مسرور عباس کاوش
گلگت بلتستان آجکل سیاسی پارٹیوں کا آماجگاہ بن گیا ھے۔ تمام مرکزی پارٹیاں 2020 الکيشن کے لئے جوڈ توڈ اور اپنی اپنی اثر رسوخ بڑھانے میں لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان پيپلز پارٹی نے گلگت بلتستان میں سکردو کے مقام پر اپنا پاور شو دیکھایا تو ہزاروں لوگوں نے اس جلسے میں شرکت کرکے کامیاب بنایا .عوام نے بتا دیا کہ وہ کس کے ساتھ ھے۔ مگر یہ کامیابی پی ٹی آئی کو ہضم نہیں ہوئی۔
پی پی پی کے جلسے کا جواب دینے کے لئے پی ٹی آئی نے اپنے مرکزی قائدين کو گلگت بلتستان بھیجا اور انہوں نے استور میں جلسے کے لئے جگہ تعين کیا۔ مگر پی ٹی آئی کی اندرونی اختلافات کی وجہ سے جلسہ بری طرح فلاپ ہوا۔ گلگت بلتستان کے چند قائدين کے علاوہ زیادہ تر نے اس جلسے سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔
.پی ٹی آئی گلگت بلتستان ابتدا ہیسے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھے۔ اس وقت ہر ایک اپنی جگہ صدر بنا پھرتا ھے اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پارٹی مختلف لابیوں میں تقسیم ہے۔ صدر جعفر شاہ اور گورنر راجہ جلال صاحب ایک دوسرے کے مخالف ہے تو حشمت اللّه اور فتح اللّه ایک دوسرے کے مخالفت میں سر گرم ھیں۔ یعنی ہر حلقے میں ایک لابی بنی ہوئی ھے جو ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے مرکزی قائدين کے اثر رسوخ استمعال کرنے کی تگ ودو میں ھیں۔ ایسے حالات میں پی ٹی آئی کا جیتنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ھے۔ صدر جعفر شاہ نے گلگت بلتستان سے کلین سويپ کرنے کا وعدہ کرکے صدارتی عہدہ تو حاصل کر لیا مگر اس وقت وہ شش و پنج میں مبتلا ہے اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ وہ چيلنج کو کیسے ہینڈل کرتے ہے۔ اگر اس الکيشن میں اچھی کارکردگی نہیں دیکھائی تو جعفر شاہ کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ھو جائے گی۔