قصہ ایک سفر کا
تحریر: کریم مدد
ارادہ باندھا تھا چترال جانے کا.. پھنڈر کی قدرتی مصوری کو اپنی نگاہوں میں محفوظ کرنے, وہاں کے شفاف, یخ اور سبک سیر پانیوں کو چھو کر محسوس کرنے, لنگر کے تاِحد نظر سبزے سے تازگی کشید کرنے, شندور کے ٹیلوں میں گھری نیلی جھیل میں آسمان اور بادلوں کے آوارہ ٹکڑوں کا عکس دیکھنے, پھر چترال کی فضا میں ستار کے سُروں کو اپنے تصور کے کانوں سے سننے, وہاں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے, کیلاش کی جادوئی وادی میں اپسراؤں کے ساتھ محوِ رقص ہونے اور وہاں کی چاندنی راتوں میں اپنی زندگی کی تھکن اتار کر جذب و سرور کے چند لمحے پا لینے کا خواب ہماری سہل پسندی کے سبب تعبیر کے درجے تک نہ پہنچ پایا لیکن اسی کشمکش میں ہم پہنچے وادئ یاسین..
محبوب کی محبوبیت اور جہانگیر کی مجذوبیت تو اکثر ہماری ہم سفر ہوتی ہی ہے اس دفعہ فہد کی معصومیت بھی ہمارے ساتھ تھی.. فہد ہمارا تین سالہ بھتیجا ہے جو ہمارے گروہ میں زبردستی گھس آیا تھا اور شینا ضرب المثل "شُدار سے را بجارئی” یعنی "بچے کے سامنے بادشاہ کی بھی ایک نہیں چلتی” کو درست ثابت کر دیا تھا.
فہد کی معصومانہ باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمارا سفر آگے بڑھ رہا تھا. گاڑی میں شینا موسیقی بج رہی تھی لیکن فہد کی فرشتوں سی معصوم باتیں اس موسیقی سے زیادہ تسکین آمیز تھیں… ہم تین جو بدقسمتی سے بڑے ہو گئے تھے ,اندر ہی اندر یہ تمنا جاگ چکی تھی کہ کاش ہم بھی بچے ہوتے… چند لمحوں میں ہم بچوں کی دنیا سے بڑوں کی دنیا میں لوٹ آتے تو زندگی اپنی تمام وحشتوں کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑی ہوتی. ہم اپنا کھوکھلا پن چھپانے کےیے زمانے کو کوستے, لوگوں پہ تنقید کرتے, غیر موجود دوستوں کی خامیاں تلاشتے اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اپنا وجود درست ثابت کرنے کی سعی کرتے آگے بڑھ رہے ہوتے کہ اچانک فہد کا کوئی معصوم جملہ کانوں سے ٹکراتا. یہ جملہ ہمارے کھنچے ہوئے چہروں کو کوملتا بخشتا, حسد کی آگ بجھ جاتی, زندگی کی وحشت ہَوا ہوجاتی اور زیست کی خوبصورتی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہوتی.. زندگی کے اس سیاہ و سپید رنگ کی رسی سے بندھے ہم یاسین خاص پہنچے. سڑک پہ کافی چہل پہل دیکھی تو رک گئے. پتا چلا کہ پولو کھیلا جارہا.. موقع غنیمت جانا اور پولو دیکھنے چوگان گاہ پہنچ گئے.. پونیال کی ٹیم کا میچ کسی دوسری ٹیم کے ساتھ تھا. ہم کہ خود کو بڑے آزاد خیال اور تعصبات سے پاک سمجھنے والے تین پونیالی اپنی ٹیم کی جیت سے سرشار ہوگئے اور اپنے کھلاڑیوں سے مل کر مبارکباد دی اور اپنا سفر دوبارہ شروع کیا. طاؤس سے داہنے طرف مڑ کے دریا پل کے ذریعے عبور کیا پھر داہنے جانب مڑ کر گوجلتی نامی گاؤں میں داخل ہو گئے.. یہ گاؤں مجھے یاسین کے دیگر علاقوں سے الگ, خاموش, پتھریلا اور جنگل نما لگا.. وہی ہماری بہن کا گھر تھا. وہاں چائے پی اور فہد کو وہاں چھوڑ کے ہم اسی رخ پہ سندی میں داخل ہو گئے. سندی یاسین کا سب سے بڑا گاؤں ہے. ہماری منزل یہاں کی تاریخی جگہ مڈوری تھی. مقامی لوگوں سے پوچھتے اس ٹیلے کے دامن میں پہنچ گئے جس پر کسی زمانے میں ایک قلعہ تعمیر کیا گیا تھا. گاڑی سے اتر کر ہم اپنے طور پہ ایک پگڈنڈی پہ ہو لیے. کافی آگے جانے کے بعد ایک شخص ہم کو دیکھ کے ہماری طرف آیا.. اور قلعے کی باقیات تک رضاکارانہ طور پر ہمارا گائیڈ بن گیا. رستہ عمودی تھا لیکن مختصر تھا. جب ہم اوپر ٹیلے پہ پہنچے تو ہم سب بری طرح ہانپ رہے تھے سوائے ہمارے گائیڈ عمران شیخ کے… تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے ٹیلے کے دامن میں پھیلے گاؤں نظارہ کیا… کتنا حسین منظر تھا یہ.. ٹیلے کے پیچھے دو نالے بہہ رہے تھے. داہنے طرف کا نالہ کرکلتی کہلاتا ہے جبکہ بائیں طرف اسمبر کا مشہور نالہ ہے جہاں سے گزر کر آسانی کے ساتھ دوسری طرف وادی اشکومن پہنچا جا سکتاہے. ٹیلے کے سامنے سندی کا وسیع و عریض گاؤں پوری شان و شوکت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے. دریا کے پار سلطان آباد اور طاوس کے نظارے بھی آنکھوں کو تازگی بخشتے ہیں. زندگی اپنی پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں ہے. اور جس ٹیلے پہ ہم کھڑے ہیں… مڈوری قلعہ… وہ اپنی کوکھ میں سینکڑوں انسانوں کا خون اور ہڈیاں سمیٹے انسانوں کی سفاکیت پہ ماتم کناں ہے.. یہ بے آب و گیاہ ٹیلہ یاسین کے باسیوں پر ٹوٹنے والی قیامت کا دکھ ابھی تک نہیں بھولا. جوانوں کا خون, بوڑھوں کی آہیں, بچوں کی چیخیں اور خواتین کے آنسو مل کر اس ٹیلے پہ سوائے "اِسْپَندُر” کے کسی اور پودے کو اگنے نہیں دیتے… جس ٹیلے پہ مردوں کا لہو بہا ہو اور جہاں سے حسین و جمیل عورتوں کو زبردستی اٹھا لے جایا گیا ہو وہاں کی کوکھ سے "اسپندر” ہی پھوٹ پڑتا ہے.. کسی اور پودے میں اتنی ہمت کہاں… لیکن اس ویران ٹیلے کے سامنے پھیلی وادی اور اس ٹیلے پر ملنے والے یاسین کے دو بچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ زندگی رکتی نہیں. جیسے بھی سانحے گزرے لیکن زندگی کا سفر جاری رہتا ہے, ظلم جتنا بھی سفاک ہو, زندگی کی تخلیق کو ختم نہیں کر سکتا, زندگی جنم لیتی ہے, سہتی ہے, آگے بڑھتی ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلا کر رہتی ہے…
مڈوری کے قلعے کی باقیات, وہاں سے اردگرد کے مناظر اور زمانے کی آزمائشوں سے دھندلی پڑتی اپنی صورتوں کو کیمرے میں محفوظ کرنے کے بعد ہم نیچے اترے.. عمران شیخ کی دعوت سے معذرت کی اور ہندور کی طرف گامزن ہوئے
ہندور میں ابھرتے ہوئے فنکار وجاہت عالمی نے اپنے گھر پہ ہم کو خوش آمدید کہا. وجاہت سے مل کر بڑی خوشی ہوئی. یہ نوجوان موسیقی کے مختلف آلات اپنے گرد سجائے مست ملنگ لگتا ہے. این سی اے سے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی ہے, رباب بجانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں. ملکی سطح پہ ان کے فن کو سراہا جا رہا ہے اور مختلف اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں.. کچھ عرصہ پہلے ” آمد” کے نام سےایک انتہائی خوبصورت پروجکٹ پیش کر چکے ہیں اور آج کل یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا تاجکستان کے ساتھ جی بی اور سنٹرل ایشیائی موسیقی میں مشترکات ڈھونڈنے میں لگے ہیں..
وجاہت نے رباب کے تاروں اور چیری سے ہماری ابتدائی تواضع کی. پھر مختلف موضوعات پر گفتگو رہی. رات کے کھانے کے بعد صحن میں آگئے تو چاندنی کِھلی ہوئی تھی.. ٹھنڈی ہوا میں دیسی بیر کی مست کر دینے والی خوشبو رچی ہوئی تھی, سارا منظر چاندنی میں نہایا ہوا تھا اور رباب کے تار چھیڑتے وجاہت کی من موہنے والی آواز تھی..
ہونٹوں سے چھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
دل پہ وارد ہونے والی اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں جو ان لمحوں میں ہم نے محسوس کی.. یقین ہو چلا کہ موسیقی روح کی غذا ہے. کافی دیر تک محفل جمی رہی. جب خنکی فضا میں بڑھ گئی تو ہم کمرے میں آگئے.
صبح اٹھ کے درکوت جانے کا منصوبہ تھالیکن سڑک کی حالت اس قابل نہیں تھی سو وجاہت سے رخصت لی اور برکلتی میں بروشال پبلک اسکول میں اسلم انقلابی سے ملاقات کی. یہی ہماری ملاقات اس ننھی پری سے ہوئی جس پہ اس کے والد محترم شکور خان ایڈوکیٹ نے ایک بہت ہی پیارا اور دل میں اترنے والا مضمون لکھا تھا.. علیزہ سے ملنے کے بعد ہم گوجلتی واپس آگئے اور ظہرانے کے بعد فہد کو لے کر واپسی کا سفر شروع کر دیا. یاسین خاص میں ایک بار پھر پولو دیکھنے کے لیے رکے. میچ پونیال اور گلگت اسکاؤٹس کا تھا جو یک طرفہ مقابلے کے بعد پونیال نے دو کے مقابلے میں نو گول سے جیتا… ہمارے اندر کا تعصب ایک بار پھر ابل پڑا اور اپنے تمام تر نام نہاد نظریات, کتابی مباحثوں اور جعلی نعروں کو بھول کر ہم نے اپنی ٹیم کی فتح کا جشن منایا اور خوشی سے سرشار شام کے وقت گاہکوچ پہنچ گئے