کالمز

علم وعمل کی سر زمین منٹھوکھا

تحریر : علی آصف بلتی 

سکردوشہر سے 60  کلومیٹر کے فاصلے پرقدرتی حسن سے مالا مال گاؤں منٹھوکھا  آباد ہے  ۔   منٹھو کھا جاتے وقت مختلف پہاڑی سلسلے، دریائے سندھ اور بلتستان کے مختلف حسین علاقوں کے دل کش نظارے ہوتے ہیں۔ بلتستان کا سب سے خوبصورت  آبشار بھی اسی مقام پر ہے ، آبشار پر جاتے ہوئے آپ کے دائیں اور بایئں طرف سرسبز و شاداب گھاس اور لہلہاتے پھول ،درخت اور پانی کا دل فریب منطر قابل دید ہے ۔ سخت گرمی میں بھی اگر آپ جاکر اس آبشار کے سامنے تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہیں تو سکون  اور تازگی کا احساس آپ کے دل کو چھو لیتا ہے  ۔  ساتھ ہی چشمے کا صاف ستھرا ٹھنڈا پانی آپ کی روح کو نئی تازگی بخشتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہاں روزانہ کثیر تعداد میں لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں اور بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔    اب تو سیاحوں کے لیے گرمی اور سردی کا بھی فرق نہیں رہا ۔  خون جما دینے والی سردیوں میں  بھی اس منجمد  آبشار کو دیکھنے کے لئے اچھی خاصی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں ۔ پچھلی کئی دہایوں سے اتنے لوگ اس علاقہ میں نہیں آئے جتنے اپ ایک سیزن میں آتے ہیں ۔ آبشار کے علاوہ  تاریخی اہمیت کے حامل خانقاہ معلی منٹھوکھا تقریبا 400 سو سال پرانی بھی دیکھنے کے قابل  ہے یہ خانقاہ لکڑی اور مٹی سے بنی ہوئی ہے اور یہ ضلع کھرمنگ کی سب سے بڑی خانقاہ ہے جسمیں تقریبا 2000 کے لگ بھگ لوگ سما سکتے ہیں۔ سردیوں میں لوگ  اس خانقاہ سے متصل مسجد کو عبادت کے لئے اور خانقاہ کو گرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اس لئے سارا سال یہاں نماز جماعت قائم رہتی ہے اور دعا و مناجات کا روح پرور سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لئے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہے کہ یقینا اس مسجد و خانقاہ کی بنیاد کسی تہجد گزار شخصیت نے رکھی ہے کیونکہ یہاں اذان صبح سے پہلے تہجد گزاروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ اور باقاعدہ طور پر اذان صبح سے پہلے نماز شب لے لئے  کوئی دعا یا  صلواۃ  پڑھ کر لوگوں کو جگایا جاتا ہے ۔اس خانقاہ کے علاوہ  منٹھوکھا میں  دو مساجد ، دو  امام بارگاہ اور ایک دینیات سنٹرز ہے ۔

مسجد کی بنیاد تو  خانقاہ کے بعد کی ہے تاہم  1995 میں  علامہ شیخ محسن علی نجفی حفظہ اللہ کے حکم سے جدید طرز تعمیر کے ساتھ کشادہ کی گئ ہے ۔ لیکن یہاں کے مکینوں نے 2009میں اپنی مدد آپ کے تحت  حسینیہ سجادیہ  و حسینیہ ابوالفضل  عباس  یارکھور دونوں  اپنی مدد آپ تعمیر کیے ہیں ۔یہ ان کی خاندان رسالت اور ترویج دین سے دلی عقیدت کی واضح مثال ہے۔ منٹھوکھا میں دین محمدی کو پھلانے میں سادات کرام کی خدماتنا قابل بیان ہیں۔ اس لئے آج بھی سادات محراب و ممبر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔  اور دین محمد کو پہنچا   رہے ہیں ۔

مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے ۔آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔  ملکی و غیر ملکی سطح پر فروغ دین و فلاح بہبود  انسانیت کے لئے آپ کی خدمات سب پر عیاں ہیں ۔ حجتہ الاسلام والمسلمین شیخ محمد ہادی فاتحی حوزہ علمیہ نجف اشرف سے علم دین حاصل کر کے محمدیہ ٹرسٹ میں کئی عرصہ درس و تدریس سے وابسطہ رہنے کے بعد اس وقت گاوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔  اور حجتہ الاسلام والمسلمین شیخ مھدی شمس الدین حوزہ علمیہ قم سے فارغ ہونے کے بعد  مھدی آباد مدرسہ میں  درس و تدریس کے فرایض انجام دے رہے ہیں ۔ مذہبی حوالے سے بھی یہ گاؤں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے دینی معاملے میں یہاں کے بزرگان آپ کو ہمیشہ صف اول میں نظر آتے ہیں۔ آج بھی یہاں کے لوگ علمائے کرام و سادات عظام کا بہت احترام کرتے ہیں۔ تمام ائمہ معصومین کی ولادت و شہادت بہترین انداز سے مناتے ہیں۔ بنیادی طور پر چار محلہ ہیں 1 محلہ مریم پہ 2 محلہ ملہ گڑونگ 3  محلہ حیدریہ 4 محلہ یارکھور    پہلے سے بزرگوں نے ایسا سسٹم بنا رکھا ہے کہ ہرمحلہ  کے ذمہ اماموں کی ولادت و شہادت سونپی گئی ہے، اصل عاشوراء یہاں انتہائی عقیدت و اخترام  سے منایا جاتا ہے، تمام مذہبی محافل و مجالس میں سادات کرام کی شرکت ہوتی ہے جو کہ بانی مجالس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خصوصی طور پر دعوت دیں  ۔

یوں تو منٹھوکھا کو علاقہ ہذا میں مرکزی حثیت رہی ہے اس لئے اکثر سرکاری املاک منٹھوکھا میں ہی ہیں۔ ان میں سے تعلیمی اعتبار سے دیکھا جائے تو منٹھوکھا  پرائمری سکول  تقسیم پاک و ہند سے پہلے   1936  سے  علم کے نور کو پھلا رہا ہے ۔علاقہ ہذا کے نامور اساتذہ علماء و شخصیات نے اسی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے ۔ اس کے علاوہ اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت   1996 میں اسوہ  سکول کا قیام عمل میں لایا الحمداللہ اس ادارے سے فارغ تحصیل طلاب کرام اپ علاقے کی تعمیر و ترقی  میں  اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ صحت کے اعتبار سےدیکھا جائے تو  1968 میں سول ڈسپنسری کا افتتاح ہوا ۔جس میں ابتدائی طبی امداد  دی جاتی ہے ،ابتک علاقہ ہذا  سے سینکڑوں مریض فیض یاب ہوئے ،اسکے علاوہ 1992 میں وٹرنیری ہسپتال بھی قائم ہوا اور 2010 میں حجت الاسلام علامہ شیخ محسن علی نجفی حفظہ اللہ نے جاسم ہسپتال کی بنیاد رکھی جو  سکینڈ ٹائم  چلتا ہے پروفیشنل ڈاکٹر کی زیر نگرانی میں ۔جب مواصلاتی نظام  کا دور نہیں تھا تو اس وقت اپنے پیاروں کی خیر وخریت کی خبر ڈاک خانہ منٹھوکھا کے ذریعے سے ہی  ملتی تھی  ،اس وقت خط یا عید کارڈ ملنے پر جو خوشی حاصل ہوتی تھی وہ آج کے ویڈیوکال میں کہاں ہے  اس ڈاکہ خانہ کا قیام  1980 میں رکھا گیا  ۔اس کے علاوہ  بجلی گھر ،سب سٹیشن ، ڈیجیٹل ایکسچین ،گندم ڈپو اورعلی آصف مارکیٹ  منٹھوکھا  قابل ذکر ہیں۔

غرض یہ گاؤں ہر حوالے سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں کی تعلیمی، معاشی اور صحت کے میدانوں میں ترقی کے لیے خصوصی توجہ دی جائے،

اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button