محسن پاکستان …. سرآغا خان سوئم
برصغیر میں مسلمان ججز کا تقرر تاج برطانیہ سے منظور کرانا آغاخان کی سیاسی قیادت کی صلاحیت کا انمول تحفہ ہے۔
اب میَں ایک بھکاری ہوں گلیوں گلیوں پھروں گا اور مسلم ہند کے فرزندوں کے لئے بھیک مانگوں گا۔
گول میز کانفرنسوں میں اگر آپ تشریف فرما نہ ہوتے تو اس میں مسلمانوں کے حقوق ملنا محال تھا۔
تحریر و تخلیق۔۔۔۔ عبدالمجید۔
انسان بجائے خود فانی ہے! قطعی طور پر فانی۔ ہاں جو چیز کسی شخص کو بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے یا اُسے اپنی قوم میں تاریخ کے اوراق پر مستقل طور پر جگہ عنایت کر دیتی ہے وہ اس کے اپنے کارنامے ہو تے ہیں۔ انہی کارناموں کیہ بدولت وہ اپنے نام کو اوراق تاریخ کے ذرئیعہء زندہ و جاوید بنا دیتا ہے۔ بغیر کسی شک کے وہ لوگ جو امتیازی حیثیت کے کُنبوں میں جنم لیتے ہیں۔ گمنام تو نہیں رہتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا جو تاکہ اُن کا شمار محض اس خاندانی امتیاز کے باعث عظیم لوگوں کی صف میں ہونے لگے جہاں تک تعلق ہے رائیٹ آنریبل ہز ہائینس سر سُلطان مُحمد شاہ ؑ آغاخان سوئم کا وہ نہ صرف ایسے کُنبے میں آنکھ کھولی جسے دنیا کی مقدس خاندان یعنی بنی ہاشم کہ کر آج بھی ممتاز مقام حاصل ہے اور رہئے گی۔ جیسا کہ وہ خود بھی اپنا تعارف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔”ہمارے کنبے کو رسول اکرم ﷺ کی براہ راست پشت سے اور آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہراء نیز آپ ؐ کے چہتے داماد حضرت علی(علیہ اسلام) کے ناطے تعلق کا دعوی ٰہے۔ بعد ازاں ہم فاطمی خُلفائے مصر کی پیڑھی سے بھی ہیں۔(میماریز آپ آغاخان(ص۰۷)
آغاخان کے کنبے کے متعلق ان کے ایک سونح نگار نے یوں تحریر کیا ہے۔ آغاخان رسول خدا ﷺ کی براہ راست پشت سے ہیں۔لاکھوں اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی سردار کی رگوں میں انتہائی پاکیزہ خون رواں دواں ہے۔ یہ شہزادہ عرب کے اُس خاندان ہاشمی اور قبیلہ قریش کی نسل سے ہے جو یورپ کے بوہرنیوں اور ہر نسوکوں سے بھی کہیں قدیم ہیں۔ اس شہزادے کی جسم اطہر میں قاہرہ،ٹولیڈو، کوڈؤا اور بغداد کی امتیازی تاریخی شخصیات اور نسلاً بعد نسلاً قصے کہانیوں کی روح کا تعطّر ہے“۔(دی آغاخان اینڈ ہزایڈ منسٹرز ص۵)
ہز ہائینس سر آغاخان کی ولادت با سعادت نومبر کی دوسری شب 1877 کو کراچی کے تاریخی مقام محمدی ٹیکری میں ہوئی۔ ابھی ان کی پیدائش کو صرف چار برس گزر چکے تھے کہ ان کے دادا جان آغاخان (اول) کی جہاں فانی سے رخصتی ہوئی۔ مذید چار برس بعد ان کے والد بزرگوار آغا شاہ علی شاہ انتقال فرماگئے۔ اس وقت ان کی عمر سات برس نو ماہ اور سولہ روز تھی۔ والد محترم کی رحلت کے بعد انھوں نے اسماعیلی مسلمانوں کی روحانی قیادت کی اعلیٰ ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ساتھ ہی جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ یعنی مسلمانوں کو جدید علوم کی جانب راغب کرنے عظیم کارنامہ اپنے کندھوں پر لیا اور اس کی ابتدا اس زمانے کے عظیم لیڈر سر سید احمد خان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران میں یہ عہد کیا کہ مسلمانان ہند کی تعلیمی پستی کی کی بنیادی وجہ جدید علوم سے نہایت دوری ہے۔ سر سید احمد خان سے ملاقات کا اہتمام نواب محسن الملک نے کیا تھا جو کہ آغاخان کے دلدادہ تھے اور ہز ہائینس کی ان خدمات سے متعارف تھے جو کہ آغاخان نے ہندستان کے شہر بمبئی کے صدر مقام پونا میں طاعون کی وباء پھیل جانے اور گاؤں کُشی فسادات کے دوران امن عامہ کے لئے بغیر کسی مذہب، ذات پات اور رنگ ونسل کے امتیاز کئے بغیر سر انجام دے چکے تھے اور کم عمری یعنی صرف نو سال میں ”سَر“ اور”ہز ہائینس“ جیسے ممتاز القابات ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے پاچکے تھے۔ سر سید نے آغاخان سرئم کی علی گڈھ محمڈن اورینٹل کا لج کی آمد کو نیک شگون سے تعبیر کیا اور سپاسنامہ میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ علی گڈھ مسلم کالج کو ترقی دے کر یونیورسٹی بنا یا جائے۔ اس کے جواب میں سر سید نے کہا کہ اس کام کو پورا کرنے کے لئے غیب سے ایک ہاتھ بلند ہوگا“۔
۔ جواباً عالی مرتبت ہز ہائینس نے سر سید احمد خان سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ جناب سر سید احمد کے سی آئی ای بہادر!
یہ کالج جدید دور کا سب سے معروف درس گاہ ہے اور اس وقت ہندستان میں اس سے بڑھ کر اور کوئی اچھی کالج مو جود نہیں بلکہ بیرون ممالک کی درسگاہوں سے بھی بڑھ کر اچھی ہے۔ اب ہمیں جدید تعلیم پر زیادہ سے زیادہ تو جہ دینے کی ضرورت ہے اور جدید علوم سے آراستہ ہوئے بغیر ہماری ترقی محال بلکہ مشکل بھی۔ ہمیں بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں کی بجائے علی گڈھ کو ہی ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہم پلہ بنا نا ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ خدا وند بزرگ و بر تر ہماری اس جدو جہد میں ہمارا ساتھ دیگا“۔
بد قسمتی سے ان دو بڑے مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے دو برس بعد 18 مارچ 1898 کو سر سید احمد خان انتقال کر گئے اور یہ کام آغاخان سوئم کی کندھوں پر آن پڑی تب انھوں نے ہندوستان میں جدید علوم کے حصول کے لئے راہ ہموار کرنے کی خاطر مالی طور پر اور وقت کا نذرانہ پیش کر کے کمر کس لیا۔ اس سلسلے میں مسلمانان ہند کی تعلیمی تنظیم محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس جس کا قیام 1899 میں عمل میں آیا تھا اور اس کے صدر بیرسٹر بدر الدین طیب جی جو بعد میں پہلے مسلمان جج بمبئی ہائی کورٹ بنے۔ اس تعلیمی ادارے کو مذید فعال کر دی۔
1910 کے آغاز سے دو عشرے مسلمانان ہند و پاک کے لئے سیاسی اور تعلیمی بیداری کے عشرے ثابت ہوئے اس دور کو ہندوستان کے مسلمان اگر سنہری دور (گولڈن پیریڈ) کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جاء نہ ہوگی۔ دو سال بعد ۲۲۔ جنوری 1910 کو ملکہ برطانیہ”وکٹوریہ کا انتقال ہوا۔ چند نا گزیر وجوہات کے علاوہ صحت کی خرابی کے سبب تاج کی منتقلی میں ایک برس اور چھ ماہ کی تاخیر ہوئی اور اگست 1920 میں ایڈوارڈ ہفتم تخت نشین ہوئے۔ در بار تاج پوشی کی یاد میں مسلمانان ہند نے دوسری تعلیمی کا نفرنس کا انعقاد۸ ۲ دسمبر 1920 تا یکم جنوری 1930 دہلی میں منعقد کیا۔ جس کی صدارت کا اعزاز آغاخان کو ملا اس موقع پر ایک قرار داد بھی منظور کر لیا گیا۔ اس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
”(۱) تمام یو نیورسٹیوں میں قانون کی کلاسیں جا ری کی جائیں اور قانون کی تعلیم کے لئے ایک مرکزی سکول کا قیام عمل میں لایا جائے۔
(۲) کا نفرنس اپنے دائرہ عمل کو سند ھ تک وسیع کرے تاکہ سند ھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی ترقی و اصلاح کی کوشش کی جائے۔
(۳) پنجاب کے طلبہ کی معافی فیس کے لئے گورنمنٹ کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے شبینہ مدارس قائم کئے جائیں۔
(۴) قومی یونیورسٹی کے قیام کے لئے صوبائی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔(علی گڈھ تحریک اور قومی نظمیں)۔
اس کے بعد ہر سال کے آغاز پر مسلمانان ہند نے تعلیمی کانفرنسیں جا ری رکھ دیں تیسری تعلیمی کانفرنس کا انعقاد بمبئی میں منعقد ہوئی جس کی صدارت بدالدین طیب جی نے فرمائی یہ وہ شخص تھا جو سر سید کے مخالفین میں اول درجہ حیثیت رکھتا تھا یعنی جدید علوم کی جد و جہد میں خواتین کو آگے لانے کے حق میں تھے اور ان کا یہ نظریہ تھا کہ معاشرے میں تعلیمی ترقی کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کو بھی موقع میئسر ہو۔ اس بار ہز ہائینس آغاخان نے بطور صدر استقبالیہ کمیٹی تقریر فرمایا۔
۸ مارچ 1911 ء کو ولی عہد برطانیہ (جو بعد ازاں کنگ جارج 1912 تا 1935 کہلائے) نے ہندستان کی سیاحت کی اور آغاخان کے ا صرار پر علی گڑھ مسلم کالج کا دورہ کیا علی گڈھ کالج کی معیار اور انتظامات بخود چشم دیکھنے کے بعد سائنسی علوم کے لئے ایک کالج کی منظوری دی۔ اس طرح اسی سال علی گڈھ کالج میں سائنس کے شعبے مکمل ہوئے۔ اور گرانٹ بھی منظور کیا گیا بعد ازاں جو تاثرات قلم بند فرمائے ان کا متن یہ ہے”بِلا شعبہ ایسی ہی درس گاہیں آئندہ نسلوں کی تربیت اور تشکیل پر اثر انداز ہو سکتیں ہیں“۔
اس سال یکم اکتوبر1940 ء کوائسرائے ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کے لئے ہندوستان بھر سے چونتیس مسلم اکابرین کی ایک فہرست تیار کر لی ان ایام میں آغاخان سوئم کولمبو سے چین کی طرف سفر پر تھے نواب محسن الملک نے ایک الفت نامہ(خط) ارسال کیا۔ جس میں نمائندہ وفد کی قیادت کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ انھوں نے اپنے سفر کو مختصر کر لیا اور واپس ہندوستان تشریف فرما ہوئے۔ تمام اکابرین نے ایک یاداشت تیار کر لی اس قرارداد میں اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) مسلمانان برصغیر ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں ہمیں حکومت ایک قوم تسلیم کریں اور ان کے حقوق و مفادات اور ذمہ داریوں کی ضمانت از روئے قانون دی جائے۔
(۲) بلدیاتی اداروں اور قانون ساز کونسلوں میں مسلمانوں کے لئے مناسب آبادی کی تناسب پر نمائندگی کا حق دی جائے۔
(۳) علی گڈھ مسلم کالج(ایم اے او) کالج کی ترقی کے لئے سالانہ کی بنیاد پر بجٹ مختص کی جائے۔ اور اسی ترقی دین کر یونیورسٹی بنانے کے لئے بھی رقم حکومت مہیاء کرے۔
(۴) عدالتوں میں اعلیٰ عہدوں (جج) پر مسلمانوں کا بھی انتخاب کا حق دیا جائے۔
نیز نمائندہ وفد کے قائد کی حیثیت سے وائسرائے ہند لارڈ منٹو کے رو برو سر آغاخان نے جو گفتگو کی اس کا متن یہ ہے”آنریبل وائسرائے ہند!لہٰذا ہم گزارش کرینگے کہ توسیعی شدہ یا محدود نمائندگی کے کسی بھی ن طریق کار کے تحت ایک ایسی آبادی جو بجائے خود اس کے استقناء سے کسی بھی اوّل درجے کی یورپی قوت کی مجموعی آبادی سے تجاوز ہے۔ اپنے لئے مملکت میں ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کئے جانے کے مطالبے پر برحق ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم اس امر کی اصررپر جسارت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نوع کی نمائندگی کے تحت جو بھی حیثیت دی جائے۔ وہ نہ صرف ان کی وقت بلکہ ان کی سیاسی اہمیت اور سلطنت کے دفاع میں ان کی معاونت کی قدر و قیمت کے پیش نظر متناسب ہونا چاہئے۔ ہم مسلمان ایک امتیازی اور علٰیحدہ برادری سے متعلق ہیں۔ ہمارے کچھ مذید مفادات ہیں جن میں کوئی دوسری برادری شریک نہیں ہمیں یقین واثق ہے کہ ایک برادری کے طور پر ہماری خواہشات اور مستقبل میں ہماری ترقی کا زیادہ انحصار ایک مسلم جامعہ کی بنیاد پر ہے۔ ہم آپ سے ایسے اقدامات کی استدعا کرتے ہیں۔ جو ہماری ان ذمہ داریوں کی تکمیل میں مدد و معاؤن ہوں جن میں ہماری برادری گہری دلچسپی رکھتی ہے“۔
مذکورہ بالا تجاویز پر لارڈ منٹو نے ہمدردانہ غور کرنے کی وفد کو یقین دلایا چار برس بعد منٹو مارلے اصلاحات کی شکل میں 1909 کو ان تجاویز کو تاج برطانیہ نے منظور کیا گیا۔ 1910 کے کی دسمبر کے مہینے میں باظابطہ طور پر علی گڈھ مسلم کالج کو ترقی دینے کے لئے ایک وفد تشکیل دی گئی اور آغاخان سوئم کو اس وفد کا قائد نامذ دکیا گیا اس وفد میں جو دیگر مسلمان اکابرین شامل تھے۔ ان میں نواب وقار الملک، مولوی محمد عزیز مرزا، راجہ صاحب محمود آباد(محمد علی محمد خان ساحرؔ) مولانا محمد شُبلی نعمانی (تمغہ مجیدی)، صاحبزادہ آفتاب احمد خان شیروانی، شاہ محمد سلیمان حاذق پھلواری، نواب نصیر حسین خیالؔ، سید علی واسطی بلگرامی، سید نبی اللہ، حاجی محمد موسیٰ خان شیروانی، مولوی رفیع الدین احمد (بمبئی والے)، نواب صاحب گنج پورہ(اقبال علی خان)، نواب حبیب الرحمٰن شیروانی، مولوی محمد عبداللہ خان وکیل سہارنپور، راجہ نو شاد علی خان اور مولانا شوکت علی (ضیغم اسلام) سکریٹری زیادہ قابل ذکر ہیں۔
اراکین وفد برائے محمڈن یونیورسٹی کے ساتھ ایک نشست میں آپ نے ارشاد فرماتے ہوئے نہایت جذباتی الفاظ میں کہا کہ ”اب میَں ایک بھکاری ہوں۔ گھر گھر جاؤں گا۔ گلیوں گلیوں پھروں گا اور مسلم ہند کے فرزندوں کے لئے بھیک مانگوں گا“۔ ہز ہائینس سر آغاخان اور ان کی وفد کے دیگر مسلم رہنماؤں جن کے اسمائے گرامی میَں نے اوپر درج کیا نے بیس لاکھ روپے بر صغیر کے طول و عرض جا کر جمع کئے۔انھوں نے ایک لاکھ (100,000) کا عطیہ دیکر اس مہم کا ابتدا کیااور دوسرا عطیہ بھی ایک لاکھ ہی کا تھا جو کہ بھو پال کی رانی نے دی۔ اس طرح 1930 کو علی گڈھ مسلم کالج یونیورسٹی بن گئی۔ ان کی مذکورہ خدمات کے اعتراف میں یونیورسٹی کا نائب شیخ الجامع(وائس چانسلر) منتخب کیا گیا جو کہ جنگ عظیم (دوئم) کے آغاز تک اس منصب پر فائز رہئے۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لئے دیگر اہم کارناموں میں تینوں گول میز کانفرنسوں کے دوران لندن میں تاج برطانیہ جارج پنجم اور برطانوی کابینہ سے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے وہ حقوق دلائے جو کہ مہتما گاندھی جی اور سروجنی نائیڈو مسلمانوں کو دینا نہیں چاہتے تھے۔ مثلاً سندھ کو بمبئی سے جدا کرنا بہت اہم کارنامہ تھا اگر یہ کارنامہ سر انجام آغاخان نہ دیتے تو آج کراچی کی بندرگا بھارت کا حصہ بنتی اور پاکستان کے پاس کوئی بندرگاہ نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے سیاسی و سماجی حقوق پر مہاتما گاندھی کو سیاسی شکست فاش کر دیا۔ جس کے اعتراف کرتے ہوئے گول میز کانفرنس کے دوران شریک ریاست کپور تھلہ کے وزیر اعظم حاجی عبدالحمید نے کہا تھا”ہز ہائینس آغاخان دین اسلام کے لئے پشت و پناہ ہیں۔ گول میز کانفرنس میں اگر آپ تشریف فرما نہ ہوتے تو اس میں کسی کام کا ہونا مشکل بلکہ ناممکن تھا اس کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے صرف آغاخان ہی تھے“۔
صرف یہی نہی بلکہ بیرسٹر سید امیر علی کے گھر کلکتہ میں کل ہند مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔تو آغاخان کو پہلا صدر منتخب مسلمانان ہند نے کیا اس منصب پر سات برس تک فائض رہئے اور مسلمانان ہند کو جو بھی سیاسی اور تعلیمی میدان میں کامیابی ملی وہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہرہے۔
گول میز کانفرنس میں آغاخان کی حسن کارکرگی پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ سر محمد اقبالؔ نے کہا کہ”ہم نے آغاخان جیسے قابل قدر مدبر جس کے ہم سب مداح ہیں اور جس نے ہندوستان بھر کے مسلمان اس خون کے باعث جو اس کی رگوں میں رواں ہے کی رہنمائی میں اپنے مطالبات کانفرنس کے سامنے رکھ دیئے ہیں“۔
انجمن اقوام (لیگ آف نیشنز) میں 1932 ء سے 1934ء تک ہز ہائینس سر سُلطان محمد شاہ نے ہندوستان کے سفیر کی حیثیت سے بے لوث اور بے باک خدمات انجام دیں۔ جس کے سبب بعد ازاں انھیں دو سال کے لئے لیگ کا صدر چنّا گیا۔
1940 سے 1950ء کے دوران جنگ عظیم (دوئم) کے سبب آپ نے یورپ میں زیادہ تر وقت گزارا لیکن آزادی کے اس اہم عشرے کے دوران بھی بیرون ملک سے مسلمانان ہند کے لئے رہنمائی سر فراز فرماتے رہئے۔ برصغیر کی تقسیم کے دوران آپ نے حد بندی کمیشن کویہ مشورہ دیا تھا کہ ”پورا پنجاب (جس کا نصف حصہ بھارت کے پاس ہے) پاکستان کا حصہ بنادیں۔ کشمیر اور بنگال بھارت کے حصے میں شامل کروائی جائے۔ تاکہ مستقبل میں کوئی سر حدی تنازعہ جنم نہ دے۔ ہندستان کی تقسیم کے لئے جارج ششم شاہ انگلستان کی جانب سے ۳ جون 1947 کو نوٹیفکیشن جاری ہوئی تو یورپ سے ایک تار کے ذریعے بابائے قوم کے نام مبارک بادی کا پیغام ارسال کیا جس کا متن آپ (قارئین) کی خدمت میں پیش ہے۔
”مجھے یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی کہ آپ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کے اوّل گورنر جنرل مقرر ہو چکے ہیں زوال خلافت کے بعد یہ مسلمانوں کی پہلی عظیم الشان فتح ہے میَں قادر المطلق کا شکر گزار ہوں کہ آپ کے ساتھ آزادی کایہ دن دیکھنے کے لئے میری زندگی نے وفاء کی۔ اب ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم تمام تر اپنی توانائی سے دل و جان کے ساتھ اسلام پر مکمل ایمان اور باری تعالیٰ پر کمال اعتماد کے ساتھ پاکستان کی عظمت حال اور مستقبل کے لئے اور ان بد قسمت مسلمانوں کے جو اب بھی غیر ملکی غلامی کے طوق سے سر نگوں ہیں۔ بھر پور کام کریں ہم پر لازم ہے کہ اب ایک نئی اور بہتر دنیا کے لئے محنت کریں۔ اب ماضی بعید کی عظمتوں یا ماضی قریب کی بد بختیوں میں مذید مسحور رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۷۱۔ اگست ۷۴۹۱ء
سوئیزر لینڈ جینوا
آغاخان“
بعد از قیام پاکستان اپنی پہلی بار مملکت خدادا پاکستان میں آمد کے موقع پر ان کی دلّی آرزؤں کا اظہار یہ کیا تھا کہ ملک کا قومی زبان فارسی یا انگریزی ہو تا کہ مستقبل میں یہ دو نوں زبانیں عالمی سطع کی زبانوں کی حیثیت حاصل کر دے گی اور ان میں سے ایک کو قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ کاش اگر ہم اپنے محسن کی ان تجاویز پر عمل پیرا ہوتے تو آج بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑتے اور نہ دہلی، آگرہ، لاہور یا اسلام آباد میں بھارت کے ساتھ ناکام مذاکرات کی نوبت آجاتی اور سب سے بڑھ کر نہ ہم سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے دوچار ہوتے۔