میرا ہنزہ، تیرا نگر
بے سبب بانہیں نہیں پھیلائی گئی ہیں۔ جب چہار سو بادام، چیری اور سیب کے درختوں کے شگوفوں کی خوشبو سے ہوا کا دامن کچھ ایسا بوجھل ہو جیسے گئے وقتوں میں ریاستِ ہنزہ کی رعایا مقامی حکمرانوں کے سامنے دست بستہ اور خم کھاتی کمر کے ساتھ جھک جایا کرتی تھی۔ یہ الگ بات کہ یہ جھکاؤ ہنوز باقی ہے۔۔۔۔۔۔ جب شگوفوں کی مہک آپ کی روح کی گہرائیوں تک سرایت کر جائے۔۔۔۔۔۔ جب فضا کسی کنواری دوشیزہ کی طرح پاکیزہ ہو۔۔۔۔۔۔ جب خوبانی کے درخت پھولوں کے بوجھ سے کچھ ایسا خم کھائے جیسے کوئی نازک اندام حسینہ بڑے ناز اور انداز سے قدم اٹھاتی ہے یا کوئی دلہن شادی کے پاکیزہ بندھن میں بندھنے کے بعد اپنی پہلی اولاد کی امید سے کچھ ایسا احتیاط سے جھک جھک کے قدم رکھتی ہے کہ متوقع ننھے مہمان کو رحمِ مادر میں زحمت نہ ہو۔۔۔۔۔۔ جب دُھوپ کی آخری کرنیں برف سے ڈھکی چوٹیوں پر رقصاں ہوں، جب ایسا لگے کہ ہنزہ و نگر کا دریا جیسے روشنیوں میں نہائے موتیاں بہا رہا ہو تو میرے جیسے حساس انسان مدہوش ہی نہیں بے ہوش بھی ہوسکتے ہیں۔ یہی تو ان خوبصورت وادیوں کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن جناب ذرا ٹھہریے! مجھے آج ہنزہ و نگر کی خوبصورتی پر کچھ نہیں لکھنا کہ اس جرم کے مرتکب تو میں اکثر ہوتا رہا ہوں۔ میری گزشتہ تحریر پر کچھ احباب کی طرف سے انباکس میں بھیجے گئے مسیجز نے مجھے قدرے حیران کر دیا ہے۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائے۔۔۔۔
’’سر! صرف آپ کا ہنزہ ہی کیوں میرا نگر بھی خوبصورت ہے۔
نگر کا ذکر بھی کرنا چاہئیے تھا۔
آپ تو ہم سب کے رائٹر ہیں پھر صرف اپنے ہنزہ پر ہی نظر کرم کیوں؟
سر! میرے نگر پر کب لکھیں گے؟‘‘
میری گزشتہ کسی تحریر پر ایک صاحب نے باقاعدہ فتویٰ دیا تھا کہ کریمی صاحب نے کبھی دیامر کی اچھائیوں پر کوئی تحریر رقم نہیں کی۔ حالانکہ میری کئی تحریریں دیامر کی مہمان نوازی، تعلیم اور دیگر سماجی مسائل پر ہیں۔ نگر کا ذکر تو کل کی تحریر میں بھی ہوا تھا۔ غالباً ان احباب کو نظر نہ آیا ہو۔ اب بھلا اس میں میرا کیا دوش!
ایسے کئی مسیجز نے حیران ہی نہیں پریشان بھی کر دیا۔ ویسے ایک بات پوچھنی تھی کہ یہ میرا نگر، تیرا ہنزہ، اُس کا دیامر، اِس کا گلگت وغیرہ وغیرہ کی گردان ہم کب سے الاپ رہے ہیں۔ یہ پورا خطۂ شمال ہمارا ہے کہ اس کی دیگر رعنائی کی بات ہی نہ کریں یہاں کی مٹی ہی کی مہک اور یہاں کے پرندوں کی چہک ہی دُنیا جہاں سے جدا ہے۔ ہمارا پیارا گلگت بلتستان ہماری انہی تنگ سوچوں کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہا کہ ہم فرزند زمین نہیں فرزند علاقہ و فرزند مسلک ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میری نظر میں کریم آباد کے چیریوں کے شگفوں کی طرح مناپن کے سیبوں کے باغوں اور چلاس کی خوبانیوں کا اپنا اپنا منفرد ذائقہ ہے۔ ہر علاقے کی اپنی انفرادیت اور خوبصورتی ہوتی ہے ہاں یہ الگ بات ہے ہماری سوچوں میں تنگ نظری ہوسکتی ہے ان خوبصورت علاقوں میں نہیں۔
آج دریائے ہنزہ و نگر کے سنگم پر کھڑے اس کا نظارہ کرتے ہوئے مجھے سلمیٰ اعوان صاحبہ کی یہ سطریں بے اختیار یاد آگئیں:
’’گنش میں دریائے نگر کو دریائے ہنزہ سے ملتے دیکھا۔ پانیوں کو یوں باہم شیر و شکر ہوتے دیکھ کر میں نے بے اختیار سوچا تھا۔ ہم انسان فطرت کے سب سے بڑے شاہکار خود سے کمتر شاہکاروں کو دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ حد بندیوں، گروہوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے سے سوکنوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔‘‘
ہم تمام چیزوں کو مسلک کی عینک سے کیوں دیکھتے ہیں۔ زمین نہ سنی ہوتی ہے نہ شیعہ اور نہ ہی اسماعیلی۔۔۔۔۔۔ یہ تو ہماری تشریحات ہیں۔ اپنی تشریحات کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر ہم اشتراکات کی بات کیوں نہیں کرتے کہ اس میں ہم سب کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ سر دست احمد ندیم قاسمی صاحب کے ان خوبصورت دعائیہ اشعار کو ہی ہم ذادِ راہ بنائیں تو کافی ہے؎
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
اللہ پاک سرزمینِ شمال کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار فرمائے۔ بس جاتے جاتے صرف اتنا کہنا ہے؎
محبتوں کا سفر ہے ہمارے ساتھ چلو