کالمز

فلسفہ شہادت ..!

تحریر: علی آصف بلتی
ان ایام میں خصوصا بلتستان بھر میں ایام عزاء بمناسبت عاشورا اسد مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے ۔لیکن سال میں دو دفعہ عاشورا ہو جس سرزمین پر کیا اس سرزمین کے لوگ اخلاق, کردار اور دین کے معاملے میں دوسروں سے بہتر نہیں ہونا چائیے.؟؟
امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت فرمایا: میں اپنے جدامجد کے امت کی اصلاح کیلئے مدینہ چھوڑ رہا ہوں، امربالمعروف و نہی عن المنکر کیلئے یعنی اچھائی کی طرف ترغیب دینے اور برائیوں سے منع کرنے کے لئے آج ہمیں فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ کوئی تہوار نہیں جس سے ہم منا کر اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہونگے فقط نوخہ خوانی اور گریہ زاری مقصد کربلاء نہیں ہے ، ہمیں چاہئیے کہ ان مجالسوں سے ہم اور ہماری نسلیں استفادہ حاصل کریں عزاداری ایک یونیورسٹی ہے ایک نعمت ہیں
ایک پلیٹ فارم ہیں ۔ جس سے ہم اپنے معاشرے کی اصلاح و ظلم و ستم کے خلاف حق و باطل کی تمیز اور اپنے آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس بہترین پلیٹ فارم کو استعمال کریں جس میں بچے , بوڑھے ,جواں اور خواتین مقررہ وقت پہ پہنچ جاتے ہیں اور مجلس سنتے ہیں کتنا عظیم پلیٹ فارم ہے یہ مجلس عزا اگر خدانخواستہ ہمیں یہ عظیم پلیٹ فارم میسر نہیں ہوتا تو کیا ایک اعلان یا اشتہار سے کسی جگہ پہ بچے سے لیکر بوڑھے کو جمع کرسکتے تھے؟ نہیں بہت سی مشکلات درپیش ہوتی ہزاروں سوالات کرتے کہ کیوں بلایا جارہا ہے ؟ اس میں بلانے والے کی کوئی مقصد شامل ہونگ وغیرہ وغیرہ لیکن مجلس عزا کیلئے اعلان کرے تو بغیر کسی عذر کے سب بیمار, بچے بزرگ سب حتی کہ سہارا لیتے ہوئے بھی پہنچ جاتے ہیں. یہ حسین ع کی قربانی کا نتیجہ ہے
تو اس عظیم پلیٹ فارم جو کہ میری نظر میں ہماری نسلوں کی تربیت گاہ ہیں اس میں ہمیں چائیے کہ ایسے خطیب ,علمائے کرام کو سنیں جن کی کردار اور گفتار اعلیٰ ہو کیونکہ ہمارے بچے اور جوان غیرمحسوس طریقے سے ان کو فالو کررہے ہوتے ہیں ۔لہذا علماء و خطباء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ دور حاظر اور حالت حاضرہ کے مطابق عوام الناس کو بتائیں کہ انکی ذمہ داری کیا ہے اور اپنا تجزیہ پیش کرے اور آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت پہ زور دیں آجکل چونکہ ثقافتی جنگ ہے تو اپنے آنے والی نسلوں کو بالخصوص بچوں اور جوانوں کو دور حاظر میں دشمنوں کی چال اور فریب کے بارے میں آگاہ کریں کہ وہ کس طرح سے جوانوں کی ذہنیت پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا ہے. افکار حسینی کو سمجھنے کیلئے پہلے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچاؤ کہ قیام مقصد امام حسین ع کو سمجھ سکے, اتنی بڑی عظیم قربانی بغیر عمل کے صرف سینہ زنی و نوحہ خوانی کیلئے نہیں دی, اس عظیم قربانی کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اگر آپ مجلس میں جاتے ہیں لیکن اختتام مجلس پہ آپ کے حصہ میں اگر صرف مجلس کے تبرکات ہی آئے ہیں تو مطلب مجلس کا حق ادا نہیں ہوا, خطیب کی گفتگو دور حاضر کے مطابق ہونا چاہئیے, عالمی دنیا, عالم اسلام, ملکی حالات,حالات حاضرہ, سوشل میڈیا پہ پھیلتے غیراسلامی مواد, کیوں ایک نوجوان خودکشی کررہا ہے؟ کیوں ایک باپ اپنے بیٹے کو پڑھانے سے قاصر ہے؟ کیوں کسی مظلوم پہ مسلسل ظلم ڈھائے جارہے ہیں, کیوں ہم زوال کا شکار ہے؟ کیوں جرائم, منشیات و دیگر گناہوں میں اضافہ ہورہے ہیں؟ کیوں بیٹا باپ کی نافرمانی کرتا ہے؟ کیوں کوئی حرام و حلال کی تمیز نہیں کرتا؟ آخر میں کیوں ہم مجالس کو رسم کے طور پہ کررہے ہیں؟؟
ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم سب معاشرے میں اپنی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر نہیں نبھا رہے.
میں اگر چوری کرتا ہوں تو مجلس میں جانے سے پہلے اپنے آپ سے عہد کرے کہ آئندہ چوری نہیں کرونگا اور مجلس میں اپنی اصلاح کیلئے جائے, اسی طرح ہم اپنے آپ کو اور معاشرے کو پاک کرسکتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کرادر سے یزیدی اور نام سے حسینی ہو.
یزیدی کردار کو سب سے پہلے اپنے اندر سے ختم کرنا ہوگا.
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
جب فرد صحیح ہوگا معاشرہ اپنے آپ صحیح ہوگا, لیکن ہم خود صحیح ہونے کو تیار ہی نہیں اور معاشرے کو کوستے ہیں تو کوستے ہی رہو گے. آج سے عہد کرے اپنے وقت کے امام سے ہم میں جو یذیدی کردار ہیں وہ ایک ایک کرکے ختم کریں گے اور امام حسین ع کے قیام کے مقصد کو سمجھیں گے.
اور آخر میں والدین پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں اور ان کی تربیت میں کوئی کمی نہ رہنے دیں.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button