سیاستکالمز

ہوا کے رُخ کے ساتھ تبدیلی

خوددار قومیں کبھی اپنی انا ، غیرت اور آزادی کا سودا محدود مدتی پروٹوکول اور ذاتی مفادات کے حصول کے عوض نہیں کرتیں۔ جب وہ اپنی منزل کا تعین کرتیں ہیں تو پھر کٹھن راستے ، مشکل گھڑیاں اور وقتی مشکلات دیکھ کر راستہ نہیں بدلتی ۔ان کی نگاہیں مصنوعی اور غیر فطری آزادی پہ نہیں ہوا کرتیں ۔ وہ تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتی ہیں اور بار بار ایک سوراخ سے نہیں ڈسا کرتیں ۔الغرض زندہ قومیں کبھی حقائق اور دلائل سے نظریں نہیں چراتیں۔ شعوری تلاش کے نتیجے میں جو کامیا بیاں انہیں ملتی ہیں وہ ان کی قدر کرتی ہیں۔

سیاسی جوڑ توڑ ایک عام اور قابل قبول عمل ہوتا ہے مگر جس انداز میں گلگت بلتستان میں وفاداریاں تبدیل کی اور کرواٸی جاتی ہیں اپنی مثال آپ ہیں۔ بخشو سب کا مگر بخشو کا کوٸ نہیں کے مصداق کی مانند ہم گلگت بلتستان کے لوگوں نے مشرف سے لیکر زرداری تک اور پھر زرداری سے میاں صاحب تک کسی بھی وفاقی حکومت کو مایوس ہونے نہیں دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وفاق ہمارے دیر پا مطالبات حل کرنے کے بجاٸے ہمیں جھوٹے وعدے اور سستےلولی پاپ دیکر بہلاتا ہے ۔

2008 تک جب وفاق میں ق لیگ کی حکومت تھی تو ایسے لگتا تھا جیسے اس پارٹی کی جڑیں گلگت بلتستان میں اتنی مظبوط ہوچکی ہیں کہ اگلا الیکشن کلین سویپ کر جاۓ گی مگر نتیجہ یکسر برعکس نکلا اور الیکشن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آٸی اور مہدی شاہ صاحب پہلے سی ایم جی بی نامزد ہوٸے اور اگلے الیکشنز میں جانے سے پہلے مہدی شاہ صاحب اپنی پارٹی کا روایتی نعرہ روٹی، کپڑہ اور مکان کیساتھ ساتھ گورننس آرڈر 2009 کا نعرہ بھی لگاتے رہے۔ مگر لوگوں نے سنی ان سنی کردی اور نتیجہ ایک بار پھر 180 ڈگری کے تناسب سے الٹا نکلا اور مسلم لیگ نون جسکا دور دور تک کوٸی امکان نظر نہیں آرہا تھا حکومت بنانے میں کامیاب ہوٸی۔ یوں اب کی بار کمان حافظ حفیظ الرحمان نے سنبھالا ۔ عین ممکن ہے کہ حفیظ صاحب الیکشن میں جانے سے پہلے ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز تر کرینگے اور یقینا عوام سے اس کے بدلے ووٹ کا تقاضہ بھی کرینگے مگر سوال یہ ہے کہ مرکز میں پی ٹی ٹی آٸی کی حکومت ہونے کی بدولت روایتی ووٹرز اور غیر روایتی حلقے کیا چاہتے ہونگے ۔ اور ایسا تو تقریبا ناممکن ہی لگتا ہے کہ آنے والے الیکشنز تاریخ کے برعکس نتاٸج مرتب کر جاٸیں ۔

بلاشبہ عوامی مسائل کا حقیقی حل سیاسی وجمہوری نظام اور اسکی ڈیلیورنس میں ہے۔ اس نظام کی فعالیت اور مضبوطی بھی عوام کے اعتماد کی مرہون منت ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی رسائی نےعوام میں شعور وآگاہی میں اضافہ اور موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم امر توجہ طلب یہ ہے کہ ہم گلگت بلتستان کے باسی کب تک وفاق میں آنے والی ہر نٸی حکومت کے گن گاتے رہیں گے۔ حالانکہ پچھلے 70 سالوں سے ہمیں ہمارے جاٸز حقوق سے محروم رکھا جارہا باوجود اسکے کہ ہم نے ہر دور کے ڈیکٹیٹر سے لیکر ہر سیاسی حکومتوں کے آگے سر نگوں کیا اور بدلے میں ہمیں مایوسی ملی ۔

کہا جاتا ہے کہ اصول پسندی، معاملہ فہمی اور حب الوطنی قوموں کی قسمت بدل دیتے ہیں تاہم ہمارے ہاں ذاتی و خاندانی مقدر سنوارنے کی پریشانی سب سے بڑی ہے لہٰذا بحیثیت قوم ہم سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اس قومی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ یہی لوگ سیاسی جماعت سے وابستگی کےوقت مخصوص نظریئے، سوچ اور منشور پر یقین کا اظہار اورعمل کے لئے عہدوپیمان کرتے ہیں پھر ذاتی مفادات قومی مفاد پر غالب آتے ہیں، سوچ ترجیحات اور نظریات میں تبدیلی آتی ہے اور پھر پارٹی بدل جاتی ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد آئندہ کے اقتدار کی فکر انہیں اپنے ’’عظیم مقصد‘‘ سے غافل نہیں ہونے دیتی۔ انہیں لگتا ہے کہ عوام میں ان کی واہ واہ ہورہی ہے مگر واہ واہ کے پیچھے چھپی تھو تھو کو وہ محسوس نہیں کر پاتے ۔

آنے والے انتخابات سے قبل سیاسی موسم بدل رہا ہے،کم وبیش ہر حلقے میں ایک نیا سیاسی پنڈت متعارف کرانے کی کوششیں تیز کی جارہی ہیں۔ ایسے میں ماضی کی طرح دن رات ایک کر کے عوامی خدمت کرنے والے امیدوار محض اسلیے کمزور پڑجاٸنگے کہ وفاق میں ان کی پارٹی کی حکومت نہیں رہی اور نئے گھونسلوں کی تلاش میں پرندے اڑان بھر چکے ہیں۔ اب ان کا نیا ٹھکانہ کہاں ہے اس کا پتہ ان بیچاروں کو بھی آخر وقت تک نہیں ہونا۔ اور یہ بے چارے تو بس ہوا کی رخ کو ہی محسوس کرنے کی سکت رکھتے ہیں مگر چند دنوں کی چاندنی کے بعد وہ ہواٸیں جس سونامی کا باعث بننے جاتے ہیں انہیں اس کا ادراک نہیں ہوتا۔

سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنے والا ہر کارکن اخبارات اور سوشل میڈیا پر خود کو رہنما کہلانے کا متلاشی نظر آتا ہے ۔ اچھی بات ہے کہ ہمارے نوجوان سیاسی پارٹیز میں شمولیت اختیار کریں اور سیاسی میدان ہی ہے جو اس دھرتی میں پاٸی جانے والی محرومیوں کا ازالہ کرے گا مگر انہیں کون سمجھاۓ کہ بات اگر قومی کاز کے حصول کی ہو تو ذاتی کاز کی قربانی دینی ہوتی ہے ، مقصد اگر دیر پا مقاصد کا حصول ہو تو پھر نظریاتی بننا پڑتا ہے اور ہوا کے رخ کو دیکھ کر وفاداریاں تبدیل کرنے کے بجاٸے خود میں ہواٶں کے رخ کو موڑنے کی صلاحیت پیدا کرنی پڑنی پڑتی ہے کیوں کہ ہوا کے رخ کو دیکھ کر تبدیل ہونے والوں کے نصیب میں کبھی تبدیلی نہیں آتی ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button