کالمز

ایس پی (ر) نظرب خان کی ٹوٹتی بکھرتی یادیں

ایس پی (ر) نظرب خان صاحب تمغۂ شجاعت سے ملاقات کو بس ایک سال ہی ہوا ہے لیکن اس پہلی ملاقات سے اب تک وہ اکثر میرے آفس کی یاترا کرتے رہتے ہیں۔ آج تو انہوں نے آکر کہا ’’آپ میرے پیر ہو۔‘‘ میں نے کہا ’’ایس پی صاحب! آپ مجھے گنہگار نہ کیجئے گا۔ پیرانہ سالی میں آپ قدم رکھ چکے ہیں۔ اَسی کے پیٹے میں آپ ہیں، میں آپ کا پیر کیسے ہوسکتا ہوں۔‘‘ انہوں نے برجستہ کہا ’’میں عمر کی بات نہیں کر رہا دینی علم کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے جس دن مجھے اپنے وعظ میں رلایا دیا تھا تب سے آپ میرے پیر ہیں۔‘‘ میں نے از راہِ تفنن کہا ’’میرے وعظ کا پولیس والوں پر بھی اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ روتے ہیں تو اس کا مطلب میں وعظ نہیں جہاد کر رہا ہوں۔‘‘ ایس پی صاحب نے کہا ’’اس میں کیا شک ہے۔‘‘ خیر ایسی ہلکی پھلکی بحث ایس پی صاحب سے ہوتی رہتی ہے۔ یہ ان کی محبت ہے کہ وہ قدر دینا جانتے ہیں۔ ورنہ ایسے آفیسرز تو غرور و تکبر کا شکار ہوتے ہیں۔

ایس پی صاحب کوئی معمولی پولیس آفیسر نہیں رہے ہیں۔ اگر محکمہ پولیس کو کسی نے حقیقی معنوں میں عزت اور پہچان دی ہے تو وہ ایس پی نظرب شاہ صاحب کی شخصیت ہے۔ آپ کو بہادری، ایمانداری اور اپنے پیشے سے مخلص ہوکر کام کرنے کے عوض تمغۂ شجاعت سے نوازا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ایمانداری کی وجہ سے مجھے کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوا۔ حق بات اپنے سینئرز کو بھی سامنے سناتا جس کی وجہ سے مجھے نقصان دیا گیا۔ انیس سو چوہتر کو مجھے ڈی ایس پی کی رینک دی گئی تھی لیکن اگلے گریڈ میں آنے کے لیے مجھے تیس سال انتظار کرنا پڑا۔ مجھے افسوس اس وقت ہوا جب مجھ سے بہت جونئیر معمولی ایس ایچ او اور تھانیدار بھی ڈی آئی جی بن گئے لیکن مجھے ترقی نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ میری ایمانداری تھی۔ جوکہ محکمہ پولیس میں سرے سے موجود ہی نہیں۔‘‘

ایس پی نظرب خان نے کہا ’’میرے آٹھ بیٹے ہیں میں نے کسی کو پولیس میں بھرتی ہونے کی اجازت نہیں دی میں نہیں چاہتا کہ جو نا انصافی میرے ساتھ ہوئی ہے میرے بچے بھی اس کا شکار ہوں۔ محکمہ پولیس کے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔‘‘

زیر نظر پہلی تصویر میں وہ مجھے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جنرل ضیا الحق صاحب کا وہ لیٹر دیکھا رہے ہیں جس میں صدر پاکستان نے ان کو تمغہ شجاعت کی عطائیگی پر مبارک باد دیا ہے۔ جبکہ دوسری تصاویر میں وہ صدر پاکستان سے تمغہ شجاعت لے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں نو جولائی انیس سو چوراسی کو وہ شعیب سلطان خان صاحب اور یورپ سے آئے ہوئے کچھ مہمانوں کے ساتھ گوپس سے پھنڈر جا رہے تھے، تب وہ گوپس یاسین میں ڈی ایس پی کے فرائض انجام دے رہے تھے، ان کا کہنا ہے کہ وہ پنگل کے مقام پر پہنچے تھے کہ ایک گاڑی مسافروں کے ساتھ دریائے غذر کی طوفانی موجوں کی ںذر ہوتی ہے۔ ایس پی صاحب اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر پانچ مسافروں کو زندہ بچاتے ہیں اور دریا کی خونریز موجوں سے چھ لاشیں نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس بہادری پر حکومت پاکستان ان کو تمغہ شجاعت سے نوازتی ہے۔ ایس پی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے تمغہ شجاعت بھی اس لیے دیا گیا کہ یورپ سے آئے ہوئے مہمانوں نے یہ منظر دیکھا تھا اور انہوں نے باہر جاکر حکومت پاکستان کے نام اپنے خط میں میری بہادری کا تذکرہ کیا تھا جبکہ شعیب سلطان خان جو اس زمانے میں اے کے آر ایس پی کے جنرل منیجر تھے، نے اس وقت کے چیف کمشنر کو خط لکھ کر میری بہادری کا تذکرہ کیا تھا۔ تب کہیں جاکے مجھے تمغہ شجاعت ملتا ہے ورنہ محکمہ پولیس کے کالے بھیڑیوں کی موجودگی میں مجھے تمغہ ملنا دیوانے کا خواب تھا میری خوش قسمی تھی کہ اس موقع پر یورپ کے مہمان اور شعیب سلطان خان جیسے کھرے اور ایماندار بیوروکریٹ خود موجود تھے۔

ایس پی صاحب جب گاڑی ایکسیڈنٹ کا یہ واقعہ سنا رہے تھے، مجھے اپنے گاؤں کے ایک بزرگ یاد آئے۔ بارجنگل کے شہزادہ عندلیب شاہ اسی حادثے میں اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔

ایس پی صاحب کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے خاتمے کا اعلان بھی انہوں نے بھٹو صاحب سے کروایا تھا۔ جب وہ انیس سو ستر میں کراچی میں زیر تعلیم تھے اور بھٹو صاحب ابھی ابھی سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے تب یہ طالب علموں کی ایک وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے ستر کلفٹن میں بھٹو صاحب سے ملتے ہیں اور گلگت بلستان کے راجگی نظام اور عوام پر مالیہ جیسے لعنت سے بھٹو صاحب کو آگاہ کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب وعدہ کرتے ہیں کہ وہ برسرِ اقتدار آکر گلگت بلستان سے ایف سی آر ختم کریں گے۔ ایس پی صاحب کہتے ہیں ’’جب بھٹو صاحب انیس سو بہتر کو وزیراعظم بنے اور سینگل غذر تشریف لائے تو میں نے عوام کے جمِ غفیر کو بھٹو صاحب کے استقبال کے لیے جمع کیا تھا۔‘‘ زیر نظر تصاویر میں ایک تصویر اس کی شہادت دیتی ہے کہ وہ بفس نفیس بھٹو صاحب کو سینگل میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ایس پی صاحب کہتے ہیں ’’بھٹو صاحب جب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو میں نے ان کے کان میں کراچی میں کیا گیا وہ وعدہ انہیں یاد دلایا اور کہا جناب آج اعلان فرمائے۔‘‘ بھٹو صاحب نے جب اپنی تقریر میں فرمایا ’’آج کے بعد نواب، میر اور پیر اپنی بیگمات کے ساتھ رہیں گے۔ میں ایف سی آر کو ختم کرتا ہوں۔‘‘ تو عوام کے جمِ غفیر نے نعرے سے بھٹو صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد کچھ لوگ میرے جانی دشمن بن گئے اور مجھ پر قاتلانہ حملے تک کروایا۔

ایس پی صاحب اپنی یادوں کو کتابی شکل دینا چاہتے ہیں۔ آج وہ اس سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے تھے۔ ان کے بغل میں ان کی یادوں کا ایک مسودہ تھا جو انہوں نے میرے حوالے کیا اور حکم صادر کیا کہ میں نہ صرف اس کی نوک پلک درست کروں بلکہ کتاب کا دیباچہ بھی لکھوں۔ مرتا کیا نہ کرتا مسودہ رکھنا پڑا۔ انہوں نے مجھے اپنا پیر جو لیا ہے۔ پیر مریدی کا یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے۔ یہ آنے والا وقت بتا پائے گا لیکن یہ طے ہے کہ ایس پی صاحب کی متوقع کتاب محکمہ پولیس پر خودکش ادبی حملہ ثابت ہوگی۔ کتاب کے ہر ورق پر ناانصافی، بے ایمانی اور کرپشن کی داستان کو بڑی عمدگی سے بے نقاب کیا گیا ہے۔

یار زندہ، صحبت باقی!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button