کالمز

صوبائی حکومت کی اداکاریاں اور وزیر اعلی کا دھرنا

تحریر: وزیر نعمان علی 

ہربن اور دیامر کی حدود میں تنازعہ پانچ افراد مارے گئے۔ مگر حفیظ الرحمن صاحب خاموش تماشائی بنے رہے۔اسوقت وفاق میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ آج داریل تانگیر کے جنگلات کا تنازعہ آٹھا تو موصوف دھرنے کے شرکاء کے پاس پہنچ گئے۔ اور عام آدمیوں کیطرح جنکی شنوائی نہیں ہوتی تو دھرنا دے کر مطالبات حل کرواتے ہیں۔ جن لوگوں کو مذکرات کی ٹیبل پر ہونا چاہیے جب وہ عام آدمی کیساتھ دھرنے میں آدکاریاں کریں تو پھر مذکرات کون کرے گا۔ جب سبسڈی کا خاتمہ ہونے جارہا تھا۔ لوگ روڈ پر دھرنا دے رہے تھے تو موصوف اسوقت دھرنے کے شرکاء کو دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ جب وزیرآعلی صاحب ٹیکس کے فوائد گنوا رہے تھے۔ تب عوام لانگ مارچ کررہی تھی تو موصوف شرکاء کو بیرونی ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔ خالصہ سرکار کے نام پر لوگوں کی زمینیں قبضہ ہورہی تھی تو جناب سرکاری فلسفہ بیان کررہے ہوتے تھے۔ آج جب پڑی کے قریب سے گزر رہا تھا تو تقریبا دو درجن علیشان گاڑیوں کا قافلہ انتہائی تیز رفتاری سے روڈ سے گزر رہا تھا تو ڈر کے مارے میں نے آپنی گاڑی روڈ کے کنارے لگائی۔ شہنشاہ کا قافلے کی تیز رفتاری سے گمان ہوا کہ شہنشاہ صاحب داریل تانگیر کے عوام کے درمیان اداکاری کے لئے دن کی روشنی میں پہنچنا چاہتے ہیں۔تاکہ دن کی روشنی میں بہترین اداکاری کے لئے فوٹو گرافی کی جاسکے۔

جناب وزیر آعلی صاحب چار سالوں سے میرٹ کا قتل عام آپکے احکامات سے ہوتا رہا۔حقداروں کا حق مارا جاتا رہا۔ ٹھیکیداروں کی حکومت میں سرعام کمیشن خوری ہوتی رہی۔ تب آپ اور آپکے پارسا وزراء کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ لوکل گورنمنٹ کی سکیموں کی بدترین بندر بانٹ ہوتی رہی تب شہنشاہ معظم کا اندر کا ادکار رسما ً ہی ادکاری کے لئے سٹیج پر نہیں آیا۔ پورے گلگت بلتستان کا میرٹ ایک محلہ اور استور کے ایک ہی گاؤں پر ہر بار ختم ہوجاتا ہے۔ تب آپکے اندر سمایا ہوا قرآن کی حفظ کی ہوئی آیتیں و سورتیں جو عدل و انصاف کے حوالے سے واضح نشاندہی کرتی ہیں۔ اسکی تشریح تو آپ نے عدل و انصاف کی دھجیاں آڑا کر کی اور ابتک کرتے آرہے ہیں۔ کل ہی ضلع استور ویسٹ منیجمنٹ میں آپکے وزراء نے کلہاڑے سے میرٹ کا قتل عام بھی کیا۔آپنے بندوں کی تعیناتی کروائی۔ اور انٹرویو کے حوالے سے چیف کورٹ کے فیصلے کو ویسٹ منجمینٹ کے صوبائی ذمہ داران و ضلعی ذمہ داران نے پاؤں تلے روند ڈالا۔ آپکا عدل۔ آپکی عوام دوستی و پارسائی و پرہیز گاری کے دعوے کہاں گئے۔ جناب والا ہم نے ہربار ہر دفعہ آپکو آپکے رفقاء کو عجیب روپ میں دیکھا ہے۔ آپ جمہور اور جمہوری روایات کے آمین نہیں رہے۔ آپ کی حکومت میں آپنے حق کے لئے آواز آٹھانے والے سیاسی کارکنان۔ عوام کی آواز کو صحافتی ذمہ داریاں نبھا کر ایوان بالا تک پہنچانے والے صحافیوں کو ہم نے شیڈول فور کے شکنجے میں پھنستے ہوئے اور پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے بیواؤں کو آپکے محل کے باہر گڑگڑاتے ہوئے دیکھا۔ تب محل کے اندر آپ ٹھکیداروں کیساتھ لین دین کے معاملے میں مصروف نظر آئے۔ ہم نے ایک متحرک ورکر محمد سلیم کو آپکی بے اعتنائیوں اور روکھے روئے کیوجہ سے کڑھتے ہوئے دیکھا۔ اور انکے داغ مفارقت دینے کے بعد انکے لواحقین کیساتھ آپکا سرد رویہ بھی دیکھا۔ جناب والا آپکا دور ہے۔ آپکی حکومت ہے اور وہ بھی آخری مرحلوں میں۔ جو بھی زیادتیاں ہوئی۔میرٹ کا قتل ہوا۔کرپشن کا باذار گرم ہوا۔ صحافیوں کیساتھ اور اخبارات کیساتھ جو مظالم ڈھائے گئے۔ اخباری اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا۔ غیر منتخب لوگوں کے ذریعے اخبارات میں آپنے من پسند خبریں چھپوانے کی کوششیں ہوتی رہی۔ وہ عوام اور تاریخ یاد رکھیں گی۔ آپکی میٹھی لفاظیت اور الفاظ کے بم پھاڑنے کی مہارت اور اندرون خانہ آپنوں کو ریوڑیاں بانٹنے اور قول و فعل میں تضاد بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اخری دنوں میں آپ جیسے بھی اعلانات کریں۔ آپنے ہی ممبران کو دیوار سے لگاتے رہیں۔دھرنوں میں بیٹھیں عوامی جلسوں میں جتنی بھی شعلہ بیانیاں کرتے رہیں۔ اسکے فوائد آپکو ہرگز نہیں ملنے۔

بعد آز مرگ سہراب نوشادرو چی بکار کے مصداق سہراب کے مرنے کے بعد تلاش بسیار کے بعد بھی رستم نوشادرو نامی جڑی بوٹی جس سے سہراب کا علاج ہونا تھا لایا تو اسکا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button