دیار غیر سے ایک بیٹی کا خط گلگت بلتستان کے نام
تحریر! زیب آر میر
زیب ارٹس اینڈ کرافٹس
پیاری ماں گلگت بلتستان!
امید ہے اپ خیریت سے ہونگی۔اج اپ یہ خط دیکھ کر شاید حیران ہونگی کہ میں نے انٹرنیٹ یا ٹیلی فون پر صرف مس یو کا پیغام بیجنےپر اکتفا کرنے کے بجا ئے اتنا لمبا خط کیو ں لکھا۔ تو عرض ہے اج برسوں کے بعد بہت کچھ باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہے ۔اس سے پہلے خط نہ لکھنے کی وجہ یہ ہر گز نہیں کہ میں اپ کو بھول گئ ہوں ۔میں ہمیشہ اپ کو یاد کرتی ہوں جہاں بھی رہوں جہاں بھی جاوں بس آپ ہی تو دل میں رہتی ہیں بھلا کوئ اپنی ماں کو بھی کھبی بھول سکتا ہے ۔ وہ ما ں اپنی با ہوں میں (پہاڑ اور زمین) میں اپنے اولاد کو چھپاِئے رکھتی ہو۔ ہر دکھ درد کو اپنے انچل میں چپھا کر ہر نئے صبح پر مسکراکر اپنے بچوں کا استقبال کرتی ہو۔اور شام کو اپنے انگن میں سب کو سمیٹ کر حفاظت کرتی ہو۔میں آ پ کی لوریوں کو (ابشاروں، پرندوں اور دریاوں کی اواز) کو کیسیے بھول سکتی ہوں جسے سن کر ایسی میٹھی نیند آتی تھی کہ سارے دن کی تھکان اتر جا تی تھی ۔ مجھے اپ کی مسکراہٹ (سورج طلوع ہونا ) سےبھی عشق تھی تو موٹی موٹی انسوں بہانا بھی ( موسلادہار بارش) بھی جا ن سے عز یز ۔چاروں موسم میں آپ سب سے خوب صورت لگتی ہیں ۔ آپ تو ہمیشہ ہی مجھے پیار اور شفقت سے دیکھتی رہتی تھی ما ں ۔ کھبی دل نہیں دکھایا۔سکول کے دنوں میں جب بھی شہر کے اب و ہوا سے گھبرا کر اپ کے اغوش میں اتی تھی تو سب غم و تکالیف بھول جاتی تھی۔مجھے سب کچھ یاد ہے ماں۔ میں سا ری دنیا میں گھو می ہو ں ما ں ۔ میں نے بہت حسین چہرے قدرتی منا ظر دیکھے ہیں ۔ جب بھی کو ئی حسین چہرہ دیکھتی ہوں تو مجھے آ پ کی یا د آ تی ہے ۔ میں فور ا اس چہرے کا موا زنہ آ پ سے کر نے لگتی ہو ں ۔ اور معلوم ہے ماں پوری دنیا میں آپ جیسا حسین کو ئی نہیں ۔جب بھی دنیاکے جھمیلو ں سےتھک ہار کر گھر اجا تی ہوں اپ کی یادوں بھری تصاویر کو دیکھنا نہیں بھولتی ۔ یہی سب تو ہم پر دیسو ں کا کل خزا نہ ہے
ماں مجھے اللہ نے بہت نعمتو ں سے نوازہ ہے ۔ بہت قیمتی لباس میں لوگوں کوبھی دیکھا اور خود بھی پہنا ہے اور انواع و اقسام کے کھانے بھی کھانے کو ملے ۔ پر مجھے تیرے دئے ہوے کپڑ ے پسند ہیں تیر ی روا ئتی ٹو پی اور تیرے دئیے ہوے کڑھا ئی وا لے کپڑے مجھے جان سے عزیز ہیں ۔ پتہ ہے ماں جب یہ کپڑ ے پہن کر با ہر جا تی ہوں تو پہلے تو لوگ مجھے عجیب نظر وں ے دیکھتے ہیں ۔ مگر جب ان کو پتہ چلتا ہے یہ کپڑے میری ما ں کی پہچا ن ہیں تو فورہ تصو یر ے بنانا شروع کر تے ہیں ۔ اور کہتے ہیں جس ما ں کے دئیے ہو ے کپڑ ے اتنے خو بصؤ رت ھیں وہ خود کتنی خو بصو رت ہونگی ۔ اور ہاں ما ں آپ کو تو معلو م ہےمیں کھا نو ں کا بہت شو قین ہو ں ۔ میں نے بہت سے علا قو ں او ملکو ں کے کھا نے کھا ئے ہیں ۔ مگر مجھے صر ف تیرے سکھا ئے ہوے کھا نے سب سے ا چھے لگتے ہیں ۔ دیسی کھانے( مل_گوو لی، ڈوڈو،مولیدہ، میشٹیکی اور پاجوئے چائے) وہ سب اپ کی یاد دلاتے ہیں ۔ آ پ کے آ نگن میں بجنے والی مو سیقی مجھے بے حد پسند ہے ۔اسلئے میں کھبی شینا کھبی برشسکی کھبی وخی تو کبھی کھوار و بلتی مو سیقی سنتی رہتی ہو ں ۔کچھ اور سننے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ اور ہاں ماں میں یہ توبتانا ہی بھول گئی آ پ کی بہت ساری اولاد دنیا کے مختلف مما لک میں رہتی ہے ۔ ہم با قا عدگی سے ملتے جلتے رہتے ہیں ۔ باھر ہم کوئ ہنزہ ،نگر یا گوجال ،غذر،دیامر استور یا بلتستان والے نہیں ہیں ہم صرف اور صرف گلگت بلتستان کے بچے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ فکر ہے کہ ہم کس مسلک پہ یقین رکھتے ہیں ۔ یہا ں ہما ری پہچا ن صر ف آپ ہی ہیں ہے ۔ ہم سب اتفاق سے رہتے ہیں ۔اپ خود بھی تو کہتی تھی ایک ماں کی اولاد کی خصلت اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں مگر سب سے اہم چیز رشتہ ہے ۔ لۂذ ا ہم بھی مختلف علاقے یا زبان و شکل کے ہوتے ہوئے ب جو ر شتہ آ پ کے نا طے ہے اس کو کبھی نہں بھو لتے ۔ ہم آ پ کی یہ نصیحت کبھی نہیں بھو لتے کہ ہم ایک ہی گلدان سے جڑے ہوے مختلف رنگ کے پھو ل ہیں ۔اور یہی ہماری خوبصورتی بھی ہے کہ ہم سب اپ کے بچے ہیں ۔
ماں ہم اپ کا برتھ ڈے یکم نو مبر کو کسی مجبوری کی بناء پر ملکر نہیں مناسکے لہذا اب اسے ١۵ نومبر کو اپ کے سب بچے ملکر منا رہے ہیں۔مگر ایک بات دیکھ کر بہت دکھ بھی ہوتا ہے 73 سال گزرنے کے باو جود ہ بھی اپکو وہ مقام نہیں ملا جو اپ کو ملنا چاھئے تھا۔لوگ اپ کی خوبصورتی کے گن تو گاتے ہیں مگر اپ اور اپ کے بچوں کی محبت،صبر،اور قر بانیوں کا اعتراف نہیں کرتے ۔ہم چاھتے ہیں ہماری ماں سب کی ماں بنے۔لوگ اس کی اچھاِئیوں اور عظمتوں کی بھی مثالیں دے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اپ کے سب بچے تعلیم یافتہ ہوں اور اپنے اچھے اور برے کو پہچانے۔اور محنت اور حوصلے سے اپنی منزل کو تلاش کریں
ماں میں خود بھی ایک ماں ہوں اسلئے مجھے معلوم ہے اپ کو ہم سے کتنا پیار ہے۔ ہم میں سے کسی ایک کو بھی تکلیف پہنچے تو درد اپ کو ہوتا ہے لوگ کہتے ہیں دیکھو اس ماں کے بچے کتنے برے ہیں اپس میں ہی لڑتے رہتے پیں۔ ہمیں اپ کی عزت کی خاطر اپس میں اتفاق اور اتحاد سے رہنا چاھئے تاکہ ہماری ماں کا نام دنیا کی نظر میں خراب نہ ہو
مجھے معلوم ہے سردیوں کا موسم شروع ہوا ہے اپ نے ایک خوبصورت چادر اوڑھ لی ہونگی اس میں مزید با وقار اور مشفق نظر ارہی ہونگی۔ اور اپ کے بچے اپ کے ارد گرد اپنے اپکو محفوظ سمجھ رہے ہونگے۔اپنا سایہ ہمیشہ ان پر اسی طرح قائم رکھنا ماں۔اپکے بناء ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔لوگ اپ کو ہم سے چھیننا چاھتے ہیں مگر جب تک اپ کے بچے اتفاق اور یک دل ہوکر اپ کی حفاظت کرینگے اپ کو نہ کوئ چھین سکتا اور نہ نقصان پہنچا سکتا۔ہاں البتہ اگر اپکے بچے صرف دیامر استور یا بلتستان یا غذر و ہنزہ نگر بن کر رہے تو یقیناً اپ ایک دن اکیلی گٹ گٹ کر مرجائنگی۔مگر مجھے پورہ یقین ہے اپ کے بچے اپ کو ہر گز مرنے نہیں دینگے۔کیونکہ اپ ان کا سایہ ہیں ۔
اچھا ماں اج اس خط میں بہت ساری باتیں ہوئ۔امید ہے اپ اسے اچھی طرح سے پڑھینگی اور ایک بار مسکرا دینگی۔مجھے اپکی مسکراہٹ بہت پسند ہے۔میرےبچے سکول سے انے والے ہیں ان کے لئے کھانا تیار کرونگی کیونکہ میں بھی ایک ماں ہوں اپکی طرح۔ اللہّ پاک ہمیشہ اپ کو سلامت رکھے ماں
فقط
ا پکی ایک پردیس بیٹی
زیب انساء