پیر نعیم چشتی صاحب کے اعزاز میں محفلِ مشاعرہ
تحریر: جمشید خان دکھی
صاحبزادہ پیر نعیم چشتی صاحب کا نام حلقہ ارباب ذوق (حاذ) گلگت کے بانی اراکین میں شامل ہے۔ 1980میں آپ گلگت میں مدرس بھرتی ہو کر آئے اور 2010تک یہاں کے طلبہ کوزیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔ آپ کا تعلق دائیوال جوہر آباد خوشاب سے ہے۔ آپ گولڑہ شریف کے سجادہ نشین پیرنصیر الدین گولڑوی کے مریدین میں شامل ہیں۔ نعت خوانی میں آپ اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آج کل جوہر آباد خوشاب برہان ٹاؤن میں ” دی بیسٹ پبلک اسکول ” کے پرنسپل ہیں اور اپنے علاقے میں پیر محمد نعیم چشتی کی حیثیت سے آباؤ اجداد کے جتنے مریدین ہیں اُن کی روحانی تربیت اور خدمت پر معمور ہیں آپ29دسمبر1950میں پیدا ہوئے۔ آپ بہاولپور یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ماسٹر کر چکے ہیں اور درس نظامی کی تعلیم انوار العلوم ملتان سے حاصل کی ہے۔ آپ نے 1980سے 2010تک تقریباََ تیس سال کا عرصہ گلگت میں گزارا
اور 2010میں سکیل اٹھارہ میں ریٹائر منٹ کے بعد 2011 کو اپنے آبائی گاؤں واپس چلے گئے۔ آپ بڑے ملن سار اور فقیر منش انسان ہیں۔ چشتی صاحب کے شاگر د گلگت بلتستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں کے لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ 1973-74سے اردو میں شاعری کرتے ہیں اور ان کا کلام1992میں "شمالی علاقے کا اردو ادب حصہ نظم "میں چھپ چکا ہے۔ حاذ کے قیام میں چشتی صاحب کا کلیدی کردار رہا ہے۔ گزشتہ دنوں یہ مرد قلندر گلگت آئے تو آپ کی ان ہی خدمات کے اعتراف میں حلقے کے احباب نے ان کے ساتھ ایک ادبی نشست کے اہتمام کا فیصلہ کیا۔ اسطرح 18جون 2019کو منگل کے تین بجے ریویریا ہوٹل گلگت میں حاذ کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ ہوئی جس میں پیر موصوف مہمان خصوصی تھے جبکہ میر محفل ضلع دیامر کی معروف ادبی اور سیاسی شخصیت اور صابق عبوری حکومت گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر جناب عنایت اللہ خان شمالی تھے۔ نظامت کے فرائض جناب غلام عباس نسیم نے انجام دیئے۔ اس محفل میں جن شعراء کرام نے شرکت کی ان میں پیر محمد نعیم چشتی، جناب عنایت اللہ خان شمالی، پروفیسر محمد امین ضیاء، عبدالخالق تاج، خوشی محمد طارق، حلیم فیاضی، محمد نظیم دیا، حفیظ شاکر، غلام عباس نسیم، ڈاکٹر امجد ساغر یونس سروش، آصف حسین آصف، عبدالبشیر بشر، مولانا تنویر حیدری،حلیم اداسی، مولانا عرفان، محمد علی قیصر اور جمشید خان دکھی کے نام شامل ہیں۔دیامر رائٹر فورم کے سابق صدر حلیم فیاضی نے اس موقع پر بحیثیت مدرس چشتی صاحب کی شفقت کا خصوصی تذکرہ کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جناب عنایت اللہ خان شمالی نے حاذ کے احباب کا اس پروقار محفل کے انعقاد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہی محافل سے علم و ادب اور محبت کی کرنیں پھوٹتی ہیں لہذا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔مہمان خصوصی پیر نعیم چشتی صاحب نے اپنا کلام سنانے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مجھے حاذ اور گلگت کے دوستوں کی محبتوں نے اب تک جوان رکھا ہے۔ خدا ان سب کو سلامت رکھے۔ آپ نے حلقے کے دوستوں کو خوشا ب آنے کی دعوت بھی دی۔ مہمان خصوصی نے اُن کے اعزازمیں اس تقریب کے انعقاد پر حاذ کے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا۔ اس تقریب میں معروف قلم کار جناب احمد سلیم سلیمی، جناب حوس خان، جناب جہانگیر، جناب مسعود، جناب مشتاق راہی، اسد اقبال اور امام داد نے بھی شرکت کی۔ اردو کلام سنانے والے شعراء کا نمونہ کلام ذیل میں نذر قارئین کیا جاتا ہے:
پیر نعیم چشتی:
مسکراتے ہیں اُلفتوں کے خیال
تیری چاہت کے، قربتوں کے خیال
اب بھی رقصاں ہے دل کی دھڑکن میں
تیری رنگیں شرارتوں کے خیال
ٌٌ***
اہتمامِ شب ِفرقت کا مزہ یاد نہیں
ہم ہیں درویش ہمیں کوئی ادا یاد نہیں
اِن کے ہاتھوں سے میں ہر روز پیا کرتا ہوں
کتنا سرکا ر پلاتے ہیں، ذرا یاد نہیں
ہم سردار بھی ہنستے ہیں زمانے میں نعیم
ورنہ لوگوں کو تو جینے کی ادا یاد نہیں ؎
پروفیسر محمد امین ضیاء:
یہ رنگ و خون کے قضئے ختم نہیں ہوتے
سبھوں کو حلقہ انسانیت میں ضم کر لو
عنایت اللہ خان شمالی:
چشم وجدان سے اِک مرد قلندر دیکھا
موجزن زُہد کے سینے میں سمندر دیکھا
ؑعبدالخالق تاج:
دیکھو تو تصوف میں سراپا ذرا ڈھل کے
رکھ دے گی طریقت تری دنیا کو بدل کے
خوشی محمد طارق:
جینا ہے بہر طور تگ و دو بھی نہیں ہے
دنیا مرے اک خواب کا پر تو بھی نہیں ہے
محمد نظیم دیا:
گنہگار ہوں میرے عذاب کم کر دے
یا اس جہان سے حسن و شباب کم کر دے
حلیم فیاضی:
اوجھل مِری نظروں سے بظاہر تو ہے لیکن ؎
زندہ ہے رگ و پے میں مری ماں مرے اندر
حفیظ شاکر:
جب چاند آسمان محبت کو چھوڑ کر
نکلا تو اُس کے پیچھے ستارہ نکل گیا
یونس سروش:
در حبیب سے نسبت وہی عطا ہو جو
سروش کو بھی زمانے میں محترم کردے
آصف علی آصف:
اک حسیں پیغام جو ارسال کرتی ہے بہار
اُس کی زیبائش کا استقبال کرتی ہے بہار
تنویر حیدری:
جہاں ہو احترام آدمیت پیش انساں کے
وہاں مسئلے سلجھ جاتے ہیں پیچیدہ نہیں ہوتے
عُرفان اللہ عرفان:
کبھی نہ سر کو جھکا نا پڑے گا در در پر
حضور یار جو اک بار سر کو خم کردے
امجد ساغر:
یہ دنیا جھومتی ہے چاند بھی کچھ محو رقصاں ہے
خرد مند جام میں تلخی بڑھا کر رقص کر تا ہے
محبت علی قیصر:
ایک لیڈر بنتے ہی اپنی دکاں چمکا گئے
جس کو بھائی کہہ رہا تھا اس کو بھی چمکا گئے
جمشید خان دکھی:
یہ شوق نفس پرستی کو میرے، کم کر دے
مجھے خود اپنی نگاہوں میں محترم کر دے
گناہ گار بہت ہے دکھی اے رب کریم!
کرم کا اہل نہیں ہے مگر کرم کر دے
اگلے مشاعرے کے لیئے اردو کے نامور شاعر جناب خوشی محمد طارق کی تجویز پرایک نامعلوم شاعر کے درج ذیل شعر کا پس مصرع بطور طرح منتخب کیا گیا جس میں "سکھا”قافیہ ہے اور "دو "ردیف ہے:
میں شب کا بھی مجرم ہوں سحر کا بھی گنہگار
"لوگو!مجھے اس شہر کے آداب سکھا دو "