کالمز

قاری حنیف جالندھری کی گلگت آمد۔۔چند گزارشات

گلگت بلتستان اور چترال کا فطری حسن اور ملنسار لوگوں کی ضیافتوں کا معترف ایک زمانہ رہا ہے۔یہ دونوں علاقے ٹورسٹ ایریاز ہیں، سیزن میں یہاں کی مقامی أبادی سے زیادہ سیاح تشریف لاتے ہیں، اس لیے یہاں کے لوگ بھی کمرشل ہونا شروع ہوچکے ہیں لیکن کوٸی بزرگ شخصیت، عالم دین ، اسکالر، وزیر  مشیر ، نامور قلم کار یا کسی ادارے کا ذمہ دار یا مشہور شخصیت ان علاقوں میں مع فیملی اور درجنوں احباب سمیت تشریف لے أتی ہے   تو گلگت بلتستان اور چترال  کے لوگ جگہ جگہ روڈ کنارے ان کے استقبال میں کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر ان کے لیے خالی کیے جاتے ہیں اور ان کی أرام کا خیال کیا جاتا ہے۔ کیا عوام کیا علماء اور کیا حکومتی زعما ٕ، سب ان کی ضیافتوں میں جتے رہتے ہیں۔ اداروں کے ادارے چوکس رہتے ہیں۔
میں نے خود سینکڑوں علما ٕ  کرام اور دیگر نامور لوگوں کی کھڑے ہوکر خدمت کی ہے اور انہیں گھمایا پھرایا ہے۔ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہمارے محترم قاری حنیف جالندھری صاحب اپنے احباب سمیت گلگت تشریف لا چکے ہیں۔میں دل کی اتھاہ گہراٸیوں سے انہیں ویلکم کہتا ہوں۔گزشتہ سال قاری صاحب کے داماد بھی مع فیملی تشریف لاٸے تھے یقینا انہوں نے گلگت بلتستان کے نظاروں  اور محبتوں کو بیان کیا ہوگا تو قاری صاحب نے بھی رنجیدہ قدم فرمایا۔اھلا و سہلا۔
میں ان دونوں چونکہ حرمین میں ہوں ورنا میں بھی ہزاروں علما ٕ و طلبا ٕ اور عوام کی طرح قاری صاحب مدظلہ  اور ان کے احباب و اعزہ کے استقبال میں کھڑا رہتا اور ہاں دیگر کی طرح خاموش نہ رہتا بلکہ حسب معمول چند گزارشات ان کی خدمت میں اس نیت سے پیش کرتا کہ شاید ان کے دل میں اتر جاٸے میری بات۔اب مجبورا تحریر کے ذریعے پیش کررہا ہوں۔
میں نے یہ معمول بنا رکھا ہے کہ گلگت میں جو بھی ذمہ دار شخص تشریف لاٸیں، ان کی خدمت میں علاقے کی خوبصورتی ، دینی و ترقیاتی  پسماندگی بالخصوص اہل سنت کمیونٹی کی تعلیمی، طبی ، رفاہی، معاشی اور فکری و نظریاتی پسماندگی کو بلاکم وکاست ان کے سامنے رکھتا ہوں اور ان سے عرض کرتا ہوں  کہ أپ کو اللہ نے ہر قسم کی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کیساتھ وژن و فکر اور ہمت عطا ٕ کی ہے۔ أپ گلگت بلتستان اور چترال میں صرف سیر سپاٹے اور دوسری شادی کرنے کے لیے تشریف نہ لاٸیں بلکہ ان لوگوں کے لیے اپنی فیلڈ اور مہارتوں کو پیش نظر رکھتے ہوٸے تعلیمی ، طبی رفاہی اور تعمیراتی پروجیکٹ بھی لاٸیں یا کم از کم اپنے اداروں میں جاب اور اسکالرشپ پر ان کا کوٹہ مختص کریں۔أپ کا استقبال اور ضیافتیں خود بخود ہوجاٸیں گے اور شادیاں بھی۔ میں یہ اعتراف ضرور کرونگا کہ  جمیعت تعلیم القرأن ٹرسٹ اور اقرا ٕ روضة  الاطفال ٹرسٹ کے اکابرین نے ان علاقوں میں چھوٹے تعلیمی پروجکٹ شروع کیے اور اج یہ ادارے بڑی حد تک برگ و بار پھیلا چکے ہیں۔الخدمت فاونڈیشن اور ریڈ فاونڈیشن کی بھی اچھی کنٹری بیوشن ہے۔اور دیگر کچھ اداروں نے بھی کام کا أغاز کیا تھا لیکن انہوں نے ایسے لوگوں کو ذمہ دار بناکر کام کیا جن سے ادارے کی بدنامی کے سوا  کچھ ہاتھ نہ أیا۔ ہاں چند لوگوں کی تجوریاں ضرور بھر گٸی اور مجموعی رزلٹ  زیرو فیصد رہا اور پھر سسٹم  کلوز کرنے پڑے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیم سیلکشن بھی بہت اہم ہے۔ اقربا ٕ ١پروری اور ذاتی دوستیوں کو مدنظر رکھتے ہوٸے بغیر پیشگی پلان اور چیک اینڈ بیلنس کے ادارے چلاٸے جاٸیں گے توعمارت ہی دھڑام سے گر جاٸے گی۔
قاری حنیف جالندھری صاحب کی خدمت عالیہ میں مدرسین کی تنخواہوں کے حوالے سے پہلے بھی درد دل کے ساتھ کچھ معروضات پیش کر  چکا ہوں۔ جن کو فیسبکی مجاہدین اور دین کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والوں نے بری طرح اچھالا ہے۔اور مجھے دشمن دین اور علماء ثابت کرنے کی سعی لاحاصل بھی کی لیکن منہ کی کھانی پڑی۔تاہم سنجیدہ لوگوں نے میری اس گزارش پر بھی ایکشن لیا اور تنخواہوں میں اضافہ کیا۔
اور اب کی  بار صرف گلگت بلتستان اور چترال کے حوالے سے چند معروضات قاری صاحب کے ذریعے ان اصحاب خیر اور بڑے اداروں کے صاحبان حل وعقد تک پہنچانا چاہونگا کہ وہ ایک نظر کرم ادھر بھی کر لیں۔مجھے مکمل امید ہے کہ قاری صاحب خود بھی اور اپنے وسیع حلقہ احباب سے بھی ہماری گزارشات پر گفتگو فرماکر کوٸی عملی اقدام کریں گے۔اور وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے بھی اس کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش فرماٸیں گے۔
یہ بات بھی نوٹ رہے کہ گلگت بلتستان اور چترال میں اسماعیلی برادری اور اہل تشیع برادری ہر اعتبار سے مضبوط، منظم اور مستحکم  ہے۔کیونکہ ان کے بڑے جب بھی گلگت بلتستان اور چترال تشریف لاتے ہیں تو صرف گھومنے پھرنے کی غرض سے نہیں أتے بلکہ اپنی کمیونٹی کے لیے بڑے بڑے تعلیمی رفاہی اور طبی پروجیکٹ لے کرأتے ہیں۔جن سے ان کی کمیونٹی تو ہر حال میں استفادہ کررہی ہوتی ہے لیکن دوسرے لوگوں کو بھی کسی نہ کسی مد میں نفع مل جاتا ہے۔یوں گلگت بلتستان اور چترال کی تعمیر و ترقی میں ان کا کنٹری بیوشن بھرپور ہے۔اور پھر ان کی پشت پر بڑے بڑے ادارے، شخصیات اور ممالک کھڑے ہیں۔ سسٹم کا سسٹم انہیں سپورٹ کررہا ہوتا ہے یوں وہ ترقی کے دوڑ میں اتنے أگے نکل گٸے ہیں کہ اہل سنت دوربین لگاکر بھی ان کا تعاقب نہیں کرسکتی۔انتہاٸی افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں  عرب ممالک کی دولت انتہاٸی محدود سوچ اور مقاصد کے تحت چند ہی لوگوں کی تجوریاں بھرنے کا کام أرہی ہے اور خفت اور شرمندگی پوری اہل سنت کمیونٹی اور جید علماء کو اٹھانی پڑتی ہے۔ ان کی  دولت کا علاقے کی ترقی و تعمیر  میں کسی طور کنٹری بیوشن نہیں اور نہ ہی کسی مستحق تک پہنچتی ہے۔بس چند لوگ کروڈ پتی اور کھرب پتی بنے جارہے ہیں۔
بدقسمتی اور المیے صرف اہل سنت کے حصے میں أٸے ہیں۔ان کے ساتھ نہ کوٸی ادارہ کھڑا ہے اور نہ کی کوٸی شخصیت اور نہ ہی کوٸی مالدار ملک۔یوں یہاں کے لوگ ہر أنے والے کے لیے بچھ بچھ سے جاتے ہیں اور بس۔
قاری صاحب وفاق المدارس کے کرتے دھرتے ہیں اور خیرالمدارس جیسے قدیم ادارے کے رٸیس بھی اور بین الاقوامی بااثر شخصیت بھی۔ان سے گزارش ہے  خود بھی، اہل خیر حضرات کو بھی  اور بالخصوص بڑے جامعات کے مہتممین کو اس بات پر مجبور کریں کہ ہر ادارہ گلگت بلتستان اور چترال کے مختلف مقامات پر اپنے کیمپسز کا أغاز کرے۔نظم و ضبط کا پورا کنٹرول مرکز سے ہو۔ تعلیمی معیار تعلیم و تربیت مرکز سے کسی صورت کم نہ ہو اور اساتذہ اور طلبہ  و طالبات کو وہی سہولیات دی جاٸیں جو ان کے مرکز میں مل رہی ہیں۔اور مخصوص درجے کے بعد دورہ حدیث کے لیے اپنے مرکز بلا لیں۔
اور ساتھ ہی ہر ادارہ ایک مخصوص ذیلی ادارہ بھی قاٸم کرے جیسے دارالعلوم کراچی درس نظامی کیساتھ شعبہ دارالافتاء, جامعہ فاروقیہ شعبہ تحقیق و تالیف, جامعة الرشید شعبہ کلیة  الشرعیہ اور صحافت، جامعہ علوم الاسلامیہ شعبہ تحفیظ القرأن والتجوید، جامعہ اسلامیہ کلفٹن صوت الاسلام کا نظم،جامعہ بیت السلام رفاہی کام وغیرہ وغیرہ۔ باہمی مشاورت کے بعد دس بیس بڑی جامعات یہاں کام کا أغاز کریں تو یقین جانیں یہاں تعلیمی انقلاب أسکتا ہے۔اور کچھ جامعات یہاں کے فضلا ء کو ترجیحی بنیادوں پر مختلف مضامین بالخصوص قانون، سیاسیات، اردو، ایجوکیشن اور اکنامکس وغیرہ میں ریکگناٸز یونیورسٹیوں سے ایم اے اور تخصصات کروانے شروع کریں۔اور ٹیکنیکل امور پر بھی توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔اسی طرح گلگت بلتستان کی مساجد کا بھی برا حال ہے۔ اکثر مساجد میں اب تک باتھ روم جیسی اہم سہولت بھی نہیں۔ اس پر بھی سخت توجہ کی ضرورت ہے۔
اس طرح دیگر رفاہی ادارے کام کا أغاز کرسکتے ہیں۔ہر ادارے اور ہر فیلڈ کے ماہرین کے لیے یہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اور ترقیاتی کاموں کے لیے یہاں کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ یہاں کے لوگوں کی خدمت عظیم ہوگی اور اس کے دورس نتاٸج ثابت ہونگےاور ترقی کے دوڑ میں سب یکساں چل رہے ہونگے۔یہاں کے لوگوں کو صرف فساد و دنگا کے لیے استعمال نہ کیا جاوے۔اب وہ دور گیا کہ یہاں أکر تقاریر اور نعرے لگوا کر لوگوں کو احمق بنایا جاتا رہا۔اب لوگ سیانے ہوچکے ہیں۔ اپنے داٸیں باٸیں دیکھنے کی اور محسوس کرنے کی بھرپور سکت رکھتے ہیں کہ ان کے دیگر بھاٸی ترقی کے زینے جدید علوم وفنون اور رفاہی و تعلیمی اداروں کے ذریعے کیسے طے کررہے ہیں۔
ورنا یاد رہے کہ ترقی کے اس دور  میں دیگر کمیونٹی کے  لوگ اتنا أگے جاٸیں گے کہ ہمارے لوگ أپ کی ضیافتوں کے بھی اہل نہیں رہیں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button