ریاست جموں وکشمیر پر ایک نظر
تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
22اکتوبر 1947 کی خونی جنگ کے نتیجے میں کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ، جن میں انڈین زیر کنٹرول جموں کشمیر اور پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔
مگر تقسیم کشمیر کے 72 سال بعد پانچ اگست 2019 کو انڈیا نے اپنے زیر کنٹرول جموں کشمیر کے دو حصے کردیے ہیں اور گلگت بلتستان کی طرح جموں وکشمیر میں انڈیا نے بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول اور ریاست کو حاصل خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دیا ہے جبکہ لداخ کو سنٹرل حکومت کے تابع کیا ہے۔
انڈین یونین میں جموں وکشمیر کو حاصل نیم خودمختار ریاست کی حیثیت کو ختم کرنے بعد عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے انڈیا نے وادی میں انٹرنیٹ اور فون سروس بند کرکے کرفیو نافذ کردیا ہے، اور تمام تر کشمیری قیادت کو نظر بند کردیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کو یکسر مسترد کردیا ہے اور انڈیا کے ساتھ دو طرفہ تجارت معطل کرنے ساتھ سفارتی تعلقات بھی محدود کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ وہ انڈیا کے اس غیر قانونی یکطرفہ اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل لے کر جائیں گے چونکہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور اس تنازعے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوامِ متحدہ کی کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی کئی ایک قراردادیں بھی موجود ہیں جن کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کا فیصلہ بزریعہ استصواب رائے ہونا باقی ہے۔
مودی سرکار کا یہ اقدام ازخود کالعدم اور انٹرنیشنل قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کی الحاق کی کہانی مودی کے ہاتھوں دم توڈ چکی ہے۔
انڈیا کے ساتھ الحاق کی کہانی کے خاتمے کے بعد ریاست جموں وکشمیر ایک بار پھر 22 اکتوبر 1947 کی پوزیشن میں کھڑی ہوئی ہے اور مودی سرکار کے ہاتھوں جموں وکشمیر کے دو حصوں میں تقسیم کے بعد اب سابق شاہی ریاست جموں وکشمیر کے چار حصے ہوگئے ہیں جن میں سے دو حصے انڈیا کے پاس اور دو پاکستان کے پاس جبکہ چین کے زیر انتظام گلگت بلتستان کا وہ علاقہ جو حکومت پاکستان 1963 کےبارڈر ایگریمنٹ کے تحت چین کے حوالے کیا ہے اس سے بھی شامل کیا جائے جو آزاد کشمیر کے کل رقبے سے بڑا ہے ، تو اس حساب سے سابق شاہی ریاست جموں و کشمیر اب تک کل پانچ حصوں میں بٹ چکی ہے۔
مگر یہ منقسم ریاست خطے میں ابتدا سے ہی خونی جنگ اور کشیدگی کا باعث بھی بنی رہی ہے اور کروڑوں لوگوں کا مستقبل مسلہ کشمیر کی وجہ سے یرغمال بن کر رہ گیا ہے ۔
جبکہ اس خطے کے معروضی حالات، قیادت کا بحران اور انٹرنیشنل سیاست میں رونما ہونے والی جیواکنامک اور جیو پولیٹیکل تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سپر پاورز کے درمیان جاری کشمکش کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں تقسیم کا یہ سلسلہ یہی رک جائے گا۔
کیونکہ ہمارے پاس جرمنی کے چانسلر بسمارک جیسا کوئی مدبر تو ہے نہیں جو ریاست کی وحدت کو دوبارہ جوڈ کر بحال کراسکے ، مگر ہاں آزادی کشمیر کے نام پر چوہے بلی کے اس کھیل میں سیاسی بوزنے نما سیاستدانوں کی ایک پوری فوج ضرور جنم لے چکی ہے ‘ جن کی وجہ سے گزشتہ 72 سالوں سے مسلہ کشمیر حل ہونے کی بجائے مودی جیسے لوگوں کے ہاتھوں کشمیر جل رہا ہے اور یہ بوزنے آگ بجھانے کی بجائے آگ کو ہوا دے رہے ہیں، مگر یہ بھول رہے ہیں کہ سیاست میں لسانی،مذہبی اور نسلی تعصب سرایت کر جائے تو پھر قومیں ستر سالوں کے طویل عرصے گزرنے کے باوجود بھی ایک کھلے آسمان والے زندان میں قیدیوں کی مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ ان کی ریاست کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے خون کے دریا بہہ رہے ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ اس وقت جموں وکشمیر کی چاروں اکائیوں میں سیاسی بیداری کی لہر چل پڑی ہے مگر اس بیداری کو کہی خود ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ نہ کریں اس لئے جنگی جنون کے بجائے اس ساری صورتحال کو بدلتے ہوئے ماحول میں حقیقت کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
جموں کشمیر میں اس وقت جو پرامن تحریک ابھر چکی ہے اسے اگر پرتشدد راہ میں ڈال گیا تو یہ تحریک دوبارہ ابھر نہ پائے گی۔
چونکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جنگ کے ذریعے تنازعوں کا فیصلہ غیر تسلی بخش اور عارضی ہوتا ہے اس لیے موت کے اس ناو میں سوار ہونے سے قبل سو بار سوچنے کی ضرورت ہے ۔