کالمز

گلگت بلتستان میں دینی جامعات کی تقاریب ،کچھ تجاویز 

تحریر: امیرجان حقانی

ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں بھی دینی مدارس و جامعات کی تقریبات عروج پر ہیں۔ کافی سال پہلے پورے گلگت بلتستان میں دو چار تقاریب ہوا کرتی تھی تاہم گذشتہ دو تین سالوں سے گلگت بلتستان میں درجنوں مدارس و جامعات میں بہترین تقاریب کا انعقاد کیا جارہا ہے۔رجب المرجب کا مہینہ دینی مدارس و جامعات میں تعلیمی سال کے اختتام کا مہینہ ہوتا ہے۔اسی مہینے میں ملک بھر کے مدارس وجامعات میں مختلف نوعیت کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سال 2019کو گلگت بلتستان میں بہت سارے پروگرامات منعقد ہوئے جن میں جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں چھ مارچ کو ایک بہت بڑا پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عادل خان،مولانا حبیب الرحمان مانسہرہ اور ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام نے شرکت کی۔اس تقریب میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے علماء کرام کے وفود نے شرکت کی جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔اور عوام الناس کا ایک جم غفیر تھا۔ یہ تقریب طلبہ و طالبات کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی اور ان کی دستارفضیلت اور خماربندی گئی گئی، سال 2019کو جامعہ نصرۃ الاسلام اور اس کی ذیلی شاخ جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات الاسلام سے 70طلبہ و طالبات نے حفظ قرآن کیساتھ درس نظامی کی تکمیل کی اوروفاق المدارس العربیہ پاکستان سے انہیں سندفراغت عطاء کی گئی۔ 23مارچ کو جامعہ اشرف العلوم جاگیر بسین میں ایک بہت بڑا سالانہ جلسہ ہوا جس میں ختم مشکواۃ شریف کا درس کا بھی اہتمام تھا۔اس پروگرام میں مولانا عبدالقدوس چلاسی، جامعہ محمودیہ اسلام آباد کے شیخ القرآن عبدالشکور دیامری ، مولانا قاضی نثاراحمد، انورالعلوم کراچی کے مولانا شفیق الرحمان گلگتی ،مولانا عطاء اللہ شہاب ،مولانا سید محمد، مولانا معاذ،مفتی صادق،مولانا عیسی خان اور مدرسے کے مہتمم مولانا سرورشاہ اور درجنوں بڑے علماء کرام نے بیانات کیے۔اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ ہر عالم نے یوم پاکستان کے حوالے سے پاکستان سے محبت اور پاکستان کی حفاظت کانہ صرف اظہار کیا بلکہ عوام الناس سے بھی مملکت خداداد سے محبت اور حفاظت کا وعدہ لیا اور ملک و ملت کیساتھ وفاداری کے عزم کا اظہار مسجد کے اندر کیاجو بلاشبہ وقت کی ضرورت بھی ہے اوریہ علماء و مدارس کا پاکستان سے وفاداری کا عملی ثبوب بھی ہے۔اس تقریب میں پورے گلگت بلتستان بالخصوص داریل تانگیر اور کوہستان سے سینکڑوں علماء کرام نے خصوصی شرکت کی۔24مارچ کو دارالعلوم غذر میں طلبہ و طالبات کے اعزاز میں ایک شاندار پروگرام ہوا جس میں مدرسے کے مہتمم مفتی شیرزمان، مولانا شفیق الرحمان گلگتی اور مولانا عبدالشکور دیامری سمیت درجنوں معرورف علماء نے بیانات کیے اور سینکڑوں علماء کرام نے شرکت کی۔24مارچ کو ہی ضلع دیامر کا معروف دینی ادارہ جامعہ فیض العلوم ڈسر میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام ہوا جس میں جید علماء کرام نے خطبات دیے۔جامعہ فیض العلوم ضلع دیامر کا بہترین تعلیمی ادارہ ہے جہاں طلبہ کی تعلیم و تربیت کا انداز جدید خطوط پر مشتمل ہے۔ نظم و ضبط کیساتھ صفائی و ستھرائی کا بہترین انتظام ہے۔

25مارچ کو گلگت شہر کے معروف تبلیغی عالم دین مولانا عبدالرحمان کی جامعۃ البنات کنوداس، مولانا عثمان غنی کی جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات جاگیر بسین اور مفتی رفیع کی مدرسہ المرکز اسلامی جوٹیال میں طالبات کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ان پروگراموں کے روح رواں مولانا عبدالشکور دیامری، قاضی نثاراحمد اور مولانا شفیق الرحمان تھے۔ضلع دیامر میں داریل اور تانگیر میں کئی پروگرامات ہونے جارہے ہیں۔وفاق المدارس دیامر ڈویژن کے مسؤل مولانا عبدالکریم کے مدرسہ تعلیم القرآن داریل گماری میں بھی ایک بہت بڑا پروگرام منعقد ہوگا جس میں پورے گلگت بلتستان سے علماء کرام شرکت کریں گے۔اس کے علاوہ چلاس شہر اور اس کے مضافات میں بہت سارے مدارس و جامعات میں سالانہ تقریبات ہونگی۔میرے دوست اور فاضل دیوبند مولانا غلام روف مرحوم کے فرزند ارجمند مولانا سمیع الحق کی جامعہ سیدہ عائشہ صدیقہ للبنات میں 23مارچ کو فارغ التحصیل طالبات کے اعزاز میں ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں معروف عالم دین مولانا قاضی عنایت اللہ چیرمین دیامر گرینڈ جرگہ نے کلیدی خطبہ دیا۔اسی طرح مولانا محبوب اللہ کی جامعہ علم و حکمت چلاس،معروف مبلغ و جامع مسجد چلاس کے خطیب مولانا ایاز صاحب کی جامعہ خدیجۃ الکبریٰ،قاری عتیق اللہ کا مدرسہ تعلیم القرآن چلاس بازار،مولوی حضرت اللہ کی مدرسہ زینت البنات چلاس،جامعہ انوارالصحابہ گونرفارم، مولوی عبدالمالک کی مدرسہ حدیقہ العلم للبنات چلاس اور دیگر کئی مدارس میں سالانہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔کچھ مدارس میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات سے قبل قبل یہ پروگرامات منعقد کیے جارہے ہیں۔ مدرسہ دارلعلوم صفہ پڑی بنگلہ اور مدرسہ دارالقرآن جوٹیال گلگت میں بھی 31مارچ کو پروگرامات ہونگے جن میں معروف علماء کرام بیانات کریں گے۔ مولانا حیات کے دارلعلوم صفہ پڑی کے پروگرام کے مہمان خصوصی معروف عالم دین اور سرپرست اعلی جمیعت علمائے اسلام گلگت بلتستان حضرت مولانا لقمان حکیم اور قاضی نثار ہونگے جبکہ مفتی رستم خان کے مدرسے کے پروگرام کے مہمان خصوصی بھی قاضی صاحب اور مولانا خلیل قاسمی ہونگے۔حدیقۃ الاسلام چٹور کھنڈ، دارلعلوم یاسین،دارالعلوم گوپس،دارالعلوم اسلامیہ بتھریت،مدرسہ اسلامیہ درمندر اور ضلع غذر کے دیگر مدارس میں بھی سالانہ تقریبات ہونگی۔اسی طرح استور ، جگلوٹ اور بلتستان کے مدارس میں بھی سالانہ تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔مستقبل میں یہ سلسلہ مزید بڑے گا۔ان شاء اللہ

گلگت شہر کی حد تک یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ کسی بھی مدرسے میں پروگرام ہوتا ہے تو علاقہ بھر کے علماء کرام اور آئمہ مساجد پہنچ جاتے ہیں ۔ بہر صورت یہ کریڈٹ قاضی نثار احمد کو جاتا ہے کہ جامعہ نصرۃ الاسلام کے سالانہ پروگرام میں گلگت بلتستان کے تمام علماء اور آئمہ مساجد و خطباء کو باقاعدہ دعوت نامے دے کر اور مضافات کے علماء کو کنونس کا، بھی انتظام کرکے گذشتہ کئی سالوں سے انہیں ایک محفل میں جمع کررہے ہیں جس سے قربتیں بڑھ جاتی ہیں اور ملنے ملانے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں اور اجتماعیت کو فروغ حاصل ہوتا۔اور اتفاق و اتحاد کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے ۔پورے گلگت بلتستان میں سو کے قریب وفاق المدارس پاکستان کے رجسٹرڈ دینی مدارس ہیں اور اقراء روضۃ الاطفال اور جمیعت تعلیم القرآن ٹرسٹ کے مکاتب و مدارس ان کے سوا ہیں۔ ان مدارس ومکاتب کے علماء کرام اور مہتممین کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر ایک شیڈول وضع کریں یعنی سالانہ کلینڈر تشکیل دیں، جس میں سال بھر میں مدارس ومکاتب میں ہونے والے پروگرامات کا شیڈول وقت اور موسم کی نزاکتوں کو دیکھ کر طے کیا جائے اورساتھ جید علماء کرام میں موضوعات بھی تقسیم ہوں۔جس مدرسے میں پروگرام ہوں وہاں دیگر اضلاع سے مخصوص علماء کی تشکیل ہو،وفاق المدارس کی پالیسی بھی ہے کہ اس کے رجسٹرڈ اداروں کی کوارڈینشن ہو، اس کے لیے بھی سالانہ کلینڈر میں دو تین میٹنگز طے کی جائیں جن میں ایک گلگت ایک دیامر اور ایک غذر میں ہوں۔اسی طرح مدارس کے جو سالانہ پروگرامات بے ترتیب منعقد ہوتے ہیں ان کو باقاعدہ نظم و ضبط کے ذریعے منعقد کیے جائیں۔مجھے ااکثر ان پروگراموں میں شمولیت کا موقع ملتا ہے ۔ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد ان پروگرامات میں شوق سے شرکت کرتی ہے۔کچھ اداروں میں تقریبات کی بے ترتیبی پر دکھ بھی ہوتا ہے۔جس کی اصلاح بہر صورت ضروری ہے۔ اور یہ بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے کہ مدارس وجامعات میں طلبہ کے بجائے طالبات کا اژدھام زیادہ رہتا ہے۔کافی سال پہلے گلگت بلتستان کے لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو دینی تعلیم دلانے کے لیے ملک کے دیگر حصوں کا رخ کرتے ، ان کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن جب گلگت بلتستان میں طالبات کے لیے اچھا انتظام ہونے لگا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور اپنی بیٹیوں کو گلگت بلتستان کے بنات کے مدارس وجامعات میں ہی داخل کروایا۔ اور انہوں نے تعلیم مکمل کی۔تاہم اب بھی لوگ اپنے بیٹوں کو تعلیم کے لیے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بیجتے ہیں۔جہاں مدارس میں بہترین دینی تعلیم اور تربیت کا انتظام ہوتا ہے۔اس لیے گلگت بلتستان کے مدارس کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ جس طرح طالبات کے لیے اچھے انتظامات ہوتے ہیں اس طرح طلبہ کرام کے تعلیم و تدریس اور نظم و ضبط اور نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی تبدیلی اور بہتری کی کوشش کی جائے تاکہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ اور دینی علوم کا ذوق رکھنے والے احباب ملک بھر کے دینی اداردوں کا رخ کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کے اداروں میں ہی دینی علوم کی تحصیل و تکمیل کریں اور ساتھ ہی وفاق المدارس کاتعلیم بالغاں کے لیے ترتیب شدہ تعلیمی پرگرام ’’دراسات دینیہ‘‘ کو وسیع پیمانے پر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔اس کا انتظام تو مدارس کے سوا شہر کی ہر بڑی مسجد میں بھی کیا جاسکتا ہے ۔

ان ایام میں شہر گلگت میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے علماء کرام موجود ہیں ان کو ان ایشوز پر ہنگامی میٹنگ کر کے آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔مولانا عبدالشکور دیامری اورمدرسہ انوارالعلوم کراچی کے مہتمم مولانا شفیق الرحمان کو اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں مدارس کے انتظام و انصرام کا طویل تجربہ ہے۔ وفاق المدارس کے مسؤلین اور عاملہ کے ممبراور بڑے مدارس و جامعات کے مہتمم صاحبان اور مرکزی مساجد کے آئمہ و خطباء کو چاہیے کہ ان علماء کرام کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سال بھر کے تعلیمی پلان اور تقریبات کا شیڈول طے کریں اوراسی کے ساتھ ہی آئند ہ کی ضروریات کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پالیساں تشکیل دیں۔میں یہ اس لیے بھی عرض کررہا ہوں کہ اچانک کھمبیوں کی طرح مدارس کی کثرت ہونا شروع ہوئی ہے۔ جگہ جگہ مدرسے قائم کیے جارہے ہیں جو بہت اچھی بات ہے لیکن نظم و ضبط کی قلت اور ناتجربگی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے کہ چند ایک لوگوں کی وجہ سے پرانے مدارس و جامعات کی بدنامی کے اسباب بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ان خدشات کا اظہار علماء کرام وقتا فوقتا اپنی مجالس اور نجی محفلوں میں کرتے بھی رہتے ہیں۔گلگت شہر اور دیگر علاقوں میں کچھ پیشہ ور لوگ ملک کے دیگر حصوں سے بھی آکر بے ڈھنگے انداز میں مساجد و مدارس کے نام پر چندہ کرتے ہیں۔اس کو بھی روکنے کی ضرورت ہے اور چونکہ دینی مدارس و جامعات سرکاری تعاون حاصل نہیں کرتے ۔ ان کا انحصار اہل خیر حضرات کا تعاون پر ہوتا ہے۔چندہ کے حوالے سے حکیم الامت قاری طیب ؒ نے آٹھ اصول وضع کیے ہیں ، گلگت بلتستان کے جید علماء کرام کو چاہیے کہ ایسا اہتمام کیا جاوے کہ ان آٹھ اصولوں کا اطلاق گلگت بلتستان کے تمام مدارس و مکاتب پر لاگو ہو، کوئی خلاف ورزی نہ کرسکے۔مدارس کا بنیادی مقصد ہی دینی تعلیم کی ترویج و تشکیل اور عامۃ الناس کی اصلاحِ فکر کرنا ہے اور انہیں معاشرت کے بہترین اصول بتانا ہے اور اخلاق واعمال کی درست تربیت دینا ہے۔بہت سارے مدارس وجامعات سالوں سے گلگت بلتستان میں اپنی بساط کے مطابق یہ کام انجام دے رہے ہیں۔اب نیا دور ہے، نئے دور کے نئے تقاضے ہیں۔احباب حل و عقد کو چاہیے کہ ان تقاضوں کے مطابق ضروریات دین کی درست تفہیم و تبلیغ اور ترویج کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایکشن پلان تشکیل دیں۔اور شاید اس کے لیے کچھ سخت فیصلے بھی کرنے ہونگے اور کچھ نئی پالیساں اور قوانین بھی مرتب کرنے ہونگے۔ بصورت دیگر حالات کسی اور رخ پر جائیں گے تو مشکلات اور بدنامی کا سامنا سب کو کرنا پڑے گا۔نئے قائم ہونے والے مدارس کے لیے وفاق المدارس العربیہ کے اصول و ضوابط کی پابندی کروانا بھی وفاق کے جی بی کے اراکین اور جید علماء کرام کا کام ہے۔علماء کرام کو اس حوالے سے بھی چشم پوشی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ بہترین نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔اور علماء کرام کی سیکورٹی بھی ایک مسئلہ ہے۔اس کے لیے بھی حضرات کو سوچ بچار کرنا ہوگا۔گلگت بلتستان میں قیام امن کے لیے ہمیشہ علماء کرام نے دو قدم آگے بڑھ کر انتظامیہ اور سرکار کیساتھ دیا ہے۔میری ریسرچ کا ایک حصہ علماء کرام کی امن کے لیے کاوشیں بھی ہیں۔یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ علماء کرام ہرممکن کوشش کے باوجود بھی اور پاکستان اور افواج پاکستان سے محبت اور یک جہتی کے واضح اعلان اور عمل کے باوجود بھی شک کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔اور بدآمنی کے ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔علماء کرام کو اس حوالے سے بھی کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔یہ کب تک چلے گا کہ مدارس و جامعات کے پروگراموں میں پاکستان کی سالمیت کے لیے اجتماعی اور انفرادی دعاوں کیساتھ نعرے بھی لگے لیکن کسی کو یہ نظر ہی نہ آئیں۔علماء کرام کو چاہیے کہ شعور و آگاہی کی مہم شروع کریں اور جدید خطوط پر کوئی پروگرام تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جس میں تحریری طور پر یہ چیزیں سامنے آجائے تاکہ دیندار طبقہ اور علماء و مدارس مملکت پاکستان کے نظریاتی و دینی محافظ ہونے کیساتھ بوقت ضرورت سرحدی محافظ بھی ہیں کا ثبوت مقتدر طبقے بھی تسلیم کریں۔اس سے گریز بھی مجموعی طور پر علماء کے حق میں نہیں ہے۔ حالات و واقعات اسی کی غماز ی کرتے ہیں۔بہر صورت علاقہ بھر میں بہترین پروگرامات کا انعقاد کرکے لوگوں میں دینی رجحانات پیدا کرنا اور طلبہ و طالبات کو دینی علوم کی طرف راغب کرنے پر تمام مدارس و علماء اور ان کے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے تعاون کرنے والے احباب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول و منظور فرمائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button