رامافیسٹیول کی خوبیاں اور خامیاں
قدرتی حسن سے مالامال حسین وادی ، آبشاروں کی سرزمین بہتے ہوئے ندی نالے فلک شگاف پہاڈ وں سمت نگاپربت کے دامن میں واقعہ راما کا مقام دنیا میں اپنی منفرد حثیت کی وجہ سے مشہور ہے ۔جسکی خوبصورتی فیسٹیول کے نام پر ہونے والے سالانہ کی بنیاد پر دھمال جو کڑی نے اس منفرد مقام کے حسن ماند کرنے لگاہے ۔ ۔۔۔۔
پہاڈی سلسلے چاروں طرف بیج میں ہم ہے ۔
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں ۔
دنیا کے اس خوبصورت سیاحتی مقام میں سالانہ فیسٹول کا انعقاد ہوتا ہے ۔ اس خوبصورت فیسٹیول کو کامیاب بنانے میں صوبائی حکومت ، ضلعی انتظامیہ ،سیکورٹی ادارے ، سیاسی و سماجی لوگوں کا اس فیسٹول کو کامیاب بنانے میں اہم کرادر ہوتا اس میں کوئی دو رائی نہیں ۔ اس فیسٹیول کا انعقاد کرنا حکومت کا اچھا اقدام ہے ۔۔۔ سوال یہ اٹھاتا کہ سا لانہ اس فیسٹول کے بجٹ کو بڑھانے کے بجائے اس فیسٹیول کے بجٹ میں کٹ لگایا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے شندور فیسٹیول ،خنجراب سائیکل ریلی اور سرفرنگا ایونٹ کو بہتر بنانے میں حکومت کرڈوں روہے خرچ کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔؟ لیکن جب راما فیسٹیول ہوتا ہے تو سالانہ بجٹ بڑھانے کے بجائے کم ہو تا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا دیو سائی جیسے خو بصورت جگے میں بھی اگر اس طرح کے فیسٹول کا انعقاد کرواتے تو مذید سیاحت کو فروغ ملتا ۔۔۔ اس میں حکومت نے دو سال قبل لاکھوں روپے خرچ کر دیوسائی میں گروانڈ بناکر پیسوں کا ضائع بھی کیا ۔۔۔وہا ں گروانڈ اس لیے بنایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایونٹ کا منعقد کروانے جا رہے تھے بعد میں سیکورٹی ایشوز کی بنا پر اس کو کینسل کر دیا گیا ۔ راما فیسٹیول کیطرح دیوسائی میں بھی ہر سال فیسٹیول کروانا چائیے تھا ۔۔ ۔۔۔۔بد قسمتی سے نہ دیوسائی میں فیسٹیول ہوتا ہے ۔۔۔ اور نہ ہی راما فیسٹیول مذید بڑھانے کے باوجود محدود بجٹ دے کر ناکام بنانے کی کوشش کر جا رہی ہے ۔۔۔ راما میں پولو کے علاوہ دیگر کھیلوں کو بھی فروغ ملنا چاہیے۔۔۔۔راما گلگت بلتسان کا فیسٹیول ہے نہ کہ استور یوں کا اس سے پورے گلگت بلتستان کو ٹوریزم کو فروغ ملتا ہے ۔۔۔2019 کے فیسٹیول میں ٹوٹل 18 لاکھہ روپے کا بجٹ دیا گیا تھا اتنا بڑا فیسٹیول کے لیے یہ بجٹ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔۔اس کم بجٹ میں ضلعی انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ کم بجٹ میں راما فیسٹیول کو بہتر امداز میں کامیاب بنایا جو خراج تحسین کے مستحق ہے ۔ ۔۔۔۔دوسرا سب سے بڑا امتحان ضلع استور میں پہلے ڈپٹی کمشنر بن کر تعینات ہونے ڈی سی اعظیم اللہ کے لیے ایک امتحان تھا۔ اس کم بجٹ میں بنکوں اور مختلف طریقوں سے ڈونیشن لے کس طرح اس ایونٹ کو کامیاب بنایا یہ اللہ بہتر جانتا ۔۔ ۔ ۔۔۔۔اب میں ایک اشعار کے ساتھ راما کی خامیوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کچھ بتاتا چلوں ۔۔۔۔
میں یوں تو بھول جاتا ہوں خراش تلخ باتوں کو
مگر زخم گہرے دیں وہ رویے یاد رکھتے ہیں
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت و دیگر زمہ دار ادارے اس فیسٹیول کو ماضی میں بھی مخلتف سیزن میں انعقاد کرواتی رہی ہے ۔ اس سال اگست کے مہینے میں اس کو انعقادکیا گیا جو بہتر تھا ۔۔۔ لیکن اس کو جولائی مہینے میں کروایا جائے تو اور بہتر ہوتا ۔۔۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے اس جدید دور میں بغیر موسمی رپورٹ چیک کئے اس کی تاریخ مقرر کیجاتی ہے ۔۔ جس سے فیسٹیول کے دوران ملکی اور غیر ملکی سیاحوں ، شائقین پولو ،انتظامیہ سمت گلگت بلتستان سے آئے ہوئے پولو ٹیموں کو مشکالات کا سامنہ کرنا پڑتا۔۔ اس سال بھی موسم کی خرابی کی وجہ سے ایک دن تاخیر بھی کیا گیا اور اگلے دن بھی گروانڈ کے اندر پانی کی وجہ سے میشنری لگا کر بڑے جہد وجہد کر گروانڈ کے اندر اکھاڑ بچھاڈ کرتے ہوئے مٹی نکال کر گروانڈ کو کھیلنے کے قابل بنایا ۔۔۔حکومت کو چاہیے کہ وہ سالانہ فیسٹیول کی تاریخ موسم کی رپورٹ کے مطابق مقرر کریں تاکہ فیسٹیول پر آئے ہوئے لوگ سفر نہ ہوں ۔۔۔ اب ہم بات کرتے ہیں اس سیاحتی مقام کے روڈ کے حوالے سے تو راما روڈ پیچھلے سال ٹینڈر ہو کر ٹھیکدار نے کام کا آغاز تیزی سے کرتے ہوئے روڈ کو اکھاڑ پچھاڈ کر دیا ۔۔۔۔جس سے لوگوں کا کہنا تھا یہ ٹھکیدار سیزن سے پہلے روڈ مکمل کر لے گا ۔سردی کاموسم شروع ہوتے ٹھکیدار نے مشنیر ی لے کر رفو چکر ہوا تاحال منظر عام سے غائب کوئی پو چھنے والا نہیں ۔۔ ۔۔۔راماکیطرف آنے والے لوگوں کا راما روڈ کے حوالے سے ہی شکایت دیکھنے کو ملی۔راما روڈ موت کنواں بنا کر چھوڈا دیا گیا ہے ۔۔۔۔ حکومت کو چاہیے اس مسلے پر جلد غور کر کے راما روڈ کا کام شروع کر وایا جائیں ۔ فیسٹیول میں بہتر انتظامات کئے گئے تھے ۔۔۔ اب ناظرین کو بتاتا چلوں راما فیسٹیو ل کے کلچر شو کے حوالے سے حکومت فیسٹول میں پولو میچز اور دیگر چھوٹی ایکٹوٹیز کے ساتھ ساتھ دوسرا سب سے زیادہ بجٹ کلچر شو پر دیا جاتا تاکہ علاقے کلچر اور ثقافت کو مذید اجاگر کیا جائیں۔۔۔لیکن استور آرٹس اینڈ کونسل نے آرٹس اور کلچر کے نام پر استور کے کلچر کا جنازہ نکال دیا ۔۔۔سالا حکومت سے لاکھوں کا فنڈ بٹورنے کے لیے آرٹس اور کلچر کے نام پر لڑکوں کو موسیقی کی دھن میں نچانا استوری کلچر کے ن پر مذاق ہے ۔استور آرٹس اینڈ کلچر کو سمجھنے والے لوگوں پر مشتمل کونسل بنائی جائے ۔ آرٹس کونسل ہر سال ڈھول کی تھاپ پر غریب عوام کو ناچنے اور مفادات کو دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں ۔ جسکی زندہ مثال ہر سال کیطرح اس سال بھی راما فیسٹیول کے دوسرے ورزہ تین گلوکاروں کو بلا کر تقافتی شو کے نام پر تماشہ دیا جاتا ہے ۔و غیرنا گلگت بلتستان کی کی ثقافت ڈھول کی تھاب اورروائتی دھنوں کے علاوہ بہت وسیع ہے ۔اس لیے چاہیے تھا راما فیسٹیول میں ثقافتی چیزوں پر مبنی سٹالز کا بھی اہتمام ضرور کرنا چا ہیے تھا۔ آرٹس کونسل میں ادب اور شعرا پر مبنی سینئر لوگوں کا گروپ ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہاں مفادات دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے سیاسی رہنما اور صحافی بھی ملوث ہے ۔۔ اس سال بھی لوکل شعرا کو فری ناچایا گیا۔ ان کو جو حق ملنا تھا وہ کہا ں گیا ۔ وہاں پر دیسی بنڈ اور گلوکاروں کا پیسے کم دینے کا احتجاج بھی دیکھنے کو ملا۔ بعض گلگت سے آئے ہوئے گلوکاروں کو بغیر پیسے دیکھ بیجھا گیا ہے جو گلگت میں جا کر سر اپا احتجاج نظر آرہے تھے۔۔ ہم سب نے ملکر اس طرح کے فیسٹیول کو کامیاب بنانا ہے نہ کہ روپے کمانے کا زریعہ بنائیں ۔ آخر میں عوام سے اپیل کرتا ہوں سیاحتی مقامات میں جب ٹور پر جاتے ہو تو کچرے کو کچرہ ڈبہ کے اندر ڈالیں نہ کہ کہی بھی مرضی کے مطابق نہ پھینک دیں اس سے بہت بڑا نقصان پہنچاتا دوسرا اس جگے کی قدرتی خو بصورتی اور ماحول پر بڑا اثر پڑتا ۔۔ دوسرا وہاں اس گندگی سے ہم خود بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔۔ عوام سے اپیل ہے صفائی کا خاص خیا ل رکھیں ۔۔۔۔۔راما فیسٹیول کے دوران راما کے سیاحتی مقام پر جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ضلعی انتظامیہ فوری طور پر صفائی مہم چلا کر گندگی کو صاف کریں اس میں عوام بھی بھر تعاون کریں تاکہ صاف ستھرا ماحول سے لطف اندوز ہو جائیں ۔ صفائی نصیب ایمان ہے ۔
آخر ایک شعر کے ساتھ اجازت لینا چاہتا ہو
حسین دلبر پری پیکر ہے راما
بڑا دلکش تیر ا منظر ہے راما