حرام مرغی اور حلال رشوت
شمس الرحمن تاجک
ڈسٹرکٹ انتظامیہ کچھ دن پہلے ایک نوٹی فیکشن جاری کرچکی ہے گوشت کی قیمتوں کے سلسلے میں، اس میں واضح طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم نے ایک کاغذ کا ٹکڑا برسر بازار ریٹ لسٹ کے نام پر لگا دیا اب عوام اور کاروباری حضرات خاص طور پر قصاب اور عوام رمضان کے اس بابرکت مہینے لڑتے رہیں۔ کسی نے انتظامیہ کو شکایت کرنے کی کوشش کی تو ہم شکایت کنندگان کی پوری تفصیل مرغی فروشوں کو فراہم کردیں گے۔ ہم نے اشتہار لگادیا، ستو پی اور سو گئے۔ عوام جانے اور ان کا کام۔ شہنشاہ معظم کا حکم نامہ کس کے لئے ہے یہ نہیں پتہ۔ مگر اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ کم از کم چترال میں کبھی ممکن نہیں رہا۔ شاہی فرمان میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ زیارت چیک پوسٹ پر مرغیوں کا وزن کرنے کے بعد 1000 گرام سے کم وزن والی مرغیوں کو تلف کیا جائے گا۔ مگر یہ کمال ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ زیارت چیک پوسٹ پر تعینات ہمارے اتنے بہادر جوانوں کی عقابی نظروں سے پانچ سو گرام والی مرغیاں بچ کر چترال کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ کہیں تو مسئلہ ہے، یا تو نظریں عقابی نہیں یا پھر مرغی والے عقاب سدھانے کے فن سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہی بنتا ہے اس لئے اس پر انتظامیہ کو پریشان ہونے کی ضرورت کبھی تھی اورنہ ہونے والی۔
انتظامیہ مرغی کی قیمتوں پر کنٹرول عوام کے ذریعے کروانا کیوں چاہ رہی،خود کیوں نہیں کرپارہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک سفر کے دوراں پیش آنے والا واقعہ گوش گزار کررہا ہوں آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ کیوں سب کچھ کنٹرول نہیں ہورہا ہے۔
سال 2016کے جون میں پشاور کسی کام سے جانا ہوا واپسی پر لواری ٹنل سے چترال سائیڈ پر مرغی والوں کی دو گاڑیاں ایک سنسان پہاڑی کے نیچے کھڑی تھیں ٹیکسی ڈرائیور کے توجہ دلانے پر ہم نے غور کیا کہ مرغی والے گاڑی سے مری ہوئی مرغیاں الگ کررہے ہیں اور قینچی سے سر کاٹ کر پلاسٹک کے تھیلیوں میں ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا ہمارے لئے۔ ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ وہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں مرغیاں مصدقہ طور پر ہلاک ہوچکی ہیں بلکہ رائج الوقت طریقے کے حساب سے حرام کی کٹیگری میں شامل ہوچکے ہیں پھر یہ لوگ گردنیں قینچی سے کاٹ کر تھیلیوں میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ استفسار پر ڈرائیور نے بتایا کہ یہ لوگ چترال آتے ہوئے لواری ٹنل کراس کرنے کے بعد جتنی بھی مرغیاں مر جاتی ہیں ان سب ہلاک شدگان کی گردنیں قینچی سے کاٹ دیتے ہیں اور آگے تمام چیک پوسٹس پر رشوت کے طور پر دیتے ہیں۔ رشوت لینے والوں کو ذبح شدہ حلال مرغیاں مل جاتی ہیں اور مرغی والوں کو گاڑی میں موجود تمام غلاضتوں کے ساتھ چترال میں داخل ہونے کا پروانہ۔
بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چار سو اور پانچ سو گرام کی مرغیاں چترال کیسے پہنچ جاتی ہیں،کیونکر چار سو سے پانچ سو تک کی بک بھی جاتی ہیں۔ پتے کی بات ہے کہ اگر آپ قینچی سے حلال کرکے مرغیاں کھانے کے شوقین ہوں تو پھر انتظامی امور بھی قینچی سے ہی چلائیں گے۔ عوام بے چاروں کے پاس نہ تو وہ قینچی ہیں اور نہ ہی حلال مرغیاں۔ وہ کل بھی بے بس تھے آج بھی بے بس ہیں۔
انتظامیہ نے اپنے شاہی فرمان میں رابطہ کرنے کے لئے کچھ طریقے بھی بتائے ہیں کہ ان ان طریقوں سے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں تاکہ ہم آپ کے علاقے میں آکر ان مرغی فروشوں کو آپ کے مکمل کوائف سے آگاہ کرکے آپ اور مرغی فروش میں خاندانی دشمنی کی بنیاد رکھ سکیں تاکہ آئندہ کوئی بھی بندہ کسی بھی غیر قانونی کام کی شکایت کرکے اپنے لئے دشمن پیدا کرنے سے توبہ کرلے۔ انتظامیہ کو کوئی اب یہ تو بتائے کہ عوام کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ چترال میں مرغیاں لانے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ زیارت چیک پوسٹ سے ہو کر آتی ہے افغانستان یا چین سے مرغیاں چترال نہیں آیا کرتیں کیونکہ چین والی مرغیاں کافر لوگوں کی ہیں اور افغانیوں کی اپنی کوئی مرغیاں موجود نہیں وہ ہماری مرغیاں کھا کھا کر ہمیں ہی آنکھیں دکھانے کو فرض اور اپنے ملک سے وفاداری سمجھتے ہیں۔اس لئے یہ واضح ہے کہ آپ جب زیارت چیک پوسٹ پر کم وزن والے مرغیوں کو چترال آنے ہی نہیں دیں گے تو نہ چترال کے مرغی فروشوں کو برقی ترازو لینے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی شکایت کرنے والے عوام کو اپنے پورے خاندان کا ڈیٹا آپ کے پاس جمع کراکے بھرے بازار ذلیل ہونا پڑے گا۔
ہم نے اس روز دروش تک مرغی والی گاڑی کا پیچھا کیا ڈرائیور نے تمام حلال مرغیاں حقداروں میں بانٹ دیں۔ دروش کے ایک پیٹرول پمپ پر جب مرغی والوں کی گاڑیاں رک گئیں ہم بھی ٹیکسی سے اترے،مرغی والے کے پاس گئے۔ سوال تھا کہ آپ سوچے سمجھے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حرام مرغیاں کیوں ان لوگوں کو دے رہے تھے؟ ڈرائیور نے سر سے پیر تک فقیر کا خوب جائزہ لیا۔ پھر فرمانے لگے ”صاحب آپ رشوت کو حلال سمجھتے ہیں“۔ جواب لاجواب تھا۔