ہیرو جنگ آزادی گلگت بلتستان حوالدار امیر جہاندار شاہ کی خدمات کا مختصر احوال
ترتیب و تحریر:-اخونزادہ زوار عالمگیر شاہ
ڈپٹی کمانڈنٹ پی ٹی سی
امیر جہاندار شاہ (کچٹے) سن 1922 کو کچٹی محلہ امپھری گلگت میں پیدا ہوئے .آپ کے خاندان کو گلگت کی قدیم خاندان کا اعزاز حاصل ہے جب تک موصوف کے خاندان کے لوگ فصل کی تخم ریزی نہیں کرتے گلگت میں تخم ریزی شروع نہیں ھوتی تھی.
آپ کو کرنل حسن کا خط لے جا کر قائد اعظم کو پہنچانے کا اعزاز حاصل ہے
آپ نے ترقبل گوریز اور زوجیلہ کے مقام پر کرنل کے ساتھ مل کر جنگ آزادی میں حصہ لیا اور دوران جنگ فروسٹ بائٹ کی وجہ سے معذور ہوئے تھے
آپ کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے غازیوں میں شمار کیا جاتا ھے آپ کے اعزاز میں جامعہ امامیہ مسجد کے ساتھ متصل روڈ کو آپ کے نام کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے (امیر جہاندار شاہ روڈ).
امیر جہاندار شاہ کے بارے میں کرنل حسن خان اپنی کتاب "شمشیر سے زنجیر تک” کے صفحہ نمبر 121 میں لکھتا ہے. کہ امیر جہاندار شاہ جنگ آزادی گلگت کا ایک نامور سپاہی تھا. بیچارہ مختلف بھیس بدل کر لیفٹیننٹ حیدر کے خطوط لیکر بونجی آتے تھے. امیر جہاندار شاہ ایک شجاع اور بے بدل مجاھد تھے. جو زوجیلہ کے مقام پر آخر دم تک پلاٹون کی کمان کرتے رہے. اور بعد میں سنو بائٹ کا شکار ہو کر جنگ آزادی کے غازیوں میں شمار ہو گئے.
ایک دوسری روایت ہے جس کو پروفیسر احمد حسن دانی نے اپنی کتاب The history of Northern Areas میں اسطرح نوٹ کیا ہے.
Later Amir Jehander Shah was sent on person to Quid e Azam for seeking help. The following reply was recieved "our sympathies are with you May God grant you sucess. Help urself I am myself preplexed. Fourteen lakhs of muslims have been killed . We can,t give any help.
اوپر والا خط لیکر امیر جہاندار شاہ گلگت آرہا تھا کہ بونجی کے مقام پر انڈین آرمی کے بندوں نے قید کر لیا چونکہ آپ نے خط جوتوں کی تہہ میں سلوایا تھا اس وجہ سے وہ خط کو نہیں پکڑ سکے اور دو دن بعد آپکو چھوڑ دیا.اس سے پہلے انتظامیہ سے خط بھی امیر جہاندار شاہ ہی قائداعظم کے پاس لے گیا تھا.
کتاب "آزادی گلگت بلتستان اور حقائق” کے مصنف غلام رسول (ڈی ایف او ر شمالی علاقہ جات اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 36 ,37 میں حولدار امیر جہاندار شاہ کے بارے میں لکھتے ہیں.
کہ امیر جہاندار شاہ محلہ کچٹی ہٹ (مہربانپورہ) کا رہنے والا تھا میں ان کو اس وقت سے جانتا تھا جب وہ گلگت سکاوٹس میں گلگت پلاٹون کا سپاہی اور گلگت پلاٹون کے فٹبال ٹیم کا مضبوط کھلاڑی تھا.اتنا خطرناک کہ ان کے سامنے جانے سے ہر کوئی خوف کھاتا تھا . اس زمانے میں کوئی بھی کھیل ہو وہ بغیر ہتھیار کے چھوٹی سی جنگ کا نقشہ پیش کرتا تھا. چاہے فٹ بال ہو یا پولو ہر کھلاڑی اپنے مد مقابل کو مارنے یا معزور کرنے کی کوشش کرتا تھا.
امیر جہاندار شاہ بڑا دلیر چست و چالاک اور قابل اعتماد شخص تھا. اس کی زوجیلہ کے مقام پر بہادری کے جوہر کو کرنل حسن خان نے اپنی کتاب میں اس طرح تعریف کی ہے.
جب یہ شخص زوجیلہ کے مقام پر اپنی پلاٹوں کے ساتھ مصروف جہاد تھا تو اس وقت دشمن کا دباو بڑھ گیا . راشن اور ایمونیشن کی کی قلت کے باوجود انہوں نے زوجیلہ کے مقام کو اپنے قبضہ میں کر لیا.اس لڑائی میں 15 مجاہد شہید ہو گئے تھے اور 75 کے قریب زخمی ہو گئے تھے. آپ بھی اس جنگ میں سنو بائٹ کا شکار ہو گئے تھے اور زوجیلہ سے واپس آئے جس کے بعد دشمنوں نے دوبارہ زوجیلہ کو قبضہ کر لیا.
اس نے بعد میں سنو بائٹ کی وجہ سے اسکاٹس کی ملازمت چھوڑ دی اور سویلین کی حیثیت سے انقلاب کے حامی اور سر گرم کارکن کے طور پر کام کرتے رہے.انقلاب کے بعد جب فوجی خدمات کی ضرورت پڑی تو آپ نے اپنے آپ کو رضاکار کی حیثیت سے پیش کیا اور ترگبل کے محاز پر کرنل جسن خان کی کمانڈ پر جنگ آزادی میں حصہ لیا اور بہادری کے جوہر دکھائے.
امیر جہاندار شاہ جنگ آزادی کے غازی رہے اور بعد میں 1970 میں وفات پاگئے اور اپنے پیچھے بہادری ,حب الوطنی ,اور جانثاری کے نقوش چھوڑ گئے.
امیر۔ جہاندار شاہ دوران انقلاب گلگت سے بونجی اور روالپنڈی تک بھیس بدل کر قاصد کا کام کیا .
امیر جہاندار شاہ کے بارے کرنل بابر خان اپنے بیباک اخبار کے انٹرویو 20 جنوری تا 10 فروری 1973 میں خط کا زکر کرتے ہوئے کہتے ہیں.
کہ میں نے اپنے خاص بہادر جانثار جوان کو اپنا خط دیکر قائد اعطم کے پاس بھیج دیا اور قائد اعظم سے مدد کی درخواست جس کا جواب قائد اعظم نے یوں دیا.
ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں اللہ آپ کو اجر دے اپنی مدد آپ کرو میں خود پریشان ہوں . چودہ لاکھ مسلمان مارے گئے ہیں ہم آپ کی مدد نہیں کرسکتے.
نوٹ:- یہ خط موصوف اپنی 4 کنال زمین بھیج کر لے گئے تھے پنڈی تک.
اللہ امیر جہاندار شاہ جیسا حوصلہ اور بہادری ہم سب کو دے. اور ان کو اپنے جوار میں جگہ عطا فرمائے اور بہشت بریں میں جگہ عطا کرے.