کالمز

سورج کی روپہلی کرنیں اور گلمت گوجال کا اجتماع

بارہ اگست کی صبح عید الاضحیٰ کی خوشیوں کے ساتھ طلوع ہوئی تھی۔ علیٰ الصبح جب میں ناصر آباد سے گلمت گوجال کی طرف پا بہ رکاب تھا تو سورج کی روپہلی کرنیں راکاپوشی کی چوٹیوں کو یوں بوسہ دے رہی تھیں جیسے کوئی ماں اپنے بچے کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئی جگا رہی ہو۔ رات کی ہلکی بارش کی نمی گاڑی کی ونڈ سکرین کو دھندلا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا شیشے صاف کیجئے یہ دھند ہماری بینائی میں مخل ہو رہی ہے۔ شیشہ صاف کیا گیا، ہمیں صبح آٹھ بجے گلمت گوجال میں عید نماز کی امامت کرنی تھی اور خطبہ دینا تھا۔ اب کیا تھا، ہم تھے، ہماری گاڑی تھی اور شاہراہِ رشیم تھی۔ ہماری نظریں پھسل پھسل کر راکاپوشی کی چوٹیوں پر پڑتیں۔ ممتا کی محبت سے لبریز کرنیں جہاں ماں اور بچے کی محبت کا سماں باندھ رہی تھیں وہاں ہمیں ایک عظیم ماں حضرت حاجرہ علیہاالسلام بھی بے ساختہ یاد آئی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ تو ہم نے بہت سنا۔ لیکن حاجرہ کی قربانی کو ہم شاید نظرانداز کرتے آ رہے ہیں۔ آپ تصور کی آنکھ سے ذرا مشاہدہ کیجئے کہ یہ عظیم ماں اپنے مجازی خدا کے کہنے پر اپنے لخت جگر کو نہلا رہی ہے، ان کو سفید کپڑے پہنا رہی ہے اور ان کی آنکھوں میں سرمہ لگا رہی ہے یہ سب جانتے ہوئے کہ اس کے لخت جگر کی شادی نہیں بلکہ انہیں زبح کرنے لے جایا جا رہا ہے۔ سلام ہو ایسی ماؤں پر جو اللہ کی راہ میں ایسی ثابت قدم رہتی ہیں۔

پھر اسماعیل کی فرمانبرداری کو دیکھئے کہ اپنے ابا حضور سے کہتے ہیں کہ ابا مجھے زبح کرتے ہوئے اپنی آنکھوں پر پٹی ضرور باندھ لیجئے لیکن مجھے آزاد چھوڑیے میرے ہاتھ پیر باندھ کر زبح نہ کجئیے کہ کل کا مورخ یہ نہ لکھے کہ باپ نے بیٹے کو زبردستی زبح کیا۔ سلام ہو ایسی اولاد پر جو حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو اس لیے برملا کہنا پڑا تھا؎

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی

کہنے والے نے بڑے پتے کی بات کی ہے:

’’اصل قربانی تو باپ اور بیٹے کی گفتگو تھی۔ دنبہ کی قربانی تو اس کا فدیہ تھا۔ ہمیں دنبہ یاد رہا، گفتگو یاد نہ رہی۔‘‘

میں نے اپنے خطبے میں بھی روایات سے زیادہ عملی زندگی میں ان انبیا کرام علیہما السلام کی سیرت کو اپنانے پر زور دیا۔ شیخ مبارک علی کا قصہ تاریخ کے اوراق کا حصہ ہے کہ وہ حج کے دوران کس طرح خواب دیکھتے ہیں۔ فرشتوں کو آپس میں بات کرتے سنتے ہیں اور علی ابن موفق کا نام سن کر ان سے ملنے شام کا سفر کرتے ہیں۔ تفصیلات کے لیے پڑھئیے مولانا رحمت اللہ سبحانی کی کتاب ’’مخزنِ اخلاق‘‘۔

اسی طرح ممتاز مفتی اپنی کتاب ’’لبیک‘‘ (سفر حج) کے صفحہ ایک سو پینسٹھ میں بڑی خوبصورت بات کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’جب حج کے فرائض کی ادائیگی کے بعد شیطان کو کنکریاں مارنے کا وقت آیا تو مجھے بھی دیگر حاجیوں کی طرح مذہبی عقیقت اور شیطان سے نفرت کی وجہ سے کنکریاں مارنے کا موقع ملا۔ لیکن جب میں نے پہلا کنکر پھینکا تو وہ اس پتھر سے ٹکرا کے واپس آکر میری پیشانی پر لگا، میں نے دوسرا کنکر پھینکا وہ بھی واپس آیا اور جب تیسرا کنکر بھی واپس آکر میری پیشانی پر لگا تو اندر سے آواز آئی کہ شیطان اس پتھر میں نہیں بلکہ آپ کے وجود کے اندر ہے۔‘‘

یہ واقعات ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ہم روایت سے زیادہ عملی زندگی پر توجہ دیں تو اس کا اجر پالیں گے۔ جیسے قربانی کے جانور کے لیے شرط ہے کہ یہ حلال کی کمائی کا ہو، بیمار یا معزور نہ ہو اور آخر میں قربان ہوکر معاشرے کے تین تین طبقوں کے کام آئے۔

پہلا: ضرورت مندوں۔

دوسرا: رشتہ داروں۔

تیسرا: خاندان والوں۔

آج دین اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ فریضہ قربانی کے ساتھ ساتھ مکمل خلوص کے ساتھ یہ بھی خیال رکھیں کہ۔۔۔۔

ایک: ہم اپنی اولاد کو ایسی تربیت دیں جو حضرت اسماعیلؑ کی طرح اپنے ظاہری اور باطنی ماں باپ کے تابعدار ہو۔

دو: اس اولاد کو انسانی قربان گاہ میں جو کہ درحقیقت انسانی معاشرہ ہے، پیش کرنے سے پہلے یہ یقین کرلیں کہ اس کی تربیت حلال کی کمائی سے ہوئی ہو، وہ کسی بھی لحاظ سے اخلاقی معزور نہیں ہے، اگر یہ اولاد ظاہری علوم میں تو بہت تیز ہے مگر دینی معاملات میں نامکمل ہے تو وہ قربانی کے لائق نہیں۔

تین: ایک مسلمان مال کے گلے میں چھری رکھنے سے پہلے خود مکمل طور پر اس کیفیت کو محسوس کرلے جس سے حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ گزرے تھے۔

آج کی زندگی میں سب سے عزیز چیزوں میں سے ایک انسان کا وقت ہے۔ ہماری قربانی کا ہم سے تقاضا ہے:

اوّل: آج اپنے بیوی بچوں، والدین اور گھر کے دوسرے افراد کو وقت دیں اور ان کی خدمت کریں جوکہ ہماری قربانی کے ایک حصے کا حقدار ہیں۔

دوم: اپنے خاندان کے دوسرے بہن بھائیوں کی خدمت بجا لائیں جوکہ ہماری قربانی کے دوسرے حصے کا حقدار ہیں۔

سوم: اللہ تبارک و تعالیٰ، ان کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کے احکامات کی روح کا خیال رکھتے ہوئے مخلوقِ خدا کا حق ادا کریں، جو کام ہم کر رہے ہیں وہ ایمانداری سے کریں۔ اپنے پیشے سے مخلص ہوکر کام کریں۔

عید کے خطبے میں اور بھی بہت ساری باتیں ہوئیں۔ عید کے بعد دوچار دن ہنزہ کے نوجوانوں اور اکابرین کے ساتھ بھی نشست ہوئی۔ ہر جگہ اور ہر ایک سے میں نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیا۔ نوجوانانِ ہنزہ کی محبتوں کو سلام کہ انہوں نے میرے چار پانچ دن کے سینشنز کو کامیاب بنایا۔

میں اس گزارش کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ وہ اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ کتابیں ان کے لیے سودمند ثابت ہوسکتی ہیں:

مخزنِ اخلاق از مولانا رحمت اللہ سبحانی، مذاق العارفین از امام غزالی، اسلام ہمارا دین از مولانا کوثر نیازی، ناصر خسرو ۔ لعل بدخشان از ڈاکٹر الائیس سی ہنبرگر، لبیک از ممتاز مفتی، اسماعیلی عقیدہ مسودہ از الواعظ کریمی، علوم القرآن از جلال الدین سیوطی۔

فی امان اللہ!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button