چترال اپنی زرخیز ثقافت اور تکثیریت کی بدولت پرامن ہے، باہمی ہم آہنگی بڑھانے کے لئے روابط ضروری ہے، سیمینار سے مقررین کا خطاب
چترال(گل حماد فاروقی) ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے زیر اہتمام تکثریت کا موقف اور شمالی پاکستان کے محتلف قبیلوں میں ثقافتی و لسانی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مو ضوع پر ایک روزہ سیمنیار کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا بنیادی مقصد چترال میں رہنے والے محتلف زبانوں کے بولنے والے، مسلک کے حامل اور محتلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا اور ان میں باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اس باہمی ہم آہنگی کی وجہ سے امن و امان، محبت اور آشتی کو فروغ ملتا ہے اور چترال کی مثالی امن کا راز اس کی ذرحیز ثقافت میں ہے۔
سیمنار میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے : تنوع کا چترال کے سماجی اور معاشی ترقی میں کردار کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ کہ محتلف زبانوں کے حامل لوگ کسی بھی علاقے کے خوبصورتی کا باعث بنتا ہے اور آپس میں ہم آہنگی اور مل جل کر رہنے سہنے سے علاقے کا امن و امان برقرار رہتا ہے۔
پروفیسر ممتا ز حسین پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج چترال نے چترال کے باہمی امن میں تاریحی اور ثقافتی کی عام بنیادوں کی موضوع پر مقالہ پیش کیا۔
سید گل کیلاش انچارج چترال عجائب گھر نے کیلاش ثقافت کو درپیش حطرات اور تصادم کے موضوع پر اظہار حیال کی۔انہوں نے کہا کہ وہ زیادہ تر مسلمانوں کے گھرو ں میں اور بالحصوص پٹھانوں کے گھروں میں رہ چکی ہے مگر ان کو بیٹی اور بہن جیسا پیار اور عزت ملی۔ تاہم ابھی جو سیاح وادی کیلاش کا رح کرتے ہیں وہ ہماری ثقافتی اقدار کا حیال نہیں رکھتے اور بعض اوقات کیلاش لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں۔
وادی عشریت سے تعلق رکھنے والے قاضی اسرار نے کہا کہ انہوں نے اپنے علاقے میں پلولہ زبان کو ترویج و ترقی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے ایک ایسا سکول کھولا ہے جو پچھلے چھ سالوں سے مقامی بچوں کو پلولہ زبان میں سبق پڑھایا جاتا ہے۔ اس سکول میں 70 طلباء زیر تعلیم ہیں۔
واخان ثقافت کے حامل وادی بروغل سے تعلق رکھنے والے عزیز محمد نے کہا کہ واخی ثقافت کے لوگ زیادہ تر مال مویشی پالتے ہیں مگر انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنی زبا ن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
پروفیسر شمس النظر فاطمی نے کہا کہ تعلیم سے بھی زیادہ تہذیب کا حصول ہے اور یہی تہذیت انسان کو انسانیت کے معراج پر پہنچاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قبیلے کو مضبوط ہونا چاہئے اور اپنی ثقافت اور اقدار کو زندہ رکھ کر ہی اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں کیونکہ اپنی زبان اور ثقافت کھونے سے ان کی اہمیت حتم ہوتی ہے۔
وادی مڈگلشٹ سے تعلق رکھنے والے شیر عظیم بختاور نے کہا کہ مڈگلشٹ کے لوگ دو سو سال پہلے وسطی ایشیاء سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوچکے ہیں جو فارسی بولتے ہیں اور ان کی فارسی تاجکستان اور بدخشان سے ملتی جلتی ہے مگر اسے قدرے محتصر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زبان میں ایک مقامی ادیب سید نواز تنہاء نے چار کتابیں بھی لکھی ہیں جو حالصتاً مقامی زبان میں ہے۔
زبیر ترناوی جو ادارہ برائے تعلیم و ترقی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہے نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اس سیمنار کا بنیادی مقصد محتلف زبانوں کے بولنے والے، محتلف مسلک کے حامل اور پیروکار اور محتلف قبیلوں کے لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کے درمیان باہمی آہنگی کو فروغ دینا ہے کیونکہ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے روابط اچھے نہیں ہوں گے تو امن قائم نہیں ہوسکتا اور امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔
سید گل کیلاش نے کہا کہ ہم سب کو مل جل کر پیار محبت سے زندگی گزارنا چاہئے اور ایک دوسرے کے اقدار اور ثقافت کا حیال رکھنا چاہئے۔
فرید احمد جو زبانوں کی ترویج پر کام کررہا ہے کا کہنا ہے کہ چترال میں چودہ زبانیں بولی جاتی ہے مگر ان زبانوں کی تحفظ اور اس کی ترویج و ترقی میں کسی سرکاری ادارے نے ابھی تک ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا ہے اور نہ کوئی حاطر حواہ قدم اٹھایا ہے۔
سیمنار میں ہر زبان اور مسلک کے حامل محتلف قبائل کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی جسے مقامی لوگوں نے بہت سراہا اور اس قسم کے سیمنار کو بار بار منعقد کرانے پر زور دیا۔