کالمز

 شندور میلے کے حوالے سے چند اہم باتیں 

شاہ عالم علیمی
خبر ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے اس بار شندور میلے کے واسطے گلگت پولو ٹیم کے لیے ایک کروڑ روپے مالیت کے اعلی نسل کے  اصلی گھوڑے خرید رکھا ہے۔ شندور میلہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے کا امکان ہے جس  کے لیے محض ایک ہفتہ ہی رہ گیا ہے۔
شندور میلے میں پچھلے چند سالوں سے گلگت پولو ٹیموں کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے۔ چند سالوں سے گلگت ٹیموں کے مقدر میں ہار ہی ایا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ چترال کی پولو کھلاڑیوں  کو گلگت کے کھلاڑی کھیل سکھایا کرتے تھے۔ اج انھی سے ہارتے جارہے ہیں۔ اس ہارنے کی وجہ  کیا ہے۔ اس وجہ کو معلوم کرنے کے لیے اس پر زیادہ غور و غوص کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں  تین سال پہلے شندور میلے میں پہلی اور اخری بار شرکت کی تھی۔ میں نے دیکھا ہے گلگت کی تمام ٹیموں کے کھلاڑی زبردست کھیل پیش کرتے ہیں۔ ان کے پاس گھوڑے بھی، سوائے غذر خاص کی ٹیم کے، بڑے اچھے سلجھے اور تجربہ کار موجود ہیں۔ لیکن صرف ایک ہی نقص ان میں موجود ہے کہ وہ شندور جیسے سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہائٹ Height پر زیادہ دیر تک ایکٹیو نہیں رہ سکتے۔ تقریباً تمام میچز کے پہلے ہاف کے اختتام اور دوسرے ہاف کے ایک چوتھائی میچ تک ہمیشہ گلگت کا ہی پلڑا بھاری رہتا ہے۔ تاہم پھر گھوڑے ہائیٹ میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تھک جاتے ہیں اور مزید دوڑنے سے انکاری ہوتے ہیں۔
اس صورتحال میں کھلاڑی بھی مایوس نظر آتے ہیں اور گھوڑے بھی بے بس۔ پھر چترال سائٹ اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے ہیں۔
اب زرا سوچئے کہ جی بی حکومت نے کیا سوچ کر نئے گھوڑے خرید رکھا ہے! مجھے نہیں معلوم یہ گھوڑے کہاں سے خریدے گئے ہیں اور کس قسم کے ہیں البتہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ اعلی نسل کے گھوڑے ہیں۔ اعلی نسل کے گھوڑے تو پہلے سے ان کے پاس موجود ہیں ایسے میں حالات کا صیح جائزہ لئے بیغیر مزید گھوڑے خریدنا فضول خرچی کے زمرے میں آئیگا۔
گلگت پولو انتظامیہ کو دیکھنا چاہئے کہ جس وجہ سے گھوڑے شندور میں تھک جاتے ہیں اس کا صیح اور مستقل حل کیا ہے۔ ایک سادہ سا حل تو یہ ہے کہ ان گھوڑوں کو گرمیوں کے موسم میں کسی ایسی جگہ (نالے) میں رکھا جائے جو سطح سمندر سے کم سے کم دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہو۔ استور اور غذر میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ان کو رکھا جاسکتا ہے۔ گھوڑے خرید کر ان کو گلگت شہر میں رکھنا پھر شندور لے جاکر پولو کھیلنا دانشمندی کا کام نہیں ہے۔ گلگت کی ٹیموں کو ان گھوڑوں کے ساتھ دو تین ہفتے پہلے کسی ہائیٹ والے علاقے میں پریکٹس بھی کرنا چاہیے تاکہ گھوڑوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑی بھی عادی ہوسکے۔ آخر یہ پورے سال تک بے چینی سے منتظر ہزاروں شائقین کے جذبات کا سوال ہے۔
بہرحال اب گھوڑے خرید ہی لیے ہیں تو دیکھنا یہ باقی ہے کہ یہ گھوڑے پرفارم کرتے بھی ہیں یا پرانے گھوڑوں کی طرح تھک ہار جاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم  بات انتظامیہ کی بدانتظامی کے حوالے سے بھی کرتے ہیں۔ پچھلے سال شندور میلے کے اولین میچ کے کے شروعات میں ہی غذر انتظامیہ کی طرف سے بدترین بد انتظامی سامنے ائی۔ دراصل ابھی غذر اور لاسپور کی ٹیمیں آمنے سامنے ائی ہی تھیں  کہ غذر انتظامیہ کی طرف سے غذر خاص کی ٹیم کی جگہ ایک اور ٹیم پھنڈر کی، گھوڑوں سمیت، میدان میں اتاری گئی۔ پھنڈر اور غذر خاص کے کھلاڑیوں کے بیج نہ صرف ہاتھاپائی ہوئی بلکہ ٹھیک ٹھاک لڑائی ہوئی جس میں متعدد لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔ لڑائی ختم کرنے اور حالات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے پولیس نے ہوائی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بھگدڑ  مچی اور ماحول اور بھی خراب ہوا۔ حالات کو ٹھیک کرنے فوج کے جوان بھی میدان میں کود پڑے۔ بتایا گیا کہ اس بیج پولیس اور سکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے بازی تک ہوئی۔ کروڑوں روپے تین روزہ میلے میں خرچ کرنے والوں  کی طرف سے اس قدر بد انتظامی کیوں ہوئی؟ یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ اور یہ یقیناً گلگت بلتستان حکومت خاص کر غذر انتظامیہ کی طرف سے غفلت اور بد انتظامی کا نتیجہ ہے۔
غذر ٹیم کو میلے سے ایک ڈیڑھ مہینے پہلے ہی ترتیب دینا چاہئے۔ اس میں علاقیت کے بجائے غذر خاص اور پھنڈر سے اچھے اچھے ڈسپلنڈ کھلاڑیوں کو شامل کرنا چاہئے، بجائے علاقیت اور تعصبات پھیلانے کے۔
شندور میلہ دراصل گلگت اور چترال کے چھ مہینے تک برف میں رہنے والے باسیوں کے چند دن کا میلہ ہے۔ اسے بد انتظامی کی نذر کرنا بالکل بھی صیح کام نہیں ہے۔
دوسری اہم بات پچھلے چند سال سے کچھ بڑے اداروں کے افسران اس میلے پر حاوی ہوتے جارہے ہیں شندور میں اہم جگہوں پر قبضہ کرکے وہاں نو گو ایریاز بناتے رہے ہیں۔ یہ رویہ ایک طرف بہت تشویشناک ہے دوسری طرف بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ خدارا پہاڑوں اور برف میں پھنسے مقامی باسیوں سے اس چند روزہ میلے کی خوشیاں بھی نہ چھین لیں۔ لوگوں کو آزادانہ انجوائے کرنے دیں۔
سب سے آخر میں  شندور میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی اور وہاں نیچر پر اس میلے کے منفی اثرات اور منتظمین کا اس سے صرف نظر کرنا سخت تشویشناک ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر کے پی حکومتیں وہاں ماحول کا خاص خیال رکھیں۔ شندور کے اردگرد  چند خاندانوں کو گرما میں مال مویشی چرانے کی اجازت ہے۔ انھیں رجسٹرڑ کرکے وہاں مزید کسی کو انے نہیں دینا چاہئے تاکہ  وہاں مزید ماحول کو خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔ میلے کے دوران جس طرح سکیورٹی کے نام پر آدھے درجن سکیورٹی ادارے وہاں لائے جاتے ہیں اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کو قابو رکھنے کے لیے بھی دونوں صوبائی حکومتیں ایک ایک ٹیم وہاں اتار سکتی ہیں۔ اگر شندور میں ماحولیاتی آلودگی اسی طرح پھیلتی رہی تو پھر کچھ ہی سالوں میں شندور کی ہیئت تبدیل ہوگی اور پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button