گلگت بلتستان ، تبدیلی معکوس
شریف ولی کھرمنگی ۔ بیجنگ
گلگت بلتستان کا اہم ترین مسئلہ شناخت اور حقوق کا ہے جو گزشتہ 72 سالوں میں نہیں ملے، نہ مستقبل قریب میں ملنے کا آسرا نظر آرہا ہے۔ وفاق میں تبدیلی سرکار کی حکومت جیسی بھی ہو ، کامیاب یا ناکام، مگر گلگت بلتستان کے حوالے سے یہ ثابت ہو چکی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں نواز شریف،زرداری، بے نظیر اور دوسرے سیاستدانوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ گزشتہ سیاستدانوں نے جس طرح اس خطے کے عوام کے اصل مطالبات کو پس پشت ڈالا، وعدوں نعروں اور آرڈرز پر ٹڑخاتے رہے ، ایک سال سے زیادہ کے عرصے میں تبدیلی کے علمبردار سمجھنے والے خان صاحب نے اس اہم موقع پر دو جملے بھی بولنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان گلگت بلتستان کے اہم ترین ایشو کو قابل ذکر ہی نہیں سمجھتے۔ یہ انکی ابتک کے قول و فعل سے عیاں ہے، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جو معاملہ ہے تو ترقیاتی منصوبے پچھلے حکمران بھی وقتا فوقتاً دیتے آئے ہیں یہ بھی اگلے وقتوں میں فیتے کاٹنے کے بہت سے کام کرینگے۔ گو کہ خطے میں سیاستدانوں کی کل سیاست ترقیاتی منصوبوں کے گرد گھومتی ہے اور عوام بھی تختیوں اور فیتوں کی سیاست کو ہی سیاستدانوں کی قابلیت سے تعبیر کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے کسی حکومت کا احسان ہرگز نہیں، نہ ہی ترقیاتی منصوبے سیاستدان کی قابلیت ماپنے کا پیمانہ قرار پائے گا۔ اس سلسلے میں ترقیاتی کاموں کے اعلانات اور کام کیلئے انکے پاس وقت فراواں لگ رہا ہے جس کیلئے پرانی روش کے تحت وفاقی جماعت کو اگلے انتخابات میں جیتنا بھی ضروری ہے اور سیاسی تاریخ کی تناظر میں یہ زیادہ مشکل کام بھی نہیں۔ ہاں اتنا ہے کہ اب پہلے وقتوں کی طرح اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ اسکی وجہ لوگوں میں شناخت اور حقوق کیلئے بڑھتی ہوئی بیداری ہے۔
اسوقت جو علاقے کے سیاسی مخالف لوگ گلگت میں یوم آزادی پر عمران خان کی بے تکی اور مقامی افراد کیلئے عملا نان ایشو قرار پانیوالے معاملات پر کی گئی تقریر میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلان نہ ہونے اور اسے پچھلے حکمرانوں کے اعلانات سے موازنہ کرکے اعتراضات اٹھا رہے ہیں وہ اتنا وزنی بلکل بھی نہیں کیونکہ ابھی انکے پاس میدان بھی ہے اور گھوڑا بھی۔ سو ترقیاتی کام اور چند ارب روپے بجٹ انکی حکومت نے بھی دی ہے اور اگلے سالوں میں بھی دیگی۔ یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جب وفاق میں حکومت بنی تب مقامی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس تھی۔ یہاں کے وزیر اعلی نے آخری سالوں میں اضلاع بنانے کا اعلان کیا، فیتے بھی کاٹے اور تقریب بھی منعقد کی، مگر نون لیگی وفاقی حکومت نے اس پر عملدرامد ہونے نہیں دیا، بلکہ اسے اپنے انتخابی نعرے میں شامل کرکے بعد میں باقاعدہ اضلاع کے قیام کو عمل میں لایا۔ یعنی کریڈٹ خود لیکر گزشتہ حکومت کو ناکام ثابت کردیا۔ یہی کچھ اسوقت تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نون لیگ کی مقامی حکومت کی جانب سے اضلاع کے اعلانات پر کررہی ہے۔ سو جیسی کرنی ویسی بھرنی والی بات یہاں صادق آتی ہے۔ ایسی ہی حرکتیں مقامی سطح کر الیکشن جیتنے کے ٹیکٹیکس ثابت ہوتے آئے ہیں۔ سابق پی پی حکومت کا ایک اہم قدم جی بی آرڈر 2009 قرار دیا جاتا ہے، عوام کیلئے ناکافی سہی، مگر یہ علاقے کی شناخت کی جانب دہائیوں بعد ایک اہم اسٹیپ ضرور تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آرڈر گوکہ مشرف اور ان سے پہلے کے ریفارمز کا ایک تسلسل ہی تھا مگر اس سے کئی حوالوں سے جامع تر تھا۔ اور یہی آرڈر علاقے میں حقوق کیلئے موثر آوازوں کے اٹھنے کی جانب بنیاد بنی۔ ساتھ ہی ساتھ گندم سبسڈی، چلاس، کوہستان اور بابوسر کے مقامات پر دہشت گردی کے واقعات جو اسی پی پی حکومت کے دوران پیش آئے اور بعد ازاں ٹیکس لاگو کرنے اور آرڈر 2018 نے عوام کو مسلسل احتجاجات پر آمادہ کیے رکھا جو محرومیوں سے ستائے مگر خاموش عوام خصوصا یوتھ کو بیدار کرنے کا اہم ذریعہ بن گئے۔ نون لیگی حکومت کیجانب سے ایک اہم کام سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان کیلئے سفارشات کا مرتب کرنا تھا مگر خود انہی کی حکومت میں اس پر عملدرآمد کی بجائے گورننس آرڈر 2018 کو جبرا لاگو کرنے کی کوشش کی گئی جسے عوام نے مسترد کردیا۔ اسکے بعد سپریم کورٹ میں اس معاملے پر پیشرفت سامنے آئی اور حکومت کو حکم دیا گیا کہ علاقے کو تمام تر حقوق دیئے جائیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے پاس بہترین موقع تھا اور ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات جسکے ساتھ وفاقی حکومت کی سفارشات بھی لف ہے اس پر عملدرامد کو یقینی بنائے، مگر ابتک کی حکومتی اقدامات اور نیت اس کیلئے مخلص نہیں لگ رہا جسکا تذکرہ ہوچکا۔
یوں حقوق اور شناخت کے حوالے سے وابستہ توقعات اور خود تحریک انصاف کی مقامی لیڈرشپ کے بلند و بانگ دعووں کے برخلاف یہ بات طے ہوگئی کہ تبدیلی سرکار پچھلی حکومتوں سے مختلف پالیسی اس خطے کے حوالے سے بالکل بھی نہیں رکھتی۔ اس میں یہ بات بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک انصاف کی مقامی قیادت کپتان کو اہم امور کی بابت کنوِنس کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ورنہ جو ہوائی اعلانات وہ اپنے وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان سے کروا رہے تھے ان میں دو ایک بھی وزیر اعظم سے کہلوا سکتے تو یہ خود اپنے اچھل کود کا سامان کر چکے ہوتے۔ مگر ایسا نہ ہونا انکی اہلیت پر بہت بڑا سوال ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے دعووں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے۔ شنید ہے کہ اگلے سال مقامی انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو اس سلسلے میں کچھ اقدامات کرنی ہی پڑیگی۔ ایسا اسلئے نہیں کہ اسے خطے سے ہمدردی اور عوامی امنگوں کا احساس ہے بلکہ یہ علاقے میں اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے زمینہ سازی اور ووٹ سازی کا سامان قرار پائیگا۔ الںتہ سپریم کورٹ کے اگلے آنیوالے احکامات کیساتھ مقامی عوام کو بھی میدان میں نکلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کی مقامی لیڈرشپ علاقے کے حقوق کی نہ سہی تو اپنی سیاسی مستقبل کیلئے بھی وزیر اعظم سے کچھ اگلوا نہیں سکے، سو گزشتہ دھرنوں اور احتجاجی جلسہ جلوسوں کی طرح اس بار بھی بڑی عوامی تحریک کی ضرورت پڑیگی، اسی صورت میں ہی تبدیلی سرکار کو متوجہ کرنا ممکن ہوسکے گا اور اگر مقامی عوامی تحریکوں کے بڑے اور عوام خود سے ایسا نہیں کرتی، تو کسی نامعقول صدارتی آرڈیننس یا حکم نامے کی صورت میں تحریک چلانا مجبوری بھی بن سکتی ہے۔