد کو ناپنے کے جو پیمانے ہیں ان میں ابتدائی مہارتیںیعنی سننے کی مہارت ، پڑھنے ،سمجھنے اور لکھنے کی مہارت کو قرار دیا گیا ہے ان چارمہارتوں (SLOs)کے لئے 3سال سے 11سال تک کے طالب علم کے پاس وقت گذارنا پڑتا ہے اور دیکھنا پڑتا ہے کہ سننے کی صلاحیت کتنی ہے ؟ پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کس قدر ہے ؟ لکھنے کی کتنی صلاحیت ہے ؟ ایک استاد 20سال سے زیادہ طلباء کی کلاس میں ہر طالب علم کو توجہ نہیں دے سکتا اور پرائمری تعلیم کا یہ ایسا نکتہ ہے جواب تک ارباب اختیا ر سے پوشیدہ ہی رہا 1989ء میں ہمارے استاد گرامی دین محمد کا تبادلہ سکول سے دفتر میں ہوا دفتر میں عالمی بینک کے تعاون سے پرائمری تعلیم کا بڑا پراجیکٹ آنے والا تھا پراجیکٹ کے حکام نے سوات میں سات دنوں کا ورکشاپ رکھا ورکشاپ سے ایک دن پہلے دفتر میں میٹنگ ہو ئی اس میں ورکشاپ کے شرکاء کو تین باتوں سے منع کیا گیا پہلی بات یہ تھی کہ اساتذہ کی کمی اور ایک استاد کے پاس 60سے زیادہ طلباء کا ذکر نہ کیا جائے دوسری بات یہ تھی کہ سکول میں کلاس رومز کی کمی اور ایک کمرے میں 140طلباء کو 8پیریڈ لیکر 8مضامین پڑھا نے کا ذکر بالکل نہ کیا جائے تیسری بات یہ تھی کہ سال میں ایک امتحان کا ذکر نہ کیا جائے ان چیزوں کے ذکر سے ہماری بدنامی ہوگی ورکشاپ میں جن چیزوں پر زور دیا گیا ان چیزوں کا تعلق خریداری اور شاپنگ یعنی پروکیورمنٹ سے تھانئے نئے کِٹ خریدنے کی ضرورت ہے، نئی گاڑیوں کی ضرورت ہے, الماریوں اور کمپیوٹر وں کی ضرورت ہے, بڑے بڑے صندوقوں کی ضرورت ہے ,جدید فرنیچر کی ضرورت ہے ,جدید آلات کی ضرورت ہے اورافیسروں کو امریکہ اور یورپ میں ٹریننگ کے لئے بھیجنا چاہیے نیز نصابی کتابوں کو دوبارہ چھا پنا چاہیئے چناچہ تعلیمی نظام کی بہتر ی کے لئے آنے والے پراجیکٹ کی ساری رقم سسٹم کو بہتر بنا نے کے بجا ئے سامان اور آلات کی فضو ل خر ید ار یو ں اور حکام بالا کے بیرون ملک سیر سپاٹوں پر خر چ ہو ئی ’’ خوا ب تھا جو دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا ‘‘ ہمارے استاد کو اس بات کو دُکھ تھا کہ محکمہ تعلیم کے ار باب اختیار نے اتنے بڑے پراجیکٹ کا فنڈ سسٹم کو بہتر کر نے پر لگا نے نہیں دیا اب خدا خدا کرکے سسٹم کی بہتری کا فیصلہ ہو ا ہے ایک استاد 20 طلبا ء کی شرح کے ذریعے پر ائمر ی تعلیم کو مضبو ط اور مستحکم بنیادوں پر استو ار کر نے کے لئے سسٹم کے اندر دو مز ید اقدامات کی فوری ضرورت ہے پہلی ضرورت یہ ہے کہ پر ائمر ی اساتذہ کی تر قی کے ساتھ سکول کے اندر اسکی پوسٹ کو بھی اگلا گریڈ دے دیا جا ئے اعلیٰ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایسا ہو تا ہے مگر پر ائمر ی تعلیم کے شعبے میں استا د کو سکیل 15 یا 14 دے کر 200 کلو میٹر دور تبدیل کیا جاتا ہے کہ تیرے سکول میں سکیل 12 سے اوپر کی آسامی نہیں ہے پھر وہ 4 سالوں تک خوار ہو کر اپنی تبد یلی کے لئے در بدر پھر تا ہے دوسری اہم ضرور ت یہ ہے کہ پر ائیمر ی سکول میں کم از کم 8 کمر ے ہوں،دفتر اور سٹاف روم ہوں، دو کمر ے نر سر ی اور کے جی کے لئے ہو ں، 5 کمر ے 5 کلاسوں کے لئے ہو ں اورسکول کی تعمیرات میں غسل خانون کے ساتھ کھیل کے میدان اور پانی کی فراہمی کا خصو صی خیال رکھا جائے تاکہ ابتدا ئی تعلیم میں بچوں کو اُن کے گھر وں سے بہتر ، گھر وں سے زیادہ موزوں اور پرکشش ماحول میسرہو صو بائی حکومت کا یہ فیصلہ قابل ستا ئش ہے کہ استاد اور طلباء کی شرح سائنسی اصولوں کے مطابق 20:1 رکھی جائے گی استاد ہر طالب علم کو ذاتی تو جہ دیگا عبارت خوانی ، تفہیم اور لکھا ئی میں ہر طالب علم کی ذاتی مد د کر یگا استانیاں بھی طالبات پر ذاتی تو جہ دے سکینگی اس فیصلے پر عمل در آمدسے آئیند ہ 4 سالوں میں ایسے نتا ئج سامنے آئینگے جن کو سب سے دیکھ سکینگے اور محسوس کر سکینگے
زما نہ عہدمیں اُس کے ہے محوِ اَرائش
بنینگے اور تارے اب آسما ن کے لئے