کالمز

نیا پاکستان میں صدارتی نظام کی باز گشت

پچھلے کچھ مہینوں سے پاکستان میں صدارتی نظام کے حوالے سے بڑی گرم جوشی سے گفتگو سُننے کو مل رہی ہے، اور یہ حالات تب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جب ملک میں الیکشن قریب ہو یا ملک کی اندرونی حالات ٹھیک نہ ہو مگر بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ان دونوں نظام حکومت کو سمجھنا ضروری ہے۔

پارلیمانی نظام (Parliamentary System)جمہوری حکومت کا ایک نظام ہے جس میں تمام کابینہ پارلیمنٹ کے تحت کام کرتی ہے اور تمام ارکان اور وزرا اس پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتے ہے۔اس نظام میں اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ آیئنی صدر بھی ہوتا ہے مگر اس کے پاس اختیارات کم ہوتے ہے۔اس نظام میں صوبائی اسمبلی کے ساتھ ایک وفاقی یا مرکزی حکومت بھی ہوتی ہے۔ صوبائی سطح کے فیصلے اور قانون سازی صوبائی اسمبلیوں میں مشاورت سے کی جاتی ہے اور مرکزی سطح کے فیصلے قومی اسمبلی میں کی جاتی ہیں۔قومی اسمبلی کے اوپر سینیٹ ہوتی ہے جسے ایوان بالابھی کہا جاتا ہے سینیٹ قومی اسمبلی میں کئے گئے فیصلوں کا جائزہ لے کر ان قوانیں کو منظور یا مسترد کرتی ہے پھر اس کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منظور کئے گئے قانون کے مسودے پر دستخط کرے تو وہ قانون کی شکل اختیار کرتی ہے۔

صدارتی نظام (Presidential System)ایک ایسا نظام جمہوریت ہے جس میں سربراہ حکومت ہی سربراہ ریاست ہوتا ہے۔ اس نظام میں تمام اختیارات صدر کے پاس ہی ہوتا ہے اور اس نظام میں وزیر اعظم ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا ہے اگر ہوا بھی تو اختیارات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہے۔اس وقت دنیا میں زیادہ تر صدارتی نظام وزیر اعظم کے بغیر ہی ہے۔اس نظام میں کوئی منتخب سیٹ اپ نہیں ہوتا بلکہ صدر اپنی مرزی سے چند لوگوں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے فیصلے کرتے ہے۔صدارتی نظام ہوتا تو جمہوری ہی ہے مگر اس میں منتخب نمائندوں اور عوام کی رائے شامل نہیں ہوتا۔صدر کو اپنی کابینہ کی تشکیل اور تبدیلی کرنے کا کلی اختیار ہوتا ہے یعنی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک صدر ہی ہوتا ہے اور اس کے کئے گئے ہر فیصلے عوام کو قبول کرنا پڑتا ہیں۔ عموماََ صدر کی مدت ۴ یا بعض ممالک میں ۵ سال ہوتی ہے اور اس صدارتی نظام کو سمجھنے کے لئے امریکا بہترین مثال ہے۔

پاکستان میں صدارتی نظام کے ہوالے سے لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں۔اگر ہم عمران خان کے ماضی کے بیانات دیکھیں تو انھوں نے بھی کہہ چکا ہے کہ وہ صدارتی نظام کے حامی ہے اور ایوب خان اُن کا ہیرو ہے۔ ڈاکٹر عطاالرحمان نے بھی قائد اعظم کی ڈائری کا حوالہ دے کر صدارتی نظام کی حمایت کی ہے لیکن یہ بات ابھی تک نہیں معلوم کی قائد اعظم نے کونسی ڈائری میں یہ بات لکھی ہے۔

2016 میں جب مصطفی کمال پاکستان آئے اور اپنی نئی جماعت کا اعلان کیا اُس نے بھی صدارتی نظام کے حق میں بھر پور بات کی، اس کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی صدارتی نظام کی حمایت میں بات کی ہے اور ساتھ ساتھ موجودہ وزیر فروغ نسیم اور فیصل واوڈاکی زبان سے بھی یہ بات نکلی ہے۔

پاکستان کی ۲۷سالہ تاریخ بھی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس ملک میں صدارتی و پارلیمانی نظام حکومت کس طرح سے چلی ہے۔جب 1956 میں پہلی بار صدارتی نظام میں اسکندر مرزہ صدر بنے اور اس کے دو سال بعدجنرل ایوب خان نے1858 میں 1956 کے آئین کو اٹھا پھینکااور پھر 1962کو خودساختہ آئین کے زریعے صدارتی نظام نافظ کردیااور یہ نظام بھی چار سال میں ختم ہوگئی اور پورے ملک میں پارلیمانی نظام کو لانے کے لئے آواز اُٹھنا شروع ہوگئی اور ساتھ ساتھ 1971 میں مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا۔پھر اس وقت کے نمائندوں نے کوششوں سے 1973 کا آئین نافذ کیا تو پھر جنرل ضیاالحق نے 1977کو مارشل لا لاگادیاتو پھر صدارتی نظام کے حق میں آواز بلند ہوئی، جنرل ضیا الحق نے پھر 58(2)B اور 62,63 کے ترمیمات کر کے صدارتی نظام لانے کی کوشش کی اور 1988 کے ہوائی حادثے کی نذر ہوئے۔اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے دور میں صدارتی و پارلیمانی نظام کی کشمکش جاری رہااورپھر 12 ویں اور 13 ویں ترمیمات کے زریعے سے پارلیمانی نظام کو بحال رکھا کہ جنرل پرویز مشرف نے 1999 کو پھر مارشل لا نافذ کیا پھر 2001میں صدارتی نظام دیکھنے کو ملا۔2008 کے الیکشن کے بعد 18 ویں ترمیم منظور کر کے صدر کے اختیارات کو وزیر اعظم کو منتقل کر دیا اور یوں پارلیمانی نظام بحال ہوگئی۔

71 سالوں میں تقریباََ پاکستان میں 12 صدورگزرے جن میں 6 فوجی جبکہ 6 سویلین تھے اور صدارتی نظام کو چھ فوجی اور دو سویلین سمت آٹھ صدور نے اپنایا۔ جب قومیں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے تو پھر وہ سوچ سمجھ کر آنے والے پچاس یا سو سال کے لئے اپنا لائحہ عمل طے اور واضح کرتا ہے جسے ہم آئین کہتے ہے اور پھر اپنے منزل کی طرف بھرپور محنت، کوشش اور لگن سے آگے بڑھتے ہے۔

امریکیوں نے بھی شروع میں یہی طے کیا تھا کہ ہم نے صدارتی جمہوری نظام کے تحت آگے بڑھنا ہے اور وہ اتنے آگے بڑھے کہ سوپر پاور بھی بنے اور چاند پر بھی پہنچے۔ اسی طرح سے برطانیہ کی بات کرے توجسے پارلیمانی جمہوریتوں کی ماں قرار دیا جاتا ہے1215 کو ایک شاہی فرمان کے تحت اپنا سفر کا آغاز کیا تھا اور آج مثالی پارلیمانی جمہوری نظام کی شکل اختیار کیاہے۔

اب پاکستان میں صدارتی نظام کی بحث شروع ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ 71 سال گزرنے کے بعد بھی ہم یہ طے نہ کر سکے کہ یہاں پر صدارتی یا پارلیمانی نظام ہونی چاہیے اور کونسا نظام اس ملک کے لئے ٹھیک رہے گا جس کسی ملک کی حالت یہی رہا ہو وہاں پر کیا ترقی ہوگی؟ پاکستان کے ساتھ جن ترقی پذیر ممالک میں پارلیمانی نظام آج رائج ہے یقین مانیں جب پاکستان سمیت اُن ممالک کی ترقی کا جائزہ لیتے ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس پارلیمانی نظام کے تحت جو شخص زیادہ پیسے والا اور اثر وسوخ والا ہووہی الیکشن جیتا ہے۔اس جیت کی خاطر وہ اپنا پیسہ پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور بعض اپنے برادری کے زریعے جیتا ہے۔اور یہ وہ لوگ ہوتے ہے جن کو قانون سازی اور حکومت کرنے کا کچھ علم نہیں ہوتا آج تک ان کے آنے کا مقصد صرف اور صرف مال بنانا ہوتا ہے۔اسی لئے اب پاکستان کے عام اور ناخواندہ لوگوں کو بھی یہ پتہ لگ گیا ہے کہ اس پارلیمانی نظام حکومت میں لوگ اس لئے الیکشن جیتے ہے کہ اس ملک کو لوٹا جائے جو کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔

اگر ہم طرز حکمرانی کی بات کرے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دوسرے ممالک میں صدارتی نظام ہے جو کسی خلل کے بغیر آج تک بلکل ٹھیک طریقے سے چل رہے ہیں۔اور جب پارلیمانی نظام کی بات کریں تو برطانیہ کے ساتھ کچھ ممالک ہے جہاں پر کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ایک ہم ہی ہے جو اس نظام میں رہ کر اس ملک کو لوٹ رہے ہیں، قانون کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اس قوم کے مستقبل کی پلانینگ کچھ بھی نہیں، اگر ہم چاہتے نہیں ہے آگے بڑھنے کہ تو اس میں نظام حکومت کا کیا قصور، قصور تو ۱۲ کروڈ عوام کا ہے جو اپنے ملک اور مستقبل کے قانون سازی اور پلانینگ کے لئے جن لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجتے ہے۔

اگر موجودہ حکومت صدارتی نظام لانا چاہے تو یہ اتنا آسان کام نہیں، صدارتی نظام کی نسبت پارلیمانی نظام طاقتور نظام ہیں۔اس لئے موجودہ حکومت کے لئے پارلیمانی نظام کو ناکام ثابت کرنا پڑھے گا جو کہ حالات یہی دیکھائی دے رہا ہے۔تحریک انصاف کی جماعت صدارتی نظام لانے کے لئے اسے آئین بدلنے کے لئے اسے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو ان کے پاس نہیں ہے،اگر اکثریت موجود بھی ہو تو ایسا کرنا ممکن نہیں اس کی وجہ سپریم کورٹ، سیاسی پارٹیاں اور عوام اب جان چکے ہے کہ پہلے صدارتی نظام اس ملک میں کیسے لایا گیا ہے۔

ایک طرف تو ملک میں صدارتی نظام کی بات تو دوسری طرف غریب عوام کی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے اس کی وجہ 71 سالوں میں جمہوری نظام و آئین کو عوام کی فلاح و بہبود اور جمہوریت کو فروغ دینے کی بجائے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے اور کر رہے ہیں۔اسی لئے حکومت کی ناکامی نظام کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔

ایک اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 75 فیصدجمہوری ممالک میں صدارتی نظام حکومت رائج ہے اور برطانیہ کے ساتھ کچھ ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔توپاکستان میں دونوں نظام کو 71 سالوں سے آزمائے گئے ہے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ خرابی نظام میں نہیں کسی اور میں ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button