کالمز

گلگت بلتستان: نوآبادیات کا گمنام گوشہ۔  قسط 3

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں یہاں کے باسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 28 ہزار مربع میل پر مشتمل اپنے اس خوبصورت علاقے کو ڈوگرہ حکومت کی تسلط سے آزاد کرا لیا ۔

 جنگ آزادی کے نتیجے میں گلگت بلتستان پر 1842 سے مسلط ڈوگرہ حکومت کے تسلط سے  چھٹکارا حاصل ہوا ۔

 تاج برطانیہ کی حکومت کا بھی اس علاقے سے ہمیشہ کیلئے خاتمے تو ہوا  مگر یہاں کے باسی تاج برطانیہ کے بنائے گئے نوآبادیاتی قوانین کی بنیاد پر قائم ایک بوسیدہ نظام کے چنگل سے تاحال آزاد نہیں ہوسکے ۔

 یہ ایک اہم تاریخی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اور  اس وقت کی گلگت سیکوٹس کے مقامی افسران اور جوانوں نے ملکر  مہاراجہ ہری سنگھ کے تعینات کیے ہوئے گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے یکم نومبر کو آزادی کا اعلان تو کیا مگر یکم نومبر  1947 سے 16 نومبر  1947 کے درمیانی عرصے میں کوئی قومی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے نہ ہی اس دوران  اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک نے آزادی گلگت بلتستان کو تسلیم کیا۔

   مقامی قیادت  دنیا میں رائج بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کے تحت ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی جس کی وجہ سے گزشتہ ستر سالوں کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت نہ تو ایک علیحدہ ملک کی ہے  نہ ہی یہ علاقہ پاکستان کے آئین میں شامل ہے۔

  نہ ہی یہ علاقہ پاکستان کا صوبہ بنایا گیا  جس کی وجہ سے یہاں کے بیس لاکھ سے زائد عوام نوآبادیاتی قوانین کا شکار ہیں اور بنیادی جمہوری حقوق کی تلاش میں سرگرداں اور گزشتہ ستر سالوں سے ایک بہتر نظام اور آئینی شناخت کے منتظر ہیں۔

اس خطے کی تاریخ پر بھی بہت کم ریسرچ دستیاب ہے خصوصاً اس علاقے پر رائج کئے گئے نوآبادیاتی نظام اور قوانین کے متعلق غیر جانبدار تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔

جبکہ گلگت بلتستان کے تاریخ کا سب سے اہم واقع جنگ آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر 1947 کے بعد گلگت میں تشکیل پانے والی انقلابی حکومت کے متعلق بھی مؤرخوں کے درمیان اختلاف رائے پائی جاتی ہے ، جسے کہ انگریز میجر ولیم الیگزینڈر بروان نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو "بغاوت گلگت "کا نام دیا اس طرح  کے مختلف لکھاریوں نے مختلف نقط نظر پیش کئے ہیں جن پر قومی سطح پر اتفاق رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج تک جتنے بھی لکھاریوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ بین الاقوامی قوانین سے نہ صرف نابلد تھے بلکہ انہوں نے سرے سے اس پہلو پر سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے اور تاریخ کو ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر لکھا یا لکھوائی گئی ہے۔

  اس لئے گلگت بلتستان کی تاریخ کو غیر جانبدار تحقیق کی روشنی میں دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان تاریخی حقائق عوامل اور  وجوہات کو ڈھونڈ کر عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے جن کی وجہ سے یہ علاقے تاحال اپنا جایز مقام حاصل نہیں کر سکے۔

  ایک قومی شناخت سے  محروم  یہ علاقے اپنی صدیوں پرانی تاریخ سے کاٹ دیئے گئے ہیں اور اب یہاں کے عوام کو صرف اتنا معلوم ہے  تاریخی اعتبار سے ان علاقوں کو متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے لیکن کیوں ؟ اس کا جواب بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔

  جیؤ سٹریٹیجک اور جیو پولیٹیکل نقط نگاہ سے انتہائی اہمیت کے حامل اس علاقے میں تیزی کے ساتھ  وقوع پذیر ہونے والے  سیاسی عمل کو بین الاقوامی قوانین اور عالمی سیاست  کی روشنی میں سمجھانا نہ صرف وقت کی ضرورت بلکہ کوہ ہمالیہ،کوہ قراقرم اور ہندوکش کے دامن میں صدیوں سے آباد لاکھوں باشندوں کی قومی بقا کی ضمانت بھی ہے۔

 گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور ماضی کے سپر پاورز تاج برطانیہ اور زار روس کے درمیان کھیلے گئے گریٹ گیم کا مرکز گلگت ایجنسی رہی تھی ، جبکہ اس علاقے کی جیؤ سٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے تاج برطانیہ نے گلگت بلتستان کو اپنی کالونی بنائی تھی جو کہ آج تک نوآبادیات کا ایک گمنام گوشے کا منظر پیش کرتی ہے۔

موجودہ عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ کی شروعات کے ساتھ ایک نیو گریٹ گیم کی ابتدا ہو چکی ہے اس وقت عالمی طاقتوں کی نظر گلگت بلتستان پر ہے چونکہ ون روٹ ون بلٹ کے تحت چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے جس پر امریکہ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار برملا کیا ہے۔

 گلگت بلتستان کی اہم جغرافیائی اہمیّت  کی وجہ سے تاریخی اعتبار سے گلگت بلتستان پر  دعویٰ داروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ہے مثلاً پاکستان اور  چین کے درمیان گلگت بلتستان کے بعض علاقوں پر سال  1963 میں Sino-Pakistan  بارڈر معاہدہ طے ہونے کے بعد سے چین بھی مسئلہ کشمیر میں ایک فریق بن کر ابھرا ہے، اور اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجلاس کے بعد چین کا رد عمل کھل کر سامنے آیا ہے۔

دوسری طرف پانچ اگست 2019 کو مودی سرکار نے انڈیا کے زیر تسلط ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کرکے جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد لداخ کے علاقے کو براہ راست اپنے یونین کے علاقے میں شامل کیا ہے اس کے بعد انڈیا کے عسکری اور سیاسی نمائندوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب ان کا اگلا حدف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہے ۔

انڈیا کی دیرینہ خواہش ہے کہ یہ علاقے بھی اس کے قبضے میں آئیں چونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے دستاویز الحاق نامے کے تحت ان علاقوں کا بھی الحاق انڈیا کے ساتھ کیا تھا لہذا ان علاقوں پر انڈیا کا حق ہے، جس کے حصول کے لیے وہ سفارتی سطح پر سرگرم عمل ہے، اور آنے والے وقتوں میں عسکری محاذ بھی کھول سکتے ہیں،

گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے آزاد کشمیر میں تقریر کیا کہ اگر انڈیا آزاد کشمیر پر حملے کریں گا تو اس کو سخت جواب دیا جائے گا۔”

پانچ اگست کو انڈیا نے ارٹیکل 370 کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنے دعویٰ میں شدت اختیار کرگیا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر مصالحت یا ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کردیا ہے۔ اس لئے بدلتے عالمی سیاسی منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ سے اس خطے کے عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ 1842 کی طرح یہ خطہ ایک بار پھر تاریخ کے جبر کا شکار نہ ہو جائے بلکہ یہاں کے بیس لاکھ عوام اپنی قومی منرل کا درست سمت تعین کرسکیں چونکہ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالات اور تاریخ کا دھارا الٹی سمت اختیار نہیں کرتا یہ دھارا ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔

 ماضی میں تاریخ ،  دنیا کی سیاست اور قانون سے  نابلد ہونے کے ساتھ ساتھ قیادت کی فقدان کے باعث اس  خطے کے باسیوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو جیتنے کے باوجود بھی نہ تو ایک علیحدہ ملک بن سکے نہ ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کرسکے سچ پوچھو تو گلگت بلتستان میں قیادت کے فقدان سے فایدہ اٹھا کر اس علاقے کو نہ صرف  متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ بلکہ عالمی سطح پر متنازعہ علاقے ڈیکلیئر کروایا گیا  جس کا خمیازہ اس علاقے کے باسی آج تک بھگت رہے ہیں۔

 جیسا کہ انڈیا ایڈمنسٹر کشمیر اور پاکستان ایڈمنسٹر کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر  اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ مورخہ 8 جولائی 2019 کے پیراگراف نمبر 144 میں گلگت بلتستان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ سال 2009 تک ناردرن ایریاز کے نام سے مشہور یہ علاقہ گلگت بلتستان سابقہ شاہی ریاست جموں وکشمیر کا دوسرا حصہ ہے جو  پاکستان والی لائین آف کنٹرول پر واقع ہے ، سال 1949 میں حکومت پاکستان ، آزاد کشمیر کے نمائندوں اور آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد یہ علاقے پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں دیے گئے ، بہرحال نہ تو شمالی علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا گیا نہ ہی اس کو آزاد کشمیر طرز کی داخلہ خودمختاری( اٹانومی ) دی گئی۔

 بین الاقوامی قوانین سے نابلد ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سے بہتر سال قبل الحاق پاکستان کے لئے ایک چھٹی اور ٹیلی گرام ارسال کرکے  ستر سال تک ہم نے خود کو دھوکے میں رکھا کہ ہمارے اس وقت کے چند ایک نمائندوں  نے الحاق کیا ہے حالانکہ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور بنیادی حقوق کی بابت  سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر مختلف درخواستوں  کی سماعت کرتے ہوئے  سترہ جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلہ سنایا اور اس الحاق کی بابت ایک دستاویز بھی سپریم کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا الٹا سپریم کورٹ آف پاکستان نے سول ایویشن( Aviation) اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ آف گلگت بلتستان وغیرہ نامی اس کیس کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 13 میں UNCIP کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ” پاکستان کی ذمہداریاں دو خطوں سے تعلق کی بنیاد پر ہے جو کہ آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان ہیں.

 سال 1948 میں  UNCIP  اقوام متحدہ کی کمیشن برائے انڈیا و پاکستان نے ان علاقوں  کے لئے لوکل اتھارٹی کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے جو کہ حکومت پاکستان سے بلکل مختلف ہے۔”

ہم یہاں آف کورس صرف گلگت بلتستان کے متعلق concerned ہیں۔اس خطے کو پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے بہرحال یہ علاقہ ہمیشہ سے مکمل طور پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں رہاہے۔”

  سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کے بعد بھی بعض افراد آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے بہت سے

تاریخی مغالطوں کا شکار ہیں جن کا ماننا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے، اس تاریخی مغالطے پر طنز کرتے ہوئے کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے پہلی مرتبہ ایک المیے کی صورت میں اور دوسری مرتبہ ایک سوانگ کی شکل میں۔

  اس تاریخی حقیقت کے باوجود بھی بعض نام نہاد عوامی رہنما خیالی لوگوں کی طرح اس علاقے کا مستقبل کا عکس اپنی آرزوؤں کے آئینے میں دیکھتے ہیں حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ” مستقبل افراد کی خواہشوں سے نہیں بلکہ حال کے تقاضوں کے بطن سے پیدا ہوتا  ہے۔”

 اس خطے کے معروضی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ستر سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہاں کے عوام تاج برطانیہ کی نوآبادیاتی قوانین کی بنیاد پر تعمیر کیے گئے ایک کالونیل طرز کے نظام کے چنگل سے تاحال آزاد نہیں ہوسکے ، بلکہ بقول سپریم کورٹ آف پاکستان اس خطے میں نافذ کیا جانے والا پہلا قانون FCR کا قانون تھا جو کہ تاج برطانیہ کا نوآبادیاتی قانون کا تسلسل تھا .”

فرنٹیر کرایمز کرایمز ریگولیشن جو عام طور پر کالا قانون کے نام سے مشہور ہے یہ نوآبادیاتی قانون  1947سے سال 1974 تک گلگت بلتستان میں نافذ رہا۔

گلگت بلتستان کے متعلق لکھی گئی سرکاری و غیر سرکاری تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 1972 کے بعد گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز ہوا۔اور سال 1972 میں ناردرن ایریاز کمیٹی قائم کی گئی جسے کہ گلگت بلتستان میں آئینی اور انتظامی اصلاحات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کی شائع کردہ رپورٹ مارچ 2017 کے باب  نمبر 2 پیراگراف نمبر 26 میں

اس بابت لکھا گیا ہے کہ اپریل 1971 میں ناردرن ایریاز کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور گلگت بلتستان میں مندرجہ ذیل آپشنز اف ریفرمز پر غور کیا گیا۔

ا۔گلگت بلتستان کو ایک آزاد سیاسی entity بنایا جائے۔

2 .گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے۔

  1. مکمل طور پر پاکستان میں شامل کرکے Dejure حصہ بنایا جائے۔

4.سٹیٹس کو کو برقرار رکھا جائے۔

  1. ناردرن ایریاز کے لئے علحیدہ قانون ساز ادارے بنائے جائیں۔

6.پاکستان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔

ان آپشنز پر غور کرنے کے بعد کمیٹی نے فروری 1972 میں رپورٹ جمع کروائی اور ان آپشنز کی بنیاد پر مندرجہ ذیل سفارشات پیش کئے۔

کمیٹی کی سفارشات میں اوپشن ایک کو رد کیا گیا۔

اوپشن نمبر تین کو سراہنے کے باوجود یہ مانا گیا کہ ناردرن ایریاز ( موجودہ گلگت بلتستان) کو پاکستان کے ساتھ مکمل طور پر ملانے کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل آسکتا ہے۔اور سیز فائر لائین کے آر پار کے کشمیری نمائندے شورمچا سکتے ہیں۔

اس سے قبل بھی ناردرن ایریاز کو پاکستان کے ساتھ  شامل کرنے کی بابت 1966 میں غور وفکر کرنے کے بعد آغا شاہی نے اپنے ابتدائی تحفظات میں یہ واضح کیا کہ ناردرن ایریاز کو پاکستان کے ساتھ ملایا جائے تو انڈیا اس مسئلے کو expolite کر سکتا ہے اور یہ اقدام اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا وپاکستان UNCIP  کی قراردادوں سے بھی متصادم ہے اور یہ اقدام سٹیٹس کو میں تبدیلی کے مترادف ہوگا۔۔۔ جاری ہے۔

بقیہ حصہ اگلےقسط میں۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button