کالمز

پاک چائنا اقتصادی راہداری، اور سوست کے مسائل

تحریر: منیر پامیری 

آج کل پاک چائنا اکنامک کوریڈور زبان زد عام ہے پارلیمنٹ، ٹی وی چینلز،اخبارات،نجی محفلیں ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث ہوتی ہےاور ہر کوئی اپنی استعداد کے مطابق اس پر بات کرتا ہوا نظر آتا ہے، اربوں ڈالرز کا یہ پراجیکٹ پاکستان میں معاشی انقلاب لا سکتا ہے اور لوگوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ نیز اس پراجیکٹ کا سب سے اہم جز "قراقرم ہائی وے” اور گلگت بلتستان کے حسین مناظر اس کی اہمیت اور خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں یہی وہ اوصاف ہیں جو اس روٹ پر پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کرنے والے تاجروں کے علاوہ لاکھوں سیاحوں کو اس علاقے کا دورہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن یہ لاکھوں لوگ جو گلگت بلتستان کے حسن قراقرم ہائی وے کی دلکشی اور پاک چین سرحد پر اربوں روپے کی تجارت کی داستانیں سن کر اس علاقے کا دورہ کرتے ہیں، جب اس منصوبے کے سب سے اہم حصہ "سوست ” پہنچتے ہیں جو چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہاں سوست ڈرائی پورٹ پر دونوں ممالک کے درمیان روزانہ کروڑوں ڈالز کی ٹریڈنگ ہوتی ہے، اس خطہ کی حالت زار کو دیکھ کر ان کا تمام جوش ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے، یوں لگتا ہے کہ ہم دشت کربلا میں آئے ہوئے ہیں جہاں دریائے فرات تو بہہ رہی ہیں مگر انسان پانی کو ترس رہا ہے۔ اربوں روپے کی تجارت کا یہ مرکز تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے ان لاکھوں سیاحوں اور تاجروں کی سہولت کے لئے یہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ پبلک ٹوائلٹ ہے اور نہ ہی صفائی کا کوئی نظام ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ انتہائی اہم قصبہ گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کرتی ہے،کئی عشروں سے یہاں سے اربوں روپے سالانہ کا زرمبادلہ کمانے کے باوجود آج تک حکومت پاکستان کو یہاں پانی کا ایک نل لگانے کی توفیق نصیب نہ ہو سکی جہاں سے یہاں کے مقامی لوگ ،تاجر اور سیاح صدق دل سے پانی پی سکیں۔ ہوٹل مالکان اور یہاں پر رہنے والے تاجر، دکاندار اور مزدور میلوں دور سے ڈرموں میں پانی لانے پر مجبور ہیں۔ خصوصا” چین سے آنے والے سیاح اور تاجروں کے لئے یہ صورت حال نہایت ہی حیران کن ہوتا ہے کیوںکہ ان کے لئے یہ علاقہ پاکستان کا چہرہ ہے اور ان کا پہلا تجربہ نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کونے والے تاجر اور یہاں سے چین جانے والے سیاح ان صورت حال سے سینبھلے بھی نہیں ہوتے ہیں کہ انہیں دوسرا جھٹکا سوست کسٹم کے حکام کے روئیے اور کام کے طریقے سے لگتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی یہاں کسٹم کلئیرنس کا وہی پرانا فرسودہ نظام رائج ہے، جبکہ سکیننگ اور چیکننگ کے جدید مشینری کسٹم کے احاطے میں پڑی زنگ آلود ہو رہی ہیں لیکن حکام نے انہیں استعمال نہ کرنے کی قسم اتھا رکھی ہیں۔ کیوںکہ ایک تو یہاں پر ایسے لوگ کام کرتے ہیں جو رشوت اور سفارش کے زریعے یہاں پہنچے ہیں جن کی نہ تو تعلیمی استعداد ہے نہ ہی ان کا موں کا کوئی تجربہ ہے یہاں تک کہ بارڈر پاس یا پاسپورٹ کی انٹری کرتے ہوئے کمپیوٹر کے کی بورڈ پر مطعلقہ کی ڈھونڈنے میں کئی منٹ ضائع کر دیتے ہیں۔ اور دوسری جدید مشینری کے استعمال سے ممنوعہ سامان اور ڈرگ وغیرہ پیسے لیکر کلئر کرنے میں ان کو مشکلات ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہمارے نوجوان جنہیں ڈرگ مافیا ان کرپٹ کسٹم حکام کے ساتھ مل کر استعمال کرتی ہیں چائنا میں پکڑے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے بلکہ پاکستان کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ارباب اختیار سے اپیل کی جاتی ہے کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے اس اہم حصے کی ڈویلپمنٹ پر بھی تھوڑی توجہ مرکوز کرے، سوست اس پراجیکٹ کا چہرہ ہے یہ پاکستان کا چہرہ ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button