کالمز

کھلا خط بنام وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب

  جناب وزیر اعظم پاکستان صاحب۔

اسلام علیکم ۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہزارہ برادری کے ہزاروں بے گناہ لوگ دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں مگر ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایک بھی مجرم پایہ تکمیل تک نہ پہنچا یا جاسکا ۔

 

سزا و جزا کے قانون کے پیچھے ایک مدللل منطق یہ بھی ہےکہ اچھے اعمال انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ معاشرہ اچھائی کی طرف راغب ہو  اور جرائم پیشہ لوگوں کو انجام تک پہنچایا جائے تا کہ لوگ ان کے انجام کو دیکھ کر سبق حاصل کریں اور یوں معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ممکن  ہو ۔ ہم نے کئی برسوں سے دیکھا کہ ہزارہ برادری بجائے قانون کوہاتھ میں لینے کے احتجاج کرتی آئی ہے جوکہ ایک قابل تعریف اور سراہے جانے والا عمل ہے مگر آپ کی  جانب سے ایک مزمتی بیان سے آگے نہ جانا بتاتا ہے  کہ حکومت کو ان بیواؤں  ، یتیموں اور بے سہاروں کا   کوئی احساس ہی نہیں اور دہشت گردوں کو ملنے والی کھلی چھوٹ تو کچھ اور ہی ثابت کرتی ہے ۔

 

آپ جب اپوزیشن میں تھے تو حضرت علی علیہ السلام کا یہ قول دہرا کر حکومت وقت پہ تنقید کیا کرتے تھے کہ ;جس مقتول کا قاتل نہ ملے ، اس کا قاتل حاکم وقت ہے ؛ ۔ پس اب یہی قانون آپ پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔

نیوزیلینڈ کی وزیر اعظم سے تو آپ بڑے متاثر نظر آتے  ہیں اور متاثر ہونا بھی چاہئے کیونکہ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت کردیا کہ ان کے ملک میں اکثریتی آبادی کا تعلق چاہے کسی بھی مزہب سے ہو مگر ان کے لیے  انسانیت سب زیادہ عزیز ہے اور ان کے ملک میں رہنے والا ہر شہری برابر حقوق کا مستحق ہے مگر آپ کے متاثر ہونے اور ان کی تعریف میں ٹویٹ کرنے کے  چند دن بعد ہی آپ کے اپنے ملک میں نیوزیلینڈ جیسا واقعہ رونما ہوا ہے اور آپ  چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ قول و فعل میں تضادنہیں؟

 

بقول ایجنسیز کے اگر یہ انڈیا کی سازش ہے تو پھر  وہ پھرتیاں ادھر کیوں نہیں دکھائی جاتی جو انڈین جہاز کو مار گرانے کیلئے دکھائی گئ تھیں ۔ تین درختوں کو تباہ کرنے والے  ابھینندن کو تو آپ جہاز سے اتار کر پکڑ سکتے ہیں مگر ہزارہ برادری کی نسل کشی کرنے والے (بقول آپ کے )  انڈین جاسوس پچھلے کئی سالوں سے ہاتھ نہیں لگ رہے ۔ کہیں یہ ایجنسیز کی ناکامی تو نہیں؟؟

 

پرانے زمانے میں جب سٹیٹ کا کانسپٹ نہیں تھا تو لوگ ریٹیلی ایشن کے قانون پہ یقین رکھتے تھے اور اپنے پیاروں کے قاتلوں کو خود انجام تک پونچاتے تھے مگر جوں جوں معاشرے نے ترقی کی تو یہ زمہ داری سٹیٹ نے اٹھانا شروع کیا یوں لوگ ایک دوسروں کے ساتھ زاتی دشمنی لینے کے بجاے قانون کا سہارا لینے لگے مگر ۔۔۔۔

جناب وزیر اعظم صاحب۔۔!!

دود جدید میں بھی ہزارہ برادی کا حال ہزاروں برس پرانی تاریخ سے بھی برا ہے۔ پرانے زمانے میں کم از کم لوگ اپنے پیاروں کے قاتلوں سے خود نمٹ لیتے تھے مگر یہاں نہ توخود نمٹنے کی اجازت ہے نہ ہی قاتل قانون کے گرفت میں آرہا ۔ خدا را ان معصوم بچوں کی چیخوں کو سن لو ، ان ماؤں ، بہنوں اور بیواؤں کے درد کو محسوس کرو۔

بخدا ہمیں یہ مسوس ہورہا ہے کہ شاعر نےاپنے اس شعر میں اس قبیلے کو منسوب کیا ہو ۔

 

کسی غریب قبیلے کی آبرو کی طرح

ہمارا درد کسی درد میں شمار نہیں

آپ سے گزارش ہے ، قاتلوں کو بیشک سزا نہ دو مگر ان کو پکڑ کے ان کے آباو اجداد کے حوالے تو کرو ۔ ابھینندن کی طرح ۔

وسلام۔

حیدر سلطان ایڈوکیٹ ہاٸی کورٹ بار گلگت بلتستان  

 

 

 

 

 

 

 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button