گفتنی
سید حسین شاہ کاظمی صاحب کی اسماعیلی تاریخ پر لکھی گئی کتاب پر کل بات ہوئی تھی۔ آج ان کی دوسری کتاب جو ”پرنس کریم آغا خان -میرے امامؑ“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے، پر بات کریں گے۔ میں نے اس کتاب پر اپنے تأثرات لکھے تھے۔ مناسب سمجھا کہ وہی تحریر آپ کے ساتھ شیئر کروں۔
کل کی بات ہے کہ سیّد حسین شاہ کاظمیؔ صاحب نے فون کرکے اطلاع دی کہ ”سر! اپنا ای میل چیک کریں میں نے اپنی نئی کتاب کا مسوّدہ بھیجا ہے۔“ یہ خبر میرے لیے اہم تھی کہ اس دورِ ناہنجار میں بھی کچھ لوگ کتاب اور ادب کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم ان حالات کے عینی شاہد ہیں کہ کبھی کتاب پڑھنا مشغلہ یا صرف شوق نہیں بلکہ زندگی کی ضرورت سمجھا جاتا تھا پھر کیا ہوا کہ ہم نے ترقی کی۔ کتاب خانے یکے بعد دیگرے کباب خانوں میں تبدیل ہوئے۔ کتاب سے کباب تک کا سفر بڑا دلچسپ ہے جس پر پھر کبھی خامہ فرسائی کریں گے۔ سردست کاظمیؔ صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی نئی کتاب کے مسوّدے کو دیکھنا ہے۔ انہوں نے حکم دیا ”سر! صرف کتاب دیکھنا نہیں بلکہ اس کی نوک پلک سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس پر اپنا تبصرہ بھی قلمبند کرنا ہے۔“ کاظمیؔ صاحب کی اس سے پہلے ایک ضخیم کتاب جو اسماعیلی امامت کی تاریخ پر مبنی ہے جس کی نہ صرف میں نے نوک پلک سنواری تھی بلکہ اس پر پیش لفظ بھی لکھا تھا۔ اس لیے میں نے ان سے گذارش کی کہ اس دفعہ کسی اور صاحب علم سے تأثرات لیے جائیں۔ انہوں نے فرمایا ”اس کے لیے بھی مجھے آپ کی خدمت کی ضرورت ہے آپ گلگت بلتستان کے مختلف مکاتب فکر کے اسکالرز سے تأثرات لے لیں۔“ میرے ذہن میں اس حوالے سے کچھ نام اُبھرے ہیں، میں اس حوالے سے اپنی اور شاہ صاحب کی گذارشات ان کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے وہ ہماری گذارشات کو شرفِ قبولیت بخشیں گے۔
تو بات ہو رہی تھی کاظمیؔ صاحب کی نئی کتاب کی۔ کتاب کے ٹائٹل ”پرنس کریم آغا خان – میرے امام علیہ السَّلام“ میں ہی اتنی کشش تھی کہ اس کو پڑھے بغیر رہنا میرے جیسے حساس انسان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ کاظمیؔ صاحب نے اپنی اس خوبصورت کتاب میں اسماعیلی مسلمانوں کے اونچاسویں امام نور مولانا شاہ کریم الحسینی علیہ السَّلام (جو باقی دُنیا کے لیے ہزہائی نس آغا خان ہیں) کے کردار، خدمات اور ان کی سحر انگیز شخصیت پر قلم اُٹھایا ہے۔ بنیادی طور پر یہ تاریخ کی کتاب ہے۔
میں نے ان کی پہلی کتاب پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہم تاریخی واقعات کی صداقت کیسے جانچ سکتے ہیں؟ اس سوال کو سمجھنے کے لیے میرے خیال میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم اپنے اندر تنقیدی اور تقابلی نقطہئ نظر پیدا کریں۔ جن حضرات سے ہمیں عقیدت ہے۔ لازمی نہیں کہ ان کی محبت میں تاریخ کو مسخ کر دیں۔ اسی طرح جن حضرات سے ہماری مخالفت ہے۔ ان کی ہر بات کو غلط قرار دیا جائے۔ مثال کے طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے خلفاء نے اپنے اپنے دور میں سابق حاکموں کو معزول کرکے نئے حاکم تعینات کئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ایک حاکم کو معزول کرکے دوبارہ تعینات کر دیا گیا ہو۔ تاریخ کا کام اس قسم کے اقدامات پر بحث کرنے کی بجائے ان سیاسی و سماجی عوامل کو پیش کرنا ہے جو ان فیصلوں پر منتج ہوئے۔ دوسرے کچھ باتوں کا تاریخ کی بجائے صرف ایمان سے تعلق ہے۔ لہٰذا تاریخ کے ذریعے ایمان کو مسخ کرنا درست نہیں۔ مثلاً شق صدر کے واقعے کا تعلق ایمان سے ہے جس میں دو فرشتوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چیر کر دِل میں سے دو داغ دُور کئے تھے۔ یہ واقعہ تاریخ کے نہیں بلکہ ایمان کے زمرے میں آتا ہے اور یہ قابلِ بحث و تنازع نہیں۔ آج کل کے مؤرّخ اس واقعے کی جو تاریخ بیان کرتے ہیں وہ صرف عقیدے کی بنیاد پر ہے۔
دوسری بات یہ کہ صداقت کوئی طے شدہ یا قطعی چیز نہیں بلکہ نسبتی یا اضافتی ہے۔ خداوند تعالیٰ صداقت کا سرچشمہ ہے لیکن اس صداقت کو محسوس کرنے کے ہزاروں طریقے اور متعدد مذاہب موجود ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے واقعات کو بھی قطعی کی بجائے نسبتی حوالوں سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ تاریخ صرف غلط یا درست کی بجائے دونوں ہو سکتی ہے۔ ایک فریق اگر کسی واقعہ میں اپنی پسندیدہ شخصیت کو درست قرار دیتا ہے تو ظاہر ہے اس کی نظر میں مخالف شخصیت غلط ہوتی ہے، کوئی اور فریق اس کے اُلٹ فیصلہ کرے گا۔ مثلاً واقعہ جمل کو ہی لیں جو تاریخ اسلام میں بہت متنازعہ روایات کا حامل ہے۔ ایک طرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہؓ ہیں تو دوسری طرف آپؐ کے چچا زاد بھائی، داماد اور وصی حضرت علی علیہ السَّلام ہیں جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”علی علیہ السَّلام مجھ سے ہے اور میں علی علیہ السَّلام سے ہوں۔“ واقعہ جمل میں ہماری درست دِلچسپی ان عوامل کا مطالعہ ہونی چاہئے جو اس جنگ پر منتج ہوئے۔
تاریخ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی تعمیر کی جائے۔ اور سب سے اہم بات تاریخ کے مطالعے سے ہی ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
مصنّف نے ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی خدمات کو جس اچھے انداز اور خصوصاً حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا ہے وہ بجائے خود ایک علمی کارنامہ ہے کہ آج کا دور صرف ہوا میں باتیں کرنے کا نہیں بلکہ تحقیق کی بنیاد پر اپنا مافی الضمیر قارئین کے سامنے رکھنے کا ہے۔ پھر ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کے خطابات جہاں کتاب کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہیں وہاں قارئین ان بصیرت افروز تقاریر سے فیض حاصل کرکے جدید زمانے کی مشکلات کا علمی مقابلہ کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ تصاویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن بعض تصاویر بولتی بھی ہیں۔ کاظمیؔ صاحب تصاویر کے انتخاب میں بھی بازی لے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں کچھ مقالہ جات کا انتخاب کرکے یقینا اس کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ دُنیا کو اپنی نظر سے ہی نہیں دوسروں کی نظر سے بھی دیکھنا ضروری ہے۔ مجھے جن تحریروں نے حیران کر دیا ان میں بی بی سی نیوز لندن کے سنیئر صحافی وسعت اللہ خان کا جاندار مقالہ تھا۔ فرنود عالم اور ہمارے دوست امیر جان حقانیؔ نے بھی کہنے کی باتیں بڑی عمدگی سے کہی ہیں۔ یہ کاظمیؔ صاحب کی قدر افزائی ہے کہ انہوں نے میرے بھی دو مقالہ جات کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ لگے ہاتھوں کاظمیؔ صاحب کے نظرِ انتخاب کو داد دئیے بنا نہیں رہا جاسکتا۔
کاظمیؔ صاحب نے جس محبت و خلوص سے اس کتاب کو مرتب کرنے کی کاوش کی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ اللہ کرے ایسی کاوشیں ہم مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں۔