استور کے منتخب ممبران اور ستم ظریفی
تحریر: ابرار حسین استوری
گلگت بلتستان میں چار ضلعوں کے قیام کے بعد اب نئے حلقوں کا شور جاری ہے خاص طور پر ضلع استور کی عوام جو پہلے ضلع کا رونا رو رہے تھے اور اپنے منتخب نمائندوں سے نالاں ہونے کے بعد جب اپنے منتخب کردہ دونوں ممبران کو عوامی ترجیعات کے بجائے اپنے اور من پسند لوگوں کیلئے ٹھیکوں کے حصول کیلئے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا تو سمجھ آیا کہ حادثاتی طور پر بننے والے ٹھیکیدار جن کو صرف اس بنیاد پر اقتدار ملا اور پھر وزارتیں بھی ملی کہ وہ حفیظ الرحمن کیلئے چاپلوسی کا کام سر انجام دیں گے تو ایسے منتخب نمائندوں سے ضلع تو کیا حلقے کی امید بھی لگانا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
اس کے علاوہ ایک خاص بات ان دونوں ممبران کی یہ خواہش اور مستقبل کی پلاننگ کہ اپنے آپ کو سیاسی میدان میں زندہ رکھنا ہے تو نہ استور میں دوسرا ضلع بنے اور نہ حلقہ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ استور کے حلقہ نمبر ایک میں رانا فرمان جو دو بار الیکشن ہارا اور تیسری بار حادثاتی طور پر وفاق میں ن لیگ کی حکومت ہونے کی وجہ سے منتخب ہوا. اب سوال یہ ہے کہ رانا فرمان کیوں نہیں چاہتا کہ ایک اور حلقے یا ایک اور ضلع میں اضافہ ہو کیونکہ رانا فرمان جس نے الیکشن 2015 میں ایک مخصوص وجہ اور کارڈ کھیلا جس کی وجہ سے اسے چورت اور منی مرگ سے بھاری اکثریت سے ووٹ ملا۔ اب اگر حلقہ الگ ہوجائے تو منی مرگ اور چورت میں سے منی مرگ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا جس کے دو سے ڈھائی ہزار ووٹ ہیں۔
اب رہی بات ماضی میں دئے گئے ایک فارمولے کے تحت استور کے تین حلقے کونسے ہونگے تو اس کے مطابق گدئی یونین، منی مرگ یونین کے ساتھ گوریکوٹ کو ملا کر ایک حلقہ جبکہ رٹو دریلے چورت تریشنگ کو ملا کر دوسرا اور استور ہیڈ کوارٹر سے ملحقہ ایریا سمیت بونجی کو ملا کر تیسرا حلقہ بنانے کی سفارشات سامنے آئیں تھی۔ اب اسی طرح برکت جمیل جس کو اقتدار ایسے ملا جیسے کوئی معجزہ ہوا ہو. موصوف خود ایک غیر دانستہ اور غیر مقبول شخصیت تھے صرف اور صرف دو وجوہات ایک تو ان کے والد صفت اللہ خان جو استور کے امیر ترین اور پیسے والی شخصیت کہلاتے ہیں جبکہ ان کی زندگی بھی تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ اکثر لوگ ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی جائیدادیں آئیں کیسے کیونکہ موصوف صرف استور ٹریجری میں بحثیت ٹریجری آفیسر کام کرتے رہے اور اربوں کے مالک بنے ہیں۔
خیر صفت اللہ کو جتنا اللہ نے دیا اس قدر وہ غریبوں پر خرچہ بھی کرتے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے استور کے عوام نے ان کے بیٹے جو کسی کھاتے میں بھی شامل نہیں تھے کو جتوا دیا۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ برکت جمیل جو مسلم لیگ ن میں ایک کارکن کی حیثیت بھی نہیں رکھتے تھے اور الیکشن کے دوران ان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کیسے ملا تو یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ استور میں مسلم لیگ ن کے ایسے رہنما بھی تھے جو حفیظ الرحمن سے بھی زیادہ سینئر اور پارٹی کیلئے قربانیاں بھی تھیں جن میں قابل ذکر وہ شخصیت جو آج ہم میں نہیں رہے۔ مرحوم محمد سلیم جن کا تعلق گوریکوٹ سے تھا اپنی پوری زندگی مسلم لیگ کے نام کی اور آخر میں ایک پیرا شوٹ کے ذریعے لائے گئے برکت جمیل کو ٹکٹ دیا گیا اور انہیں نظر انداز کیا گیا۔
اُس وقت میں خود الیکشن میں موجود تھا۔ اسی حلقے میں وہاں مسلم لیگ ن کے مرحوم محمد سلیم کے علاوہ شمس الحق لون جو مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے نائب صدر تھے اور دیگر دو سے تین اہم رہنما موجود تھے کوبائی پاس کر کے ٹکٹ برکت جمیل کو دیا گیا اور وہ اپنے والد کے اثر رسوخ اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کی وجہ سے اقتدار نبھالنا پڑا۔ اب یہاں عوامی رائے یہ ہے کہ برکت جمیل کو ایک اور وجہ سے بھی جیتنے کا موقع ملا کہ گوریکوٹ کی یوتھ ایکشن کمیٹی نے ان کے حق میں فیصلہ دیا، خاص طور پر برکت جمیل کیلئے دو شخصیات راستے میں رکاٹ تھیں ایک تو مرحوم سلیم اور دوسرے وزیر سہیل جنکو گوریکوٹ کی یوتھ ایکشن کمیٹی نے مجبور کیا اور یوں برکت جمیل کی جیت یقینی بنی. اب برکت جمیل جس نے یہ کہا تھا اس یوتھ ایکشن کمیٹی کے جرگے میں کہ اس بار میری باری اور اگلی بار آپ میں سے کسی کی تو اب برکت جمیل کا دور بھی اختتام کو لگتا ہے مگران کے والد کے اثرو رسوخ سے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
یہاں استور کے دونوں ممبران کے بارے میں یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کے رائٹ ہینڈ ہیں مگر بدقسمتی سے استور کیلئے وزیر اعلیٰ سے ذاتی فوائد کے علاوہ اجتماعی طور کوئی فائدہ نہ لے سکے۔ کچھ دن قبل سوشل میڈیا پر ایک بات زور پکڑنے لگی تھی کہ برکت جمیل اور رانا فرمان عوام کے سامنے جو دبنگ باتیں کرتے ہیں وزیر اعلیٰ کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ تاہم حفیظ الرحمن سے قریبی تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ اب بھی وقت ہے کہ دونوں ممبران وزیر اعلیٰ سے ضلع میں اضافہ سمیت ایک اور بھی حلقے کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ جہاں پر ذاتی مفادات سامنے آتے ہیں وہاں اجتماعی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
استوری عوام اس وقت بھی اس امید پر قائم ہیں کہ دونوں ممبران اپنے ذاتی مفادات کی بجائے عوامی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مزید ضلع اور حلقے کے ڈیمانڈ کیساتھ وزیر اعلیٰ سے اپنی بات منوا کر اپنے اقتدار کے آخری دور میں ویلن سے ہیرو بن سکتے ہیں.