تحریر: یونس راجہ
سیاحت ایک اہم صنعت ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس شعبے میں سرمایہ کاری کرکے اپنی درآمدات بڑھاتے ہیں۔
ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن (WTO) نے پیشنگوئی کی ہے کہ ایک ملک سے دوسرے مُلک سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد 1997 میں431 ملین تھی جو 2020 تک 1.4 بلین تک بڑھ جائیگی جس میں تاحال کوئی کمی نظر نہیں آتی، سیاحت سے مقامی لوگوں کا کاروبار خوب چلتا ہے، تفریحی مقامات، ہوٹلوں، دکانوں اور ٹرانسپورٹرز کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے یوں اضافہ در اضافہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملتا ہے۔
بینالاقوامی سیروسیاحت سے حاصل ہونے والا ذرِمبادلہ 1996 میں 423 بلین یوایس ڈالر تک پہنچ گیا تھا جو پیڑولیم کی مصنوعات، موٹرگاڑیوں، مواصلاتی آلات، کپڑے کی صنعت یا کسی بھی دوسری صنعت سے سبقت لے گیا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سیروسیاحت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی پانے والی صنعت ہے، اور یہ دنیا کی گھریلو صنعتوں کے تقریباً 10 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔
سیاحت کے لحاظ سے دنیا بھر میں پاکستان بہترین مقام مانا جاتا ہے، ابھی حال ہی میں برٹش بیک پیکر سوسائٹی نے دنیا کے بیس بہترین ممالک کی فہرست جاری کردی ہے جس میں پاکستان کا پہلا نمبر ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات سیاحت کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ شمالی علاقہ جات کا صدر مقام گلگت ہے۔ گلگت کے مشرق میں کارگل، شمال میں چین، شمالِ مغرب میں افغانستان، مغرب میں چترال اور جنوبِ مشرق میں بلتستان کا علا قہ ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1,500 میل یعنی 4,900 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
پاکستان کا پانچواں غیرآئینی صوبہ گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالا مال قدرت کا عظیم تحفہ ہے جسکا کل رقبہ72,971 کلو میٹر یعنی 28,174 مربع میل ہے۔ 2008 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی1،996,797 نفوس پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان میں 14 اضلاع اور 14 بڑے شہر ہیں۔ جن میں ہر شہر اپنی انفرادیت میں بےنظیر ہے۔ اسکے علاوہ یہاں کے جنت نظیر گاوں اپنے اندر قدرت کے انمول تحفے سمائے ہوئے ہیں جن میں ایک وادی برست ہے۔
وادی برست سطح سمندرسے تقریبا 10ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جنت نما وادی گلگت شہر سے 200کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے. یہ گلگت بلتستان کاآخری گاؤں ہے. یہاں سے مغرب کے سمت مزید 207کلو میٹر کی دوری پر ڈسٹرکٹ چترال شروع ہو جاتا ہے۔ قدرتی جھیلوں، آبشاروں اور دلکش وادیوں کے علاوہ جو چیز اس علاقے کی وجہ شہرت بنی وہ انتہائی حیران کن ہے. یہاں ایک غیر معمولی چشمہ ہے جسے "فانٹاچشمہ” سے موسوم کیا جاتا ہے. بظاہر عام پانی نظر آنے والا یہ پانی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے. دیکھنے میں عام سا پانی مگر حقیقت میں فانٹے سے کسی صورت کم نہیں. فانٹا اور اس کے ذائقے میں اگرچہ تفاوت ہے تاہم گیس اتنی ہی مقدار میں موجود ہے جتنی فانٹا میں ہوتی ہے۔ اسلئے فانٹا چشمہ کےنام سے ہی جانا جاتا ہے. سینکڑوں سال گزر جانے کے باوجود یہ قدرتی فانٹا ایک لمحے کیلۓ بھی اپنی سطح سے نیچے نہیں اترا.
قدرت کا یہ انمول تحفہ محض عجوبہ ہی نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا علاج بھی ثابت ہوا ہے. قدیم زمانے سے لوگ اس سے سیراب ہونے اور بیماریوں سے چھٹکارہ پانے کیلۓ دور دراز کا سفر کر کے یہاں آتے رہے ہیں. اس میں قدرت کے عجیب و غریب راز پنہاں ہیں۔ اس پانی کو برتن میں محفوظ کر کے دوسرے مقام پر منتقل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ زمین پر رکھتے ہی اسکی گیس ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور خاطرخواہ فوائد بھی حاصل نہیں ہو پاتے. بزرگوں نے برسہا برس کے تجربات کے بعد اسکی باحفاظت منتقلی کو یقینی بنایا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس پانی کو برتن میں ڈال کر اسے زمین پر نہ رکھا جائے تو پانی کی تاثیر برقرار رہتی ہے. یہ امر اگرچہ تکلیف دہ ضرور ہے مگر لوگ اس کے کثیر فوائد کے مقابلے میں اتنی مشقت برداشت کر لیتے ہیں اور پانی کے برتن کو زمین پر رکھے بغیر مسلسل سفر کر کے منزل مقصود تک اس کی رسائی کا اہتمام کرتے ہیں.
یہ چشمہ گلگت چترال روڈ پر وادی شندور سے پہلے سڑک سے 2 کلو میٹر کی مسافت پر پہاڑ کی جانب واقع ہے جہاں چہارسو ہریالی ہے پہاڑ کے دامن میں بہتی ندی اسکے حسن کو مزید چار چاند لگاتی ہے۔ سڑک کی خستہ حالی اور حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ عجیب و غریب قدرتی سرمایہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس پر ماضی میں کئی تجربات کرکے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پانی میں آئرن کی وافر مقدار موجود ہے اسلئے یہ پانی جسم میں آئرن کی کمی کو پورا کرنے میں موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس پر مزید تحقیق کرکے اسے دنیا کے سامنا لانا نہایت ضروری ہے تاکہ سیاح اس کی طرف متوجہ ہوں اور سیاحت کے شعبے کو فروغ مل سکے۔
اس کے علاوہ گلگت بلتستان اپنے بلند و بالا پہاڑوں کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے یہاں دنیا کے 7 بڑے پہاڑی سلسلوں میں سے 3 پہاڑوں کا سنگم ہے۔ شاہراہ قراقرم پر گلگت اور جگلوٹ کے درمیان یہ ایک حیرت انگیز مقام ہے جہاں دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش آمنے سامنے آجاتے ہیں اور یہاں سے یہ پہاڑی سلسلے شروع ہوکر دنیا کے دوسرے ممالک تک جاتے ہیں۔ یہاں وادئ غذر کی طرف سے آنے والا دریا اور اسکردو کی طرف سے آنے والا دریا آپس میں مل جاتے ہیں اوردریاؤں کا یہ سنگم انگریزی حرف Y کی شکل اختیار کرکے اطراف میں موجود 3 پہاڑی سلسلوں کی حد بندی کرتا ہے۔
دنیا کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ کوہ ہمالیہ یہاں سے شروع ہوکر نیپال تک جاتا ہے جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ واقع ہے جبکہ پاکستانی حدود میں اس کی چوٹی نانگا پربت کو دنیا کا سب سے خطرناک پہاڑ کہا جاتا ہے۔
اسی طرح کوہ قراقرم کا سلسلہ بھی یہاں سے شروع ہوکر چین تک جاتا ہے، یہ وہ پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی سب سے زیادہ نہریں بہتی ہیں، دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 اس پہاڑی سلسلے کی پاکستان کی پہلی بلند ترین چوٹی اسکردو میں واقع ہے۔
جبکہ کوہ ہندوکش یہاں سے شروع ہوکر افغانستان تک پھیلا ہوا ہے جس کی بلند ترین چوٹی "ترچ میر” چترال کے قریب واقع ہے۔ 3 پہاڑوں کا یہ سنگم ایک تاریخی مقام ہے لیکن سیاحت کے شعبے میں ہماری عدم دلچسپی کے باعث دنیا اس اہم ترین مقام سے بھی ناواقف ہے۔
اس کے علاوہ یہاں قدرت کے جابجا پھیلے انگنت کرشمے ہیں جنہیں دنیا کے سامنے لاکر ہم سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں جس سے بلاشبہ بہت بڑی سرمایہ کاری آئےگی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر منزل کی جانب لمحہ بہ لمحہ گامزن ہوگا ((ان شاءاللہ))
younus.raja@Gmail.com