کالمز

فورس کمانڈر کا پروفیسر عثمان علی کو سیلوٹ

میجر جنرل ڈاکٹراحسان محمود فورس کمانڈر گلگت بلتستان ہیں۔ان کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور میڈیا میں پڑھا بھی تھا۔سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی ایکٹیویٹیز سے شناسائی بھی تھی ۔میرے ایک دوست آرمی میں خطیب ہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ڈاکٹر احسان محمود صاحب بہت ہی نیک اور صوم و صلواة کے پابند آفیسر ہیں۔سفر و حضر میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یہ ان کا روزانہ کا معمول ہے اور جب ان کا تلاوت قرآن ختم ہوجائے تومختصر محفل کرکے دعاؤں کا اہتما م بھی کرتے ہیں۔اس سال پورے گلگت بلتستان کے حفاظ سپاہیوں کو ایف سی این اے ہیڈ کوارٹر میں جمع کیا ہے تاکہ رمضان المبارک سے پہلے وہ اپنی منزل یعنی قرآن کریم کو اچھی طرح دہرا لیں اور فوجی مساجد میں قرآن کریم نمازتراویح میں سنائیں۔یہ میرے لیے حیرت کی باتیں تھی۔میرے دوست کرنل مدد علی بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ”جنرل ایک احسان ایک فرشتہ صفت درویش انسان ہے اور علم کے پروانے ہیں”۔آج پروفیسر عثمان علی مرحوم کی دوسری برسی پروفیسرعثمان علی گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن گلگت میں تھی۔اس تقریب میں میجرجنرل ڈاکٹر احسان علی بطور چیف گیسٹ مدعو تھے۔ڈاکٹر احسان نے مجھ سمیت ہر اس انسان کو مبہوت کردیا جو تنقیدی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔میرا مسئلہ مگر یہ ہے کہ میں خاہ مخواہ کی توصیفی تمہیدیں نہیں باندھ سکتا مگر ڈاکٹر احسان محمود نے مجھ جیسے کریٹیکل مائنڈ انسان کا بھی دل جیت لیا۔کالج کے ہال میں داخل ہوتے ہی ایک ایک لائن میں داخل ہوکر تمام شرکاء مجلس سے مصافحہ کیا، خود ان کی نشست تک پہنچ گئے ۔نشستوں کے درمیانی جگہ کی تنگی کا پروا بھی نہیں کیا۔مجھے پہلی دفعہ اس طرح کا چیف گیسٹ دیکھنے کو ملا جو اپنی سیٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی فردا  فردا ہر ایک کی نشست پر پہنچ کر مصافحہ کرتا ہو،ورنا تو جن سے اچھی خاصی علیک سلیک ہوتی ہے وہ بھی جب عہدوں پر ہو ں  تو دیکھ کر بھی سلام کرنا اپنی توہین سمجھتے اور کھسک جاتے ہیں حالانکہ ان کا عہدہ عارضی ہوتا ہے یا وہ چھوٹے لیول کے آفیسر ہوتے ہیں لیکن خشک فرعونیت سے مملوء ہوتے ہیں۔” فورس کمانڈر نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں، مجھ سے کہا کہ میں آپ کا مستقل قاری ہوں مجھے آپ پر فخر ہے”۔اللہ نے انہیں” قلب مخبت” سے نوازا ہے۔ جن لوگوں کو یہ قلب عطا ء ہوتا ہے وہ انتہائی عاجزی اور انکساری کے حامل ہوتے ہیں۔اطمینان اور سکون ان کی زندگی کا حصہ ہوتا۔جو عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کو سکون عطاء کرتا ہے اور اس کو سکون کی دوا کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔عاجزی و انکساری وہ واحد عبادت ہے جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔آپ  ﷺ نے ارشاد کیا کہ ”جو شخص اللہ کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرمادیتا ہے”(جامع ترمذی 2029)۔تواضع ،عاجزی و انکساری نے ہی ڈاکٹر احسان محمود کو ہردلعزیز بنایا ہے۔

کمانڈر صاحب جب صدراتی خطبے کے لیے بلائے گئے تو اسٹیج پر پہنچ کر دیوار کیساتھ لگے دیو قامت بینر پر موجود پروفیسر عثمان علی کی تصویر کو ایک عاجزانہ سیلوٹ کیا۔اس سیلوٹ میں کسی قسم کا کوئی تصنع نہیں تھا۔انتہائی محبت اور احترام کیساتھ ایک طاقتور فوجی کمانڈر کا ایک مرحوم استاد کو سیلوٹ کرنا یقینا اس استاد کی بھی عظمت تھی لیکن جنرل صاحب نے اپنے صدراتی خطبے میں کہا کہ” استاد کو عزت دینا دراصل اپنے آپ کو عزت دینا ہے”۔پروفیسر عثمان علی کے متعلق انتہائی نیک جذبات کا اظہار کیاانہوں نے کہا کہ پروفیسر عثمان علی نے پانچ نسلوں کو پڑھایا ہے۔میں بھی شاگرد رہا ہوں۔ مجھے استاد مرحوم سے بالمشافہ ملاقات تو نصیب نہیں ہوئی لیکن ٹیلی فونک میں نے ان سے بہت ساری چیزوں میں رہنمائی لی ہے۔اپنے ریسرچ تھیسسز میں فون پر ان سے مشاورت کرتا اوربہت ساری نئی چیزیں سیکھنے اور سمجھنے کو ملتی۔ہم ان کے روحانی اولاد ہیں۔پروفیسر عثمان علی مرحوم نے پرائمری سے پی ایچ ڈی تک کو پڑھایا، اور تیسری کلاس سے لے کر پی ایچ ڈی اسکالر تک کے لیے ریفرنسس بکس لکھیں۔پروفیسر عثمان ایک مکمل علمی اور قلمی سپاہی تھے ۔سخت ترین علمی محاذ میں وہ بے شمار تمغوں کے مستحق تھے۔بلاشبہ پروفیسر عثمان نے گلگت بلتستان کو بالخصوص اوربالعموم پورے پاکستان کے معاشرے کو سنوارنے اور پالش کرنے میں بھرپور کرادار ادا کیا۔اپنے خطبے میں زور دے کر کہا کہ ہم سب کی قسمت اس معاشرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یہ ایک اسلامی اور مشرقی معاشرہ ہے۔پاکستان اس اسلامی اور مشرقی معاشرے کے ماتھے کو جھومر ہے۔ پاکستان اور گلگت بلتستان ہماری پہنچان ہے یہی ہمارا ایمان ہے”۔

جنرل احسان محمود نے علم کی اہمیت وافادیت پر ایک عالمانہ لیکچر دیا۔قرآن اور حدیث سے آیات واحادیث اپنے خطبے میں کوڈ کیے۔ ایک معاشرے ، ایک قوم اور ایک ملک و فرد کے لیے کھانے پینے اور پہننے سے زیادہ حصول علم کو لازم قرار دیا۔علم کی فرضیت پر بھی بہترین گفتگو کی۔ پروفیسر عثمان علی کے زمانے کے دو بوڑھے استاد وں کو اسٹیج پر بلاکرانہیں خصوصی شیلڈ عطاء کیے اور ان کے ساتھ تصاویر بنوائی۔فورس کمانڈر ڈاکٹر احسان محمود نے بہت سارے لوگوں کو شیلڈ دیے ،ایف سی این اے کی تیارکردہ  اعزازی ٹوپیاں پہنائیں،کالج آف ایجوکیشن کے طلبہ کو بھی تعارفی شیلڈ دیے۔پروفیسر عثمان علی کی اہلیہ محترمہ بھی ہال میں موجود تھی۔اسٹیج سے ان کی نشست تک چل کرآئے اور انہیں ایف سی این اے کی طرف سے خصوصی شیلڈ عنایت کیا۔پروفیسر عثمان علی کالج آف ایجوکیشن کو فورس کمانڈر نے ایک لاکھ روپیہ کا نقد چیک بھی عنایت کیا۔اور بہترین خدمات انجام دینے پر اگلی دفعہ دس لاکھ نقد دینے کا وعدہ بھی کیا۔ یہ یقینا ان کی علم دوستی ہے۔پروفیسر عثمان علی کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں بعد ازموت بھی اعزاز و اکرام سے نوازا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے بعد تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جبکہ ایک اسکالر ٹائپ کے میجرجنرل نے ایک مخلصانہ سیلوٹ کیا۔یقینا یہ سیلوٹ عثمان استاد کی لازوال خدمات کا بھرپور اعتراف ہے۔فوجی آفیسران صرف اپنے  سینئر آفیسران کو سیلوٹ کرتے ہیں۔ جس آفیسر کو ہزاروں فوجی آفیسران اور سپاہی سیلوٹ کرتے ہوں وہ ایک استاد کو سیلوٹ کرتا ہے تو یہ اس استاد کی عظمت اور خدمات کی بین ثبوت ہے۔اللہ عثمان استاد کو کروٹ کروٹ سکون دے۔

میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود انتہائی باذوق اور حسِ لطیف کے مالک ہیں۔جمشید خان دکھی کا لقب تبدیل کردیا۔ کہا کہ دکھی صاحب کے کلام ، تحقیق و تحریر اوراظہار کلام  اور باڈی لینگویج سے تو یہ قطعا دکھی نہیں لگتے بلکہ مکمل سکھی لگتے ہیں لہذا میں انہیں” جمشید سکھی” کہونگا۔اپنے خطبے کے دوران اچانک ناچیز کا نام لیا،میری طرف اشارہ کرکے ارشاد کیا کہ ”امیرجان حقانی بہت اچھا لکھتے ہیں میں ان کو مستقل پڑھتا ہوں۔مجھے اندازہ ہے کہ آج کی محفل پر بھی اور علم و استاد کی اہمیت پر بھی ایک بھرپور کالم لکھیں گے”۔ یہ ذہن میں رہے کہ فورس کمانڈر صاحب کیساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے کسی محفل میں بھی ملنے کا اتفاق نہیں ہو ا ہے نہ ہی کسی قسم کا رابطہ ہے ۔یہ میرے لیے بھی اعزاز کی بات ہے کہ ایک اسکالر ٹائپ کا فوجی آفیسر میری ٹوٹی پھوٹی تحریروں کو پسند کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کے پاس وقت کی قلت تھی اس لیے جلدی چلے گے۔جلدی جانے پر تاسف کا اظہار بھی کیا اور ساتھ بطور تفنن یہ بھی کہا کہ ”اسکالر کے ہاتھ پر جب مائیک جاتا ہے تو پھر وہ مائیک اپنی مرضی سے ہی واپس آجاتا ہے”۔

قارئین یہ خوش آئند بات ہے کہ فورس کمانڈر ڈاکٹر احسان محمود غریب عوام کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ ہر ایک کے غم میں خود پہنچ کرشریک ہوجاتے ہیں۔غذر سے لے کر داریل تک، استور برزل ٹاپ سے لے کر بلتستان چھوربٹ تک فورس کمانڈر پہلی فرصت میں پہنچ جاتے ہیں اور دکھی لوگوں کے زخموں پر مرحم پٹی باندھتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سارے غریب لوگوں کی فوری مدد بھی کرتے ہیں۔لاریب اگر کوئی فوجی کماندار  اسی انداز میں عوامی دکھ کو سمجھے گا اور محسوس کرکے عملی اقدام بھی کرے گا تو ایسے لوگوں کے لیے عام انسان  دل فراش کرے گا۔ ورنا تو بہت سے ڈکٹیٹر لوگ اپنی لن ترانیوں سے دل فگاری کا سبب بنتے ہیں۔بہت سارے مسائل ان کا لہجہ اور الفاظ کا چناؤ خراب کردیتے ہیں۔کافی سال پہلے ایک کماندار نے دیامر داریل پہنچ کر عوام سے انتہائی سخت لہجے میں گفتگو کی تھی جس کا بہر صورت اہالیان دیامر نے برا منایا تھا اور ان کے لہجے کو پسند نہیں کیا تھا۔ ہم نے بھی اپنا احتجاج بطور کالم ریکارڈ کروایا تھا۔برا منانے اور احتجاج ریکارڈکروانے گلہ شکوہ کا مطلب صرف یہی تھا کہ دیامر کے لوگ افواج پاکستان اور مملکت پاکستان کواپنی جان سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔جن سے پیار وو محبت کیا جائے انہیں زدکوب کرنے کی بات کی جائے تو شکایت تو بنتی ہے۔گلہ اور شکایت ہمیشہ اپنوں سے ہی ٹھیک رہتی۔ لیکن میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود اپنے میٹھے انداز گفتگو اور شریں الفاظ کے چناؤ سے پورے گلگت بلتستان کا دل جیت چکے ہیں۔آپس کی بات کہ تمام بااختیار لوگ بالخصوص فوجی اور پولیس آفیسران و سپاہی ڈاکٹر احسان محمود کے انداز کو اپنائیں اور یہی مخلصانہ روش اختیار کریں توآدھے مسائل از خود حل ہوجائیں گے اور خلق ِ خدا ان کی ارادت کیش بن جائے گی۔مگر انتظامی وعسکری آفیسران اور بیوروکریٹس ایسا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اس عاجزانہ انداز کو اپنے دبدبے میں کمی سمجھتے ہیں جو ان کی کم عقلی پر دال ہے۔سچ یہی ہے کہ عجز و انکساری اور محبت سے ہی دل فتح کیے جاتے ہیں جو دلوں کو فتح کرے وہ فاتح عالم ہوتا۔

پروفیسر عثمان علی کی دوسری برسی کے موقع پر شعراء کرام اور صاحبان فکرونظر نے اپنا کلام پیش کیا۔ عثمان استادکی وفات حسرت آیات کے فورا بعد تعزیتی ریفرنس کے موقع پر میں نے ایک مفصل مقالہ پیش کیا تھا جس میں ” عثمان علی انسٹیٹیوٹ فار پیس اینڈریسرچ”کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ۔اس محفل میں وزیرتعمیرات ڈاکٹر اقبال بھی موجود تھے، انہوں نے ایجوکیشن کالج جوٹیال کو عثمان استاد کے نام سے موسوم کردیا اور انہی کی کوششوں سے اس کالج کا نام ”پروفیسرعثمان علی گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ” رکھا گیا۔پروفیسر عثمان اس کالج کے پہلے بانی پرنسپل بھی تھے۔22اپریل 2019کو دوسری برسی کے موقع پر سیدسجاد علی شاہ نے دعائے مغفرت کروائی۔خوشی محمد طارق،عبدالخالق تاج اور رحمان آہی نے توصیفی کلام پیش کیا۔احمد سلیم سلیمی اور جمشید خان دکھی نے پروفیسر عثمان کی شخصیت پر پُرمغز مقالے پیش کیے۔پروفیسر آمین ضیاء ،میر افضل صاحب اور کالج کے پرنسپل  نے پروفیسر عثمان کی خدمات کو خراج عقید ت پیش کیا۔راقم الحروف نے بھی پروفیسر عثمان علی کی چند یادیں سامعین سے شیئر کیے۔برگیڈر مسعود نے تمام شرکاء اور معزز مہمانوں اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسرعثمان علی کے فیوض و برکات کو جاری و ساری فرمائے اور میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود کو اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کیساتھ عوام الناس سے مزید محبت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button