یومِ خوبانی مبارک
تحریر: جمشید خان دکھی
ابھی چیری ڈے کا مزہ ختم نہیں ہوا تھا کہ نگرل گلگت کے نوجوان قمرعباس جو کہ ڈاکٹر غلام عباس کے فرزندارجمند ہیں،نے اپنے گھر میں یوم ِخوبانی کا اہتمام کرنے کے لئے چیر ی ڈے کے خالق برادر غلام عباس نسیم اور انگور ڈے کے مہتمم ڈاکٹر انصار الدین مدنی سے مشاورت کی جس کے نتیجے میں 30جون 2019اتوار کے دن دوپہر 4بجے پہلا یوم خوبانی 2019کے اہتمام کا سہر ا محترم قمر عباس اور انکے خاندان کے سرسجا۔ اس تقریب میں حلقہ ارباب ذوق (حاذ)کے شعراء مدعو کے گئے تھے جنکے دم سے مشاعرے کی محفل بھی سجی۔ ان تقریبات کے اہتمام کا ایک بڑا مقصد پھلدار اور غیر پھلدار درختوں کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔کیونکہ وطن عزیز پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسکی اقتصادی اور معاشی ترقی کے لئے مستقبل میں زراعت اور صنعت کو یکساں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔کسی ملک کی ترقی،عوام کی صحت اور جسمانی نشوونما کے لئے پھلوں کی صنعت نہایت اہمیت کی حامل ہے گلگت بلتستان میں پھلدار پودوں کے ذریعے لوگوں کی معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔پودے انسانی جسم سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کر کے انسانی زندگی کی اہم ضرورت پوری کرتے ہیں۔اسکے علاوہ درختوں سے نہ صرف پھل اور جانور غذا حاصل کرتے ہیں بلکہ انہی درختوں سے ہمارے مکانات اور فرنیچر تیار کیا جاتا ہے جو کہ ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔باغبانی سے ایک طرف منافع ملتا ہے تو دوسری طرف طرف باغبانی کے نتیجے میں ملنے والا پھل انسانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بھی اہم ہے۔پھلوں میں کافی غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کی نشوونما اور صحت کے لئے اہم ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق روزانہ پھل کھانا صحت کے لئے بہت ضروری ہے لیکن ہماری بدبختی دیکھئے درخت کاٹے جا رہے ہیں اور عمارتوں کی شکل میں پتھر اگا رہے ہیں اور باغبانی کا رحجان دن بدن متاثر ہوتا جا رہا ہے۔بیماریوں کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کو سانس لینے کے لئے تازہ ہوا حسب ضرورت میسر نہیں۔اگر یہ صورت حال جاری رہی تو پورا علاقہ نہ صرف بے حد متاثر ہو گا بلکہ اسکے اثرات بھی تباہ کن ہو نگے۔لہذا متعلقہ اداروں کو اس طرف متوجہ ہو کر ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں پر موجود غیر آباد زمینوں کو باغبانی کے ذریعے آباد کرنے کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے اور غیر ضروری تعمیرات سے گریز کیا جائے۔
اس محفل میں جن شعراء کرام نے شرکت کی ان میں پروفیسر محمد امین ضیاء،محمد نظیم دیا، غلام عباس نسیم،اشتیاق یاد،نوید نگری،بشیر بشر، نذیر حسین نذیر، فاروق قیصر،آصف علی آصف،توصیف حسن،ظہیر سحر،رحمان آہی،محمد عامراور جمشید دکھی کے نام شامل ہیں۔اس موقع پر ڈاکٹر انصارالدین مدنی نے پروگرام کے انقعاد کے حوالے سے بات کی اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔مشاعرہ کی نظامت کے فرائض جناب غلام عباس نسیم نے انجام دئے۔شعراء کے علاوہ علاقے کے معززین بھی اس محفل میں شریک ہوئے۔ان میں جناب علی حید ر،ذاکر حسین،سرتاج حسین،شاہدحسین،غلام حیدر،خاورعباس،ضامن رضا،حسین مجتبی اور قمر عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔طالب علم علی عباس نے تلاوت کلام پاک سے اس تقریب کا آغاز کیا اور اسکے بعد طالب علم محمد عباس نے نعت رسول مقبول ؐپیش کی۔ محمد عامر نے مزاحیہ اردو کلام سنا کر خوب داد حاصل کی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے معروف قلم کار احمد سیلم سلیمی نے کہا کہ مادہ پرستی کے اس دور میں ایسی محفلوں کا انعقاد ایک نعمت سے کم نہیں۔ان سے یقینا علاقے میں علم وادب کے چراغ روشن ہونگے۔جناب شاہد حسین صدر ٹیچر ایسوسی ایشن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس تقریب میں آمد پرحاذ کے احباب کا شکریہ ادا کیا اور ایسے پروگرامات کے انقعاد کو علاقے کے امن کے لیے سود مند قرار دیا۔ ۔میزبان خاندان کے سربراہ ڈاکٹر غلام عباس نے بہترین الفاظ میں مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے سالانہ یوم خوبی کی تقریب کوجاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔صدرحاذ پروفیسر محمد امین ضیاء نے اپنے خطاب میں پہلی بار یوم خوبانی کے انقعاد اور حاذ کے احباب کو شرکت کی دعوت دینے پر میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ علاقے کے امن پسند لوگ ڈاکٹر غلام عباس کے اس اقدام کی پیروی کریں گے۔جناب شیخ ریاض حسین جعفری جن کا تعلق نگرل گلگت سے ہے۔ آپ قم ایران میں رہائش پزیر ہیں اور ان دنوں گلگت آئے ہوئے ہیں، نے بھی اس محفل میں شرکت کی۔ آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عاقلانہ شاعری،عاشقانہ شاعری اور عارفانہ شاعری کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی اور اس حوالے سے سعدی، حافظ شیرازی اور مولانا رومی کے حوالے بھی دئے۔آپ نے حاذ کے شعراء کو خراج تحسین پیش کیا اور ملت اسلامیہ کی ترقی اور کامیابی کے لئے خصوصی دعاکی۔آخر میں میزبان خاندان کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے جناب قمر عباس نے کہا کہ میرے اور میرے خاندان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ آپ آئے اور اس پروگرام میں شرکت کی۔آپ نے آئیندہ بھی یہ پروگرام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔اس موقع پر حاذ کے سینئر نائب صدر جناب عبدالخالق تاج کے چچا زادبھائی جناب عبد الواحد گہرریٹائرڈ جائنٹ سیکریڑی اور مرحوم کی بہن اور محترم سلطان ولی مرحوم کی اہلیہ کی وفات پردلی تعزیت کا اظہار کیا گیا اور مرحومین کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔یاد رہے کہ محترم عبدالواحد گہر25جون 2019اور انکی بہن مرحومہ26جون2019کو وفات پاگئے تھے۔ اسی وجہ سے تاج صاحب یوم خوبانی میں شریک نہیں ہو سکے۔البتہ ان کی کمی محسوس کی گئی۔تمام شرکاء کو حاذاور میزبان کی جانب سے خصوصی اسناد تقسیم کئے گئے۔حلقے کی جانب سے کتاب اور جناب احمدسلیم سلیمی کی کتاب کا تحفہ پروفیسر محمد امین ضیاء نے میزبان خاندان کے سربراہ ڈاکٹرغلام عباس کو پیش کیا۔ڈاکٹر انصارالدین مدنی نے اس پروگرام کی ویڈیو گرافی کی جو کہ انکے چینل بیاک میں خواہشمند خواتین و حضرات دیکھ سکیں گے۔مہمانوں کی آمد پر بھی خوبانی سے تواضع کی گئی اور دوران مشاعرہ بھی شرکاء کو خوبانی پیش کی گئی۔آخر میں تناول ماحضر کے بعد یہ محفل اختتام پزیر ہوئی۔اس موقع پر گروپ فوٹو گرافی بھی کی گئی۔شعراء کا نمونہ کلام ذیل میں نذر قارئین کیا جاتا ہے!
پروفیسر محمد امین ضیاء
واعظ کی گفتگو کو نہ شیریں شماریئے
وہ زیرِ استعمال ہے اسکو پتہ نہیں
نظیم دیا
حضور ؐ! ہوتے اگر تیرے کاروان کے ساتھ
تو اپنی جان لٹاتے ہر اک جوان کے ساتھ
غلام عباس نسیم
کرشمہ چیری کا دیکھو سلسہ آگے بڑھا
مل گیا انگور ڈے اور مشغلہ آگے بڑھا
اہل دل اہل ادب کی محفلیں جب سجا گئیں
یوم ِ خوبانی بھی آیا ولولہ آگے بڑھا
نوید نگری
ان کی محفل میں نہیں بیٹھو اگر ہو ہوش میں
تجھ کو دیوانہ بنا ڈالے گا دیوانوں کا رقص
اشتیاق یاد
تاابد سربلند رہنے کو
آسماں سر جھکائے رہتا ہے
ظہیر سحر
انوکھا ہے سحر کارِمحبت
نہیں ہوتی یہاں امداد حاحب
فاروق قیصر
مری رعنائیوں کو کھا گئے کیا
پلٹ کر غم دوبارہ آگئے کیا
آصف علی آصف
یا میرا ضبط یا تیرا غرور ٹوٹے گا
مجھے یقین ہے کچھ تو ضرور ٹوٹے گا
نذیر حسین نذیر
اتنا اس کھیل کو میں سمجھا ہوں
اب کے دیکھوں تو ہنسی آتی ہے
رحمان آہی
دربار شاہ وقت کی اوقات دیکھ لی
ہر ایک چاپلوس کے نخرے عجیب ہیں
توصیف حسن
بنی آدم کا جس کو غم نہیں ہے
وہ انسانوں میں ہرگز ضم نہیں ہے۔
جمشید دکھی
صبح روشن ہو ہراک شام سہانی جائے
بحرِ اسلام کی ہرگز نہ روانی جائے
عصرِ حاضر کے خداؤں کا ہے فرمان نیا
میرے آقاؐکی کوئی بات نہ مانی جائے