انڈس بیسن نالج فورم۔ منعقدہ کھٹمنڈو نیپال
از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ
شیخ الجامع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی
دریائے سندھ اور اس سے ملحقہ طاس(Basin)کے وسائل اس خطے کے تمام ممالک بشمول افغانستان، چین، انڈیا اور پاکستان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہیں۔ ان وسائل سے تقریباً 22کروڑ افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اس خطے کے قریب بسنے والے انسان بھی ان وسائل سے استعفادہ کر رہے ہیں۔ تاہم انڈس بیسن اس وقت بے شمار مسائل سے دوچار ہو رہا ہے۔ ان میں خصوصی طور پر بے تحاشہ آبادی، بے پناہ معاشی ترقی کی وجہ سے ان پر بوجھ بڑ ھ رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں کے وسائل پر مزید بوجھ بڑ ھ رہا ہے اور یہاں مکینوں کے مستقبل کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
انڈس بیسن نالج فورم (سندھ طاس علمی فورم) کے قیام کا بنیادی مقصد تمام متعلقہ ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین، پالیسی ساز، ماہرین پر مبنی ایک پلیٹ فارم مہیا کر نا ہے تاکہ تمام متعلقہ ادارے ملکر یہاں کے مسائل کے لئے دیر پا حل بھی تلاش کریں۔ انڈس فورم کی چوتھی میٹنگ کھٹمنڈو نیپال میں مورخہ 24-23اگست 2019ء کو منعقد ہوئی جو غالباً اس فورم کا آخری اجلاس ہو۔ اس فورم کی چوتھی میٹنگ کا بنیادی عنوان ”تبدیلی پر مبنی تحقیق کے دریچے (Pathings to Impactful Research) جس کے اندر تین ذیلی عنوانات پر بحث ہوئی جن میں (۱) پالیسی پر مبنی تحقیق (۲) سوسائٹی اور معاشرے کے ساتھ منسلک ہونے کے رستے (۳) ریسرچ کو اکھٹا کرنا۔ بنیادی طور پر ان ممالک میں ہونے والی تحقیق کو بہت کم پالیسی سازی میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ انڈس بیسن کے حوالے سے ایک طویل اور ضخیم تحقیق ہو چکی ہے۔ لیکن اس تحقیق کے ثمرات یا نتائج ہماری پالیسی سازی میں بہت کم استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا مجموعی طور پر تحقیق اور اس پر عمل کرانے میں ایک واضح خلیج نظر آ رہی ہے۔ اس فورم میٹنگ کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ پالیسی کے حوالے سے ان تمام سوالات اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے مستقل کی تحقیق کو ان پر مرکوز کیا جائے۔ دوسراہم مسئلہ یہ ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کو متعلقہ سوسائٹی، اور سٹیک ہولڈرز اور متعلقہ اداروں تک پہنچانا۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر خواتین اور کم مراعات یافتہ افراد، معذور اور غریب افراد کو پالیسی سازی کے عمل میں شامل کرانا بھی ایک اہم مسائل میں سے ہے۔ تیسرا اہم مسئلہ موجودہ تحقیق کو مختلف عنوانات میں پیکیج کرانا ہے تاکہ محققین اور پالیسی ساز، میڈیا اور جرنلسٹ اس تحقیق سے بہتر ین طریقے سے استفادہ کر سکیں۔ درج ذیل سطور میں ان عنوانات پر کانفرنس کے شرکاء اور ماہرین کے آراء پیش کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اس کانفرنس یا میٹنگ میں 15ممالک سے تقریباً 80مندوبین نے شرکت کی اور اپنے تجربات، تحقیق اور مشاہدات سے دیگر شرکاء فورم کو آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے لائحہ عمل کی بھی نشاندہی بھی کی۔
اس میٹنگ کی افتتاحی تقریب میں نیپال میں اسٹریلیا کے سفیر محترم پیٹر بڈ صاحب مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ ICIMODکے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ مولڈن، ایاسا کے باربراولارٹ، سمین لنگن اور آرون شٹرا و دیگر شرکاء میں شامل تھے۔ افتتاحی تقریب میں ڈیوڈ مولڈن نے انڈس فورم کے اغراض و مقاصد اور اس کے اہداف و نتائج پر تفصیل پیش کی۔ انہوں نے پہاڑ میں بسنے والے لوگوں یعنی پہاڑی سوسائٹی کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا تذکرہ بھی کیا۔
اس وقت پہاڑی معاشروں کو درپیش مسائل میں گلیشیئرز اور منجمد پانی کو درپیش مسائل، موسمیاتی تبدیلیوں اور مون سون کی ترتیب اور ظہور میں تبدیلی، ان معاشروں میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمر اثرات وغیرہ کا ایک اجمالی جائزہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے اس امر کا بھی خصوصاً ذکر کیا کہ جہاں ان مسائل کے حل کیلئے تحقیق کے ذریعے ایک دیرنا اور قابل عمل حل تلاش کرنے کی ضرورت وہاں حکمت عملی تیار کرنے والے اداروں کے ساتھ ایک مربوط رابطہ کار بھی ضرورت ہے تاکہ ان تحقیق کے اثرات معاشرے اور عام شہری تک بھی پہنچ سکے۔ اس کیلئے تحقیق کے نتائج کی ترسیل کیلئے مناسب حکمت عملی بھی تلاش کی جائے گی۔
IIASAکی مندوب محترمہ بابر ولارٹ نے ماحولیاتی مسائل کے حل کیلئے اطلاقی تحقیق پر زور دیا۔ International Institute for Applied Systems Analysis(IIASA)نے پچھلی تین فورمز میں ہونے والے بڑے فیصلوں کا ذکر کیا جن میں تحقیق کے حوالے سے طلب اور رسد کے درمیان فرق کی بنیاد پر 10گروپس تشکیل دیئے گئے تھے۔ ڈاکٹر آفرین صدیقی نے اپنی تحریر کردہ کتاب کے حوالے سے گفتگو کی۔ آسٹریلیا کے سفیر برائے نیپال نے بھی پالیسی سازی کے حوالے سے تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فورم پر زور دیا کہ تحقیق کے نتائج اور ثمرات معاشرے تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ مختلف ذرائع سے ان کی بھرپور تشہیر ہوں۔
۱) تحقیق کو زیادہ موثر بنانا اور معاشرے تک اس کے ثمرات پہنچانا:
تحقیق یقینا علم کی نئی جہتوں کو دریافت کرنے اور معاشرے کو درپیش مسائل کیلئے دیرپا اور قابل عملی حل تلاش کرنے کا عمل ہے۔ اگر تحقیق کا بیشتر حصہ محض رپورٹس کی صورت الماریوں اور لائبریریوں کے شلفوں کی زینت بنے تو یقینا اس تحقیق سے معاشرے کو زیادہ استفادکرانے کے موقع نہیں مل سکیں گے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تحقیق کے عنوانات معاشرے کے مسائل سے حاصل کئے جائیں اور اس کیلئے باقاعدہ ریسرچ کی ضروریات کا احاطہ کیا جائے۔
اصولی طور پر تحقیقی اداروں کو اپنی تحقیق کا رخ متعین کرانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا معاشرے اور حکومتی اداروں سے قریب رابطہ ہوں۔ سندھ طاس کے حوالے سے تحقیق کو زیادہ موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے عمل میں ریسرچ کے نتائج کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس وقت یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ملکی، صوبائی، ضلع اور علاقائی سطح پر پالیسی سازی اور قانون سازی کے عمل میں علمی اور تحقیقی اداروں کو شامل نہیں کیا جارہا ہے چونکہ سیاسی حکومت کا بنیادی مرکز نگاہ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے لہٰذا وہ عمومی طور پر پالیسی سازی کے حوالے سے مشکل فیصلوں سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔ معاشرے سے مربوط تحقیق کی راہ میں درج ذیل رکاؤٹیں حائل ہیں۔
۱۔ تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی تحقیق کا مرکزی محور معاشرے کے مسائل نہیں بلکہ اکثر اوقات ریسرچ جریدوں میں اپنے مقالے تحریر کرانا اور طبع کرانا مقصود ہوتا ہے۔
۲۔ تحقیق کے ثمرات کو معاشرے کے مسائل کو حل کرانے اور دیر پا قابل عمل حکمت عملی وضع کرانے کیلئے ضروری ہے کہ تحقیق کے معاشرے پر اثر کو زیادہ موثر طریقے سے دیکھا جائے۔ پاکستان میں اس وقت تحقیق کو زیادہ جریدوں کے Impactفیکٹر کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے جبکہ اس سے زیادہ اہم تحقیق کا معاشرے پر اثر بھی ہے۔
۳۔ حکومت میں پالیسی ادارے تحقیق کے نتائج اور ان کے ثمرات سے مستفید ہونے کیلئے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ اس ضمن میں دونوں طرف سے اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
۴۔ تحقیق کو ایک قابل عمل حل میں منتقل کرانے کیلئے تحقیقی اداروں اور حکومتوں کے درمیان ایک قریبی رابطے کی ضرورت ہے اور حکومتی سطح پر ایک ریسرچ اینڈڈیلوپمنٹ سیل بنانے کی ضرورت ہے۔
۵۔ تحقیق کی ترویج کیلئے ضروری ہے کہ ان کے نتائج ملکی، صوبائی اور مقامی سطح پر مشتہر کی جائے تاکہ عوام تک اس کی رسائی ممکن بنا سکے۔
فورم میٹنگ کا دوسرا عنوان ریسرچ کے عمل میں معاشرے کے تمام افراد خصوصاً معذور، غریب اور خواتین کو شامل کرانا اور اس کیلئے درکار حکمت عملی، 17-SDGجو دیر پا ترقی کے اہداف میں آخری ہدف ہے۔ پارٹنر شپ اور قریبی رابطوں پر زور دے رہا ہے۔ SDGکے 17اہداف 15سالوں میں 2030تک حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے، حکومت، پرائیویٹ سیکٹر، اکیڈیمیا، تحقیقی اداروں الغرض سب کے مابین ایک مربوط اور موثر شراکت یعنی پارٹنر شپ موجودہوں۔ ان اہداف کے حصول کیلئے ضروری ہے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک موثر شراکت داری موجود ہوں۔ آج تحقیقی ادارے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے اکیلے اور معاشرے سے الگ تھلگ اپنی افادیت کو یقینی نہیں بناسکتے۔ پاکستان میں اس وقت ریسرچ پراجیکٹس میں پرائیویٹ اور کاروباری اداروں کی شراکت کو یقینی بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہو رہی ہے۔ جس کا مقصد تحقیقی اداروں اور نجی اداروں کی شراکت سے تحقیق کو ایک قابل عمل اشیاء، خدمات یا حل کی صورت میں معاشرے کو تفویض کیا جاسکے۔ اس وقت ٹیکنالوجی ڈیویلپمنٹ فنڈ، ٹرپل ہائی لکس ریسرچ پراجیکٹس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔
فورم کی اجلاس کا تیسرا عنوان ریسرچ کی پیکیجنگ تھا یعنی تحقیق کو مخصوص قابل عمل حصول اور شکلوں میں تقسیم کراکے امن کو زیادہ قابل عمل بنایا جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تحقیق کو مختلف عنوانات یا تھیمز کے ذریعے آگے لایاجائے۔ سندھ طاس کے حوالے سے قابل عمل عنوانات کو زیادہ موثر طریقوں سے آگے لانے کی ضرورت ہے۔
سندھ طاس علمی فورم کی چوتھی میٹنگ بنیادی طور پر اس حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی کہ پچھلے چار پانچ سالوں میں یہاں کے مسائل کے حوالے سے اعلیٰ معیار کی تحقیق ہوئی ہے۔ لیکن بدقسمتی اس تحقیق کے ثمرات پالیسی سازی اور قانون سازی میں بہت استعمال کئے جاچکے ہیں۔جس کی وجہ اس خطے کے مسائل روزافزوں بڑھ رہے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ ایک مربوط اشتراک عمل تیار کی جائے اور تحقیق کے نتائج میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پھیلائے جائیں تاکہ معاشرہ کلی طور پر ان سے استفادہ بھی کرے۔