دوسری شادی۔۔۔۔۔سچ کیا ہے؟
دوسری شادی کے حوالے سے ملک بھر میں میرا تعارف سا بن گیا ہے۔
اب جس محفل میں بھی جاٸیں تو پہلا سوال دوسری شادی پر ہی ہوتا ہے اور پھر قہقہوں کی برسات شروع ہوجاتی ہے اور سرگوشیوں میں سوالات کے انبار لگ جاتے ہیں۔کچھ ناہنجار تو نتاٸج سے ڈرانے پراکتفا ٕ کرتے ہیں۔ بھلے مانس کہیں کے سلاجیت کھاو.
سرینہ ہوٹل گلگت میں پاپولیشن ویلفیٸر پروگرام ذیلی ونگ، منسٹری أف نیشنل ہیلتھ پاکسان اور این جی او JNFPA کے اشتراک سے منعقد نشست (17جون2019) میں موضوع مجوزہ (کم عمری میں شادی) چھوڑ کر دوسری شادی پر تقریر کی تو ایجوکیشن منسٹر ابراہیم ثناٸی صاحب نے اپنے صدارتی خطبے میں، میری تقریر کی کاونٹر کی۔ اپنے تیٸیں خوب دلاٸل دیے۔چونکہ میری تقریر شگفتہ تھی اس لیے ثناٸی صاحب کی سنجیدہ تقریر اپنا اثر نہیں دکھا رہی تھی حالانکہ ثناٸی صاحب مکمل وَجد میں أکر، مدلل گفتگو فرمارہے تھے۔ بعد میں کھانے کی ٹیبل پر ڈی جی صاحب (پاپولیشن پروگرام ونگ اسلام أباد) کہہ رہے تھے کہ ”بات أپ والی ہی ہے بس ہمت نہیں کرسکتے دوسرے“۔اور پاپولیشن ویلفیٸر جی بی کے ڈاٸریکٹر اکرام اللہ بیگ صاحب کہہ رہے تھے ” حقانی صاحب! أج تو لگی لپٹی بغیر سب کچھ کہہ دیا“
ان سے عرض کیا
ہے سچاٸی ہمیشہ میرا مسلک
لگی لپٹی نہیں رکھتی کسی کی
پھر زور دار قہقہوں کیساتھ بڑے بڑوں کو داٸیں باٸیں دیکھ کر عقد ثانی پر محو کلام ہونے پر مجبور پایا۔
نشست میں ،مجھے موضوع سے ہٹانے کی سازش معروف لکھاری اور سوشل ایکٹیوسٹ برادرم اسرارالدین اسرار نے کی تھی۔دوسری شادی پر تقریر کا سارا کریڈٹ یعنی ثواب وعقاب انہی کوملے۔روزنامہ اوصاف کے صحافی فہیم اختر کہہ رہے تھے پروگرام کا دعوت نامہ ملا تو مجھے فورا خیال أیا کہ حقانی صاحب ضرور ہونگے۔أپ نے نہ صرف موجودگی کا احساس دلایا بلکہ ثناٸی صاحب کو برأنگیختہ بھی کردیا اور دیگر شرکا ٕ کو محظوظ بھی“۔نشست میں کافی تعداد میں خواتین بھی تھیں جو دوپٹے کے سرا منہ میں دابے کھل کھلا رہی تھیں۔
کل ڈاٸریکٹوریٹ أف ایجوکیشن میں اچانک ممبر اسمبلی برکت جمیل صاحب سے ملاقات ہوٸی۔ ہنستے ہوٸے فورا کہنے لگے ”دوسری شادی پر أپ کی باتیں بڑی زبردست ہوتی ہیں“ اور ایسے سینکڑوں نامور ہیں جو مجھے صرف دوسری شادی کے اظہار کے عنوان سے ہی جانتے ہیں۔
اب کالج یونیورسٹی ہو یا مدرسہ وجامعہ یا عام دوستوں کی محفل یا سوشل میڈیا کے مباحثے ومکالمے
یا کوٸی سنجیدہ یا غیر سنجیدہ ،فورم جہاں دوسری شادی کا ذکر ہوتا ہے تو احباب فورا متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور عموما جس محفل میں ،میں ہوں وہاں عقد ثانی کا ذکر خیر نہ ہو وہ محفل ادھوری ہی سمجھی جاتی ہے۔بہت دفعہ سخت گھمبیر حالات اور پیچیدہ محفلوں اور میٹنگوں کو بھی عقدثانی کے ذکر خیر سے کشت زعفران بنا دیا تھا۔ بہت سی باتیں اور یادیں ہیں۔مجھ سمیت أپ بھی دوسری شادی نہیں کرسکتے یا کرنے کے حالات میسر نہیں، لیکن اس کے ذکر سے خود کو محظوظ تو کیجے اور نیت کرکے مفت ثواب بھی کما لیجے، اس میں کیا مضاٸقہ ہے۔اب تو میرے اسٹوڈنٹس، میرے گھر والوں سمیت فیملی کے لوگ، اعزإ واقارب، دوست احباب،اساتذہ اور خواتین اسلام بھی میری عقد ثانی پر دلپذیر تقاریر اور تبصروں کو سیریس لینے کی بجاٸے انجواٸی کرتی ہیں اور دیوانے کی بھڑ سمجھتی ہیں حالانکہ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔اس موضوع پر میں جتنا بھی سنجیدہ ہوجاوں اور شاٸستہ کوششیں اور مدلل ومبرھن گفتگو کروں تو احباب اس کو شگفتگی اور مزاح میں لیتے ہیں جو میرے بیسک راٸٹس کیساتھ ظریفانہ مزاق ہے نہ کہ مذاق۔اسے میرے حوصلوں کو زِک پہنچتی ہے۔
اور ہاں خواتین یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اکلوتے شوہر صرف انہی کے ہی ہیں۔وہ بیچارے ہر وقت چکر میں رہتے ہیں۔ان کے موباٸل میں غفور الیکٹریشن والے کا جو نمبر سیف ہوتا ہے وہ صرف ”اسی“ کا ہی ہوتا ہے جس کے چکر میں ہوتے ہیں۔أپ کے سامنے بے شک اظہار نہ کرتے ہوں مگر اکثریت کی حالت یہی ہے کہ عقد ثانی کا ذکر چِھڑتے ہی کف افسوس ملتے رہتے ہیں۔ میں نے ایسے سینکڑوں اکلوتے شوہروں کو دیکھا ہے جو نا نا توکرتے ہیں لیکن عقد ثانی کے ذکر سے ان کے چہرے کھلتے ہیں۔وہ محاورہ ہے نا کہ ” پھول باغ میں ہی خوب کھلتا ہے“۔ تو یہ لوگ أپ والے گھر کو باغ کب سمجھتے ہیں تو کھلیں۔اور پھر اپنی مشکلات کا رونا روتے ہیں۔ان کی حالت اس شعر کی سی ہوتی ہے
کھلتا نہیں کہ دل مرا کیوں خود بخود ہے بند
قربان جاٶں مجھ کو یہ صحرا نہیں پسند
بہت سارے تو خفیہ شادی رچاٸے ہوٸے ہیں۔ ان کی ہیٸت پھول کے از خود کھلنے کی سی ہوتی ہے جسے خفیہ زوجیت کہا جاتا ہے یعنی جس میں خود باروری پھول کے کھلنے سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔انگریزی میں اس کیفیت کو Cliestogomy سے بھی تعبیر کی جاتی ہے۔
ایسے لوگ خان صاحب اور عامر لیاقت کی طرح بہت بعد میں ایکسپوز ہوتے ہیں۔یہ خفیہ گیری دیر تک نہیں چلتی۔
یہ تو ”خفیہ اجتماع عبادت“ کہلاٸے گی جس کو مخالفانِ کلیسائے انگلستان نے ناجائز مخفی مجلس سے بھی تشبیہ دی ہے۔ ایسے لوگ عقد ثانی کو عقدہ لاینحل بنادیتے ہیں جو کار عبث ہے۔ عقد ثانی کو تو عقد کشاٸی کے ذریعے عقد ثریا بنانا چاہیے۔اور کچھ لوگ عقد ثانی کی بجاٸے مطلق آشناٸی کی راگ الاپتے ہیں جو یقینا شرعا،قانونا،اخلاقا،معاشرا، عملِ مکروہ ہے جسکی تحسین کسی صورت نہیں کی جاسکتی۔
یہ بھی بدیہی امر ہے کہ خواتین کو ہر حال میں اکلوتا شوہر چاہیے ہوتا ہے جوکہ حقوق مرداں کی پامالی ہے۔ان کو ”حقوق نسواں کےساتھ حقوق مرداں“ کا نہ صرف خیال رکھناچاہیے بلکہ روڈ پر نکل کر بھرپور مہم بھی چلانی چاہیے۔ خاتون ممبر اسمبلی ثمینہ خاور ان کے لیے رول ماڈل ہو، جس نے اپنے شوہر کے لیے دوسری دلہن لانے کا اعلان کیا ہے اور عمر شریف نے لاٸیو پروگرام میں بلا کر ان کے حق میں مستجاب دعا کرواٸی ہے۔میرے ایک دوست ہیں کراچی کے، جس کی ویل ایجوکیٹڈ شریکِ حیات نے چار بچوں کے باوجود اپنے شوہر کے لیے اپنی کلاس فیلو، نہ صرف تجویز کی تھی بلکہ کوشش بھی کی اپنی سہیلی کو منانے کی۔ان کی طرف سے بھرپور اجازت اورتحریک ہے عقد ثانی کی۔ اللہ تمام عورتوں کو یہی حوصلہ دے اور بیان دینے کی توفیق بھی اور ڈھونڈنے کا یارا بھی۔
واٹس ایپ کا ایک گروپ ہے قنطارالازواج (دوسری شادی) کے نام سے، جس میں سنجیدہ کوشش ہوتی ہے اورکٸی رشتے ہوچکے ہیں۔میں بھی اپنا پروفاٸل کب کا دے چکا ہوں مگراب تلک رزلٹ صفر ہی ہے۔
دوسری شادی کی کوٸی خاص عمر بھی متعین نہیں ہوتی۔ایسے سینکڑوں علما ٕ و مشاٸخ، جسٹس صاحبان ،جاگیردار،ممبران اسمبلی و وزرا ٕ ، پروفیسرز ،بیوروکریٹس، صحافی و لکھاری، ادیب و شاعر اور عام لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ڈھلتی جوانی میں دوسری شادی کی۔ بڑے بڑے صاحبان بست وکشاد، سفید ریش ، جھکی کمر، کانپتے ہاتھ، گرہ دار چہرہ اور شیطانی مسکراہٹ کیساتھ نٸی نویلی دلہنوں کو پہلو میں بٹھاٸے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور مہنگی گاڑیوں میں ہنی مون منانے نکل جاتے ہیں تو ہم جیسے نوجوان کفِ تاسف ہی مَل رہے ہوتے ہیں اور أرزوٸے ناتمام میں سربگریباں ہوجاتے ہیں۔ان کی صورت
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے
کی ہوجاتی ہے۔ہاٸے اللہ!
اور پھرانہیں کف اللسان مشکل ہوجاتا ہے،پھر بول پڑتے ہیں کہ؏
واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے أگاہ
اس باب میں، پروفیسر بشیر ہنزاٸی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ ” مردکھبی بوڑھا نہیں ہوتا“ اور مزید عرض کرتا ہوں کہ ”عورت ہروقت جوان رہتی ہے“۔ جسم جوان نہ بھی ہو تو امنگیں تو جوان ہی رہتیں ہیں۔عورتیں خود گواہی دیں اس کی کہ کہیں میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔
اور بہت سارے کمزور لوگ کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں اور درون خانہ کلفت میں مبتلا ہوتے ہیں اور خواہ مخواہ کے روگ پالتے ہیں۔بھلا کلفتیں اور روگ پالنے سے کیا ملنا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ”ساز و وسامان طرب ہو رنج و کلفت دور ہو“ مگر ایسا ہوتا نہیں
أج ہی صبح دیکھا تو احباب نے ”مصالحتی کونسل کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کا سزا“ والی نیوز بڑی تعداد میں شیٸر کی ہوٸی تھی جو اسلام أباد ہاٸی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا ڈیسیجن ہے۔مختلف گروپس میں مجھے متوجہ کیا جارہا تھا۔ خوشگوار حیرت بھی ہوٸی۔ بات دراصل وہ ڈی جی صاحب والی ہی ہے۔ہر مرد کا دل چاہتا ہے کہ قرأن کے صرف اس حکم یعنی
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً (النسا ٕ ٣)جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ، تین تین ، چار چار سے نکاح کر لو ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔“ یعنی ایک پر گزارہ کرو ۔
پر بالخصوص شوق و ذوق سے عمل کرے مگر ”امید بھر نہیں أتی“ کیونکہ دل کی چاہت کو دماغ اپنے مکارانہ چالوں سے روک رہا ہوتا ہے۔ دل اور دماغ کی لڑاٸی میں ہمیشہ دل کو جیت جانا چاہیے۔ اور بہتوں کو معاشرتی عوارض روک رہے ہوتے ہیں جو دراصل عوارض ہی نہیں ہوتے ہیں۔
مذکورہ أیة کریمہ کا ترجمہ پروفیسر سیدعبدالجلال صاحب، شیخ القرأن طاہر پنج پیری صاحبؒ کے ریفرنس سے خوب کرتے ہیں کہ ” اگر تم بے غیرت ہو،سب میں عدل و وانصاف کرنے سے ڈرتے ہو تو ایک بیوی پر اکتفا ٕ کیجے“۔
اور ہاں!
عقد ثانی کا اظہار تو کوٸی کوٸی کرتا ہے اور عملی اقدام تو بہت ہی کم کو نصیب ہوتی ہے۔تو
احباب کیا کہتے ہیں؟