مسلہ کشمیر اور عالمی عدالت انصاف
تحریر ۔اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گذشتہ دنوں ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مسلہ کشمیر پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔
اس بنا پر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت پاکستان مسلہ کشمیر کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس لے جانے پر مشاورت کر رہی ہے۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ہیگ میں واقع ہے, اور پندرہ ججوں پر مشتمل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد۱۹۴۵ میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس نے ۱۹۴۶ کے بعد اپنا کام شروع کیا۔
دنیا کی اس سب سے بڑی عدالت کا بنیادی کام قومی ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کو حل کرنا ہے تاکہ جنگ وجدل کے بجائے پرامن طریقے سے دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کیا جائے۔
کوئی ملک چاہیے تو اس عدالت کی جوڈیشل کارروائی میں شامل نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ کوئی خصوصی معاہدہ موجودہ نہ ہو ورنہ ایک بار اگر کوئی ملک اس کی اختیار سماعت کو تسلیم کرتی ہے تو اس ملک کو اس کورٹ کے فیصلے لازمی طور پر ماننے پڑتے ہیں۔ ۱۹۴۶ سے اب تک عالمی عدالت انصاف نے ۱۵۰ سے زائد مختلف نوعیت کے مقدمات کی سماعت کی ہے۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریاستوں کے درمیان مقدمات کی سماعت کے علاوہ اقوام متحدہ کی دیگر زیلی تنظیموں کو ان کی استدعا پر مشورہ دینے کا کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اٹل اور اس کورٹ کے فیصلوں پر کوئی اپیل بھی نہیں ہو سکتی ہے۔
مگر ایک امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج فورا مداخلت کرے چونکہ کشمیر میں اس وقت لاکھوں لوگوں کی جانوں کو سخت خطرہ لاحق ہے۔”
مگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے Chapter 7 کو invoke ( طلب ) کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے، جو سیکورٹی کونسل کو اجازت دیتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ آیا انٹرنیشنل امن اور سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہے کہ نہیں یا امن اور سیکورٹی کے خلاف جارحیت ہوئی ہے کہ نہیں؟
اس بات کو طے کرنے کے بعد وہ فیصلہ کرتی ہے کہ فوجی یا غیر فوجی ایکشن کے ذریعے سے بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کو بحال کیا جائے۔
چونکہ مسلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر کے Chapter 6 کے تحت ڈیل کیا جاتا ہے کیونکہ مسلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں میں پرامن ذرائع سے بذریعہ استصواب رائے کشمیر ایشو کو حل کرنے کا کہا گیا ہے۔
مگر وزیر اعظم پاکستان نے یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب امریکی صدر ڑونلڈ ٹرمپ نے مودی سرکار کے ہاتھوں جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ہونے سے قبل عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران مسلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی اور انکشاف کیا تھا کہ نریندر مودی نے بھی ان سے مسلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔
امریکی صدر کے اس انکشاف کے محض چند دنوں کے اندر ہی مودی سرکار نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔
مودی سرکار کی اس یکطرفہ کارروائی کے خلاف حکومت پاکستان نے چین کی مدد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا مگر نتیجہ توقعات کے برعکس آیا۔
چونکہ اقوام کے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل سے کسی بھی قسم کی قرارداد پاس کروانے کے لئے یہ لازمی ہے کہ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران سیمت دیگر دس غیر مستقل ممبران کل ملا کر پندرہ ممبران میں سے ۹ ممبران اس قرارداد کے حق میں ووٹ دے دیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران میں سے ایک ممبر بھی اس قرارداد کے خلاف ورٹ دے تو وہ قرارداد پاس نہیں ہو سکتی ہے، یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کئی اہم تنازعات حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔
کشمیر پر سیکورٹی کونسل کی حالیہ غیر رسمی اجلاس میں چین کے علاوہ دیگر چار مستقل ممبران نے اجلاس کے بعد مسلہ کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ تک جاری کرنے سے اجتناب کیا جو کہ باعث تشویش اور سفارتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جبکہ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تک بدستور کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی بات کررہے ہیں مگر انڈیا نے امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش کو نظر انداز کر دیا ہے۔
مسلہ کشمیر پر انڈیا ،پاکستان کے موقف کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو وزیر اعظم پاکستان کی انڈیا کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے والے اہم انٹرویو کی وجہ بظاہر مودی سرکار کے ہاتھوں جموں کشمیر کی خصوصی حثیت کے حوالے سے انڈین دستور کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ ہے۔
مگر اس کی اصل وجہ درحقیت مودی سرکار کا یہ موقوف ہے کہ اب پاکستان سے مسلہ کشمیر پر مذاکرات تو ہونگے مگر انڈیا کے زیر تسلط جموں و کشمیر پر نہیں بلکہ آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مذاکرات ہونگے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ مودی سرکار کی پالیسی اور سیاست کا اصل ہدف جموں کشمیر سے زیادہ آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے۔
اسی وجہ سے وزیراعظم پاکستان نے گذشتہ دنوں آزادکشمیر کا دورہ کیا اور انڈیا کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر انڈیا آزادکشمیر پر حملہ کریں گی تو پاکستان اس کا بہت سخت جواب دیں گا۔
سٹیٹرٹیجک نقط نظر سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کی اہمیت ریاست جموں وکشمیر کی دیگر اکائیوں مثلا جموں ،کشمیر ،لداخ ، اور آزادکشمیر سے بہت زیادہ ہے ۔
اسی وجہ سے تاج برطانیہ نے گلگت ایجنسی کو گریٹ گیم کے لیے چنا تھا تاکہ اس خطے کی اہم جیو سٹریٹیجک لوکیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی جارحیت کو روکا جائے۔
ماضی کی دو سپر پاورذ کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز گلگت ایجنسی ہی رہی ہے اور آج کی سپر پاورز کے لئے اس کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں کہی گناہ زیادہ ہے۔
تاج برطانیہ نے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لئے ڈوگرہ افواج کو استعمال کیا اور مہا راجا کشمیر کے ساتھ معاہدہ کرکے شروع میں گلگت ایجنسی میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹس مقرر کر کے کام چلایا مگر انقلاب روس کے بعد ۱۹۳۵میں گلگت ایجنسی کو مہاراجا ھری سنگھ سے گلگت لیز ایگریمنٹ ۱۹۳۵کے تحت ۶۰سال کے لیے باقاعدہ لیز س پر لیا پھر تاج برطانیہ نے گلگت ایجنسی میں اپنی ملٹری اور سویلین ایڈمنسٹریشن قایم کرکے اپنا نوآبادیاتی نظام مسلط کیا اور کامیابی سے گریٹ گیم کھیلی۔
تقسیم ہند کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے حصول کے لیے پاکستان انڈیا کے مابین پہلی جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان نے اپنی پہلی قرارداد مورخہ ۱۳ اگست 1948 گلگت بلتستان بشمول ریاست جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ ڈیکلیر کر دیا جس کی مذید تصدیق سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی بینچ نے گلگت بلتستان کے آیینی حیثیت سے متعلق ذیر سماعت مقدمات کی سماعت کے دوران مورخہ سترہ جنوری ۲۰۱۹ کے فیصلہ میں کیا۔
مودی سرکار نے مہا راجہ ھری سنگھ کے ساتھ کیا گیا دستاویز الحاق نامے کو یکطرفہ طور پر ختم کر کے بھارتی زیر کنٹرول جموں کشمیر پر اس طرح قبضہ جمایا ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے۔
مودی سرکار نے جموں وکشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے فوراً بعد کشمیر میں کرفیو نافذ کیا ھے جو کہ بدستور جاری ہے اور تمام کشمیری سیاسی قایدین پابند سلاسل ہیں جبکہ انٹرنٹ فون سروس اور دیگر ذرایع ابلاغ پر پابندی لگائی گئی ہے، تاکہ کشمیریوں کی چیخیں دنیا کو سنائی نہ دیں۔کشمیر میں اس وقت اٹھ لاکھ سے زاید انڈیا کے فوجی تعینات ہیں .
انڈین حکومت کے فیصلے نے ایک ارب سے بھی زاید شہریوں کے لیے جموں و کشمیر میں آباد کاری کرنے کا دروازہ کھول دیا ھے۔
اب خدشہ ہے کہ ایک ارب سے زاید آبادی پر مشتمل بھارت کے شہریوں کی جموں کشمیر میں آبادکاری کی وجہ سے مقامی آبادی نہ صرف اقلیت میں بدل جائے گی بلکہ ان کی بھی حیثیت فلسطین جیسی بن جائے گی .
انڈیا نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 سیکشن 4 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک متنازعہ علاقے پر براہ راست قبضہ کیا ہے۔ جو کہ بین اقوامی قوانین کی کھلی خلاف ہے واضح رہے کہ۲۲ اکتوبر 1947 کی خونی جنگ کے نتیجے میں مسلہ کشمیر نے جنم لیا تھا۔
انٹرنیشنل لاء کا یہ واضح اصول ہے کہ دوران جنگ کسی علاقے پر کوئی ملک قبضہ کرتا ہے اور اس علاقے میں اپنی اقتدار اعلی قایم کرے تو وہ علاقے متنازعہ اور Defacto کہلاتے ہیں۔
جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے حالیہ دنوں میں مودی سرکار نے جموں و کشمیر کو براہ راست اپنی سنٹرل حکومت کے ذیر انتظام لایا ہے مگر انٹرنیشنل لا کے تحت انڈیا کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر بدستور Defactoعلاقے ہی تصور ہونگے جس طرح پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہیں۔
مودی سرکار کے اس غیر قانونی یکطرفہ اقدام کے خلاف حکومت پاکستان عالمی عدالت انصاف جانے کے لئے مشاورت کر رہی ہے جو کہ ایک اہم قدم ہے مگر اس میں کامیابی کے لئے پہلی شرط اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل ۳۶کے تحت دونوں فریقین کا راضی ہونا ضروری ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں انڈیا کا راضی ہونا مشکل لگتا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے اور بھی ٹیکنیکل مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے ۔
پاکستان کے ذیر انتظام گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجکٹ رول کی۱۹۷۴ میں معطلی کے بعد کی صورت حال سے متعلق سوال اٹھ سکتے ہیں ساتھ میں ناردرن ایریاز میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی لوکل اتھارتی کی حکومت کے قیام سے متعلق سوال کھٹرے ہونے کے بھی قوی امکانات موجود ہیں، جو مزید پریشان کن حالات پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس لیے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جانے والا راستہ بظاہر بہت آسان نظر آتا ہے مگر درحقیقت یہ پھولوں کا ہار نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے ،اس لیے پاکستان کے ماہرین بین الاقوامی امور
مسلہ کشمیر کو عالمی عدالت انصاف لے کر جانے سے قبل یقینا سو بار ضرور سوچیں تو بہتر ہے ورنا خواہشات پر تعمیر کیے گئے ہوائی قلعے کے زمیں بوس ہونے کے قوی امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے حکومت پاکستان کے پاس جنگ کرنے یا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جانے کے علاوہ ایک اور زیادہ بہتر قانونی راستہ جموں وکشمیر کی آزادی کی غیر مشروط حمایت کی شکل میں موجود ہے۔
جس کا قانونی جواز اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے۔
پاکستان کے ۱۹۷۳ آیین کے ارٹیکل ۲۵۷ میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ” جب ریاست جموں وکشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں، تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہونگے۔
کشمیریوں کی حق خودارادیت کو جب تک عالمی برادری کی سپورٹ نہیں حاصل نہیں ہوتی تب تک ریاست جموں وکشمیر میں استصواب رائے ممکن نہیں ہے۔
جموں وکشمیر کے ان حالات کے پیش نظرکراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر مونث احمر نے دو ۲۳ اگست کو ایکسپریس ٹریبیون اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون بعنوان UN Trusteeship Council A way forward for Kashmir میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل ۷ کو invoke کیے بغیر اقوام متحدہ کی امن فوج کشمیر نہیں بھیجی جاسکتی ہے، مگر ان کا استدلال ہے کہ جموں وکشمیر میں انسانی کراسس پیدا ہوچکے ہیں اور اس بنا پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل 7 کے تحت کشمیر میں امن فوج بھیجی جاسکتی ہے۔
انہوں نے مسلہ کشمیر کے مستقل حل کے لئے تجویز پیش کی ہے کہ عرصہ دس سال کے لئے ریاست جموں وکشمیر کو اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل کے حوالے کیا جائے،تاکہ اس عرصے کے دوران ریاست جموں وکشمیر میں حالات بہتر ہوں اور پھر ریاست کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں، انھوں نے اپنی اس تجویز کی بنیاد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراداد نمبر 39 اور قرارداد نمبر 48 پر رکھا ہے۔
اور عرصہ دس سال کے لئے ریاست جموں وکشمیر کو اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل کی ایڈمنسٹریشن میں دینے کا تجویز پیش کیا ہے تاکہ کشمیریوں پر ظم بند ہو اور پاکستان،انڈیا کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ ممکن ہو اور کشمری اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے طے کریں۔
اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی غیر مشروط سپورٹ کیا جائے تاکہ دنیا تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی یا مذہبی تحریک کی بجائے ایک "آزادی کی تحریک” کے طور پر تسلیم کریں تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو انڈیا کے تسلط سے آزادی مل سکے اور اس خطے سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ختم ہو اور مستقل امن اور سیکورٹی کا قیام ممکن ہو سکے۔