کشمیر میں سو دن
تحریر: دیدار علی شاہ
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں لگائی گئی کرفیو کو آج سو دن ہو رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، انسانی حقوق کی پامالی، ظلم و ستم اور جبر کی انتہائی دلخراش واقعات بین الاقوامی میڈیا میں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اتنی پرانی ہے جتنی پاکستان اور انڈیا کی، اسی مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان دو جنگیں لڑچکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں طرف سے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کے الزامات آج بھی ایک دوسرے پر لگاتے رہتے ہیں۔
تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کر سکتے ہے یا پھر آزاد بھی رہ سکتے ہیں پھر اُن ریاستوں میں سے زیادہ تر نے اپنی آبادی سے رائے لیتے ہوئے اپنی مرضی سے پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کیالیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی مسلمان اکثریتی ریاست کے ساتھ آزادرہنے کا فیصلہ کیا اسی دن سے انڈیا اور پاکستان کے افواج نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے یہاں پر پیش قدمی کی اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور یہ جنگ 1949 تک جاری رہا۔ جنگ بندی کے بعدانڈیا کے پاس کشمیر کا دو حصے پر اور پاکستان کا ایک حصہ پرکنٹرول رہاپھر سیز فائر لائن قائم ہوئی اور بعد میں اسے لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔
5اگست 2019 کو بھارت کی حکومت نے اپنی آئین کی آرٹیکل 370 اور35اے کو منسوخ کیاجس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم ہوگئی اور تبدیلی کے بعد مقبوضہ کشمیر کے داخلی اموروزیر اعلیٰ کے بجائے براہ راست مرکز میں وزیرداخلہ کے تحت آگئے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیالیکن وہاں سے ناکامی کے بعد انتظامی بنیادوں پرآئین میں تبدیلی کی گئی۔
بھارت میں ابھی حکمران جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی نے 2019 کے اپنی انتخابی منشور میں اس آئین کے آرٹیکل کے خاتمہ کا وعدہ کیا تھا اور قانونی ماہرین اسے عالمی قوانین اور بھارت کے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دے چکے ہیں۔اس سے پہلے بھی کشمیریوں کو یہ خدشہ رہا ہے کہ اگر انڈیا کے آئین میں 370اور 35 اے کو ختم کیا گیا تو یہ لوگ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہوجائیں گے اور یہاں پر غیر مسلموں کو آباد کریں گے۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ انڈیا کے آئین میں 370اور 35 اے ہے کیا اور کشمیر میں اس کے خاتمے سے کیا ہوگا۔ پہلی بات آئین کے اس آرٹیکل کے خاتمے سے جموں کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا، اب ریاست جموں کشمیر کی جگہ مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بن گئے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا نام لداخ ہے اب دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام مرکز سے چلارہے ہیں، جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہوگی اور لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی، آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس میں صدر مملکت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہے، اس اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے اور خواتین کے حوالے سے جو روایتی قانون نافذ تھے وہ بھی ختم ہوگئے،خصوصی شہریت کی دفعہ 35اے کے خاتمے کے بعد اب بھارت سے کوئی بھی فرد یہاں پر جائیداد خرید سکتا ہے نوکری حاصل کر سکتا ہے اور کاروبار بھی کرسکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا سے تقریباً دس افراد نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواست دائر کی ہے اور اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ کرفیو اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ مودی سرکار کی طرف سے کیے گئے حالیہ اقدامات پردائر کی جانے والی درخواست پر کیاموقف اختیار کرتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق خودمختاری کی جس شرط پر ہوا تھا اب وہ معاہدہ ہی تحلیل ہوگیا ہے جس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سنہ1947 کی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کے مسئلے کی تاریخ کو سمجھے بغیر اس پر تبصرہ کرنا مشکل ہے، ہوا یہ ہے کہ تقسیم کے فوراً بعد کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت میں جنگ شروع ہونے کے بعد دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت اس مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیاتو اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان کی تشکیل کی، اس کے بعد اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948 کو قرارداد نمبر 47 پاس کی جس میں کہا گیاکہ دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لایا جائے اور فوجیں علاقے کو خالی کرے تاکہ اقوام متحدہ استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے، لیکن دونو ں ملک سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے، پھر 1951 میں دونوں ملکوں نے معاہدہ کراچی پر دستخط کیے جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لئے کہا گیا تھا۔ 1965 کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان پھر جنگ ہوئی، تقریباً 23 سال بعد 1971 تک اقوام متحدہ نے 17قراردادیں منظور کیں اور متعلقہ معاملات پر اجلاس طلب کیے اور اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ پھر 1972 میں شملہ معاہدہ کے بعد انڈیا نے اس پر بات کرنے سے انکار کیا کہ یہ مسئلہ طے پاچکے ہیں، 1989 کے بعد کشمیر میں پھر شورش کا آغاز ہوااور 1999 کو کارگل کے مقام پر دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی، 2003 میں دونوں ملکوں میں سیز فائر کا ایک معاہدہ ہوااور ایل او سی کو سرحد تسلیم کیا گیا۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں بہت سے قراردادیں منظور ہوئی اور دونوں ملکوں میں بہت دفعہ جنگ ہوتے ہوتے ٹل گئے۔
اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی بھی اپنی ہی ایک طریقہ کار ہے جو دنیا میں مختلف تنازعات میں فیصلے کرتے ہے، سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد 15 ہے جس میں سے 5مستقل اراکین کے پاس ویٹو کا ختیار ہے جس میں سے کوئی بھی ملک قرارداد کو ویٹو کرسکتا ہے۔ سلامتی کونسل کو یہ اختیارات بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں بد امنی کے شکار ممالک میں امن مشن بھجوانے سمت پابندی بھی عائد کر سکتی ہے اور ساتھ ساتھ فوجی کاروائی کے لئے قرارداد منظور کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق تمام لاتعلقیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے دستاویزات میں اب بھی ایک حل طلب تنازعہ ہے۔ پاکستان اور کشمیری آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے مسئلے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے مطالبات کو بین اقوامی قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔
انڈیا کے 5اگست کے فیصلے کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ کے مطابق ہم نے تمام آپشن استعمال کی ہے اور دنیا نے ہمارے موقف سنی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں کشمیر ایشو پر پاکستان کا موقف واضح کیا ہے۔یہ بھی پہلی بار ہوئی ہے کہ دنیا کے تمام میڈیا پر کشمیر کا مسئلہ زیر بحث رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اکتوبر 1947 میں پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے غرض سے انڈیا سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ پھر سنہ1956 میں انڈیا نے آرٹیکل 370 کو آئین کا حصہ بنایا۔ اس آرٹیکل کے تحت انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کو خصوصی حقوق دیے گئے۔ اب انڈیا نے اسی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیاہے۔دراصل نہرونے ہی بٹوارہ اور استصواب رائے کے منصوبے کی تجویز دی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے مطابق ماہرین کے خیال میں یہ بات سچ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی وجہ قانونی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
بین اقوامی برادری اور عالمی طاقتیں اس معاملے میں کم دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور ان کی طرف سے ہمیشہ یہی پیغام آتا ہے کہ دونوں ملکوں کو باہمی بات چیت کے زریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرے۔
آج کے دور میں ہر ملک مفادات کی سیاست کرتا ہے۔اس ریجن میں چین، روس، افغانستان، ایران، بھارت اور پاکستان کا اپنے اپنے مفادات ہے۔مغربی دنیا خاص کر امریکہ کا ان ممالک کے ساتھ اپنا دفاعی اور معاشی مفادات وابستہ ہے۔لہذا ان ممالک سے کشمیر ایشو پر ثالث کی توقع ممکن نہیں۔ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں صرف دو دفعہ اٹھایا گیا ہے پہلا 1971 میں اور دوسرا اس سال 5 اگست کے مسئلے کے بعد۔ مگر دونوں دفعہ نتیجہ بے سود رہا۔
لیکن انڈیا کا موقف یہ ہے کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے،۔ مگر کشمیر میں بسنے والے ستر لاکھ افراد جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے انڈیا کے ساتھ دنیا سے سوال کرتے ہے کہ کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہو رہا ہے؟ یہ تب پتہ چلے گا جب انڈیا وہاں سے کرفیو اٹھائے گا۔ اور خدشہ یہ ہے کہ کشمیری مزید طاقت سے جدوجہد کریں گے۔
جب تک پاکستان اور بھارت کے سیاسی، معاشی، دفاعی، دیگر شعبے اور دونوں ملکوں کے عوام اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل خود تلاش نہیں کریں گے تب تک دوسرے ملکوں اور اداروں سے توقعات بے سود ہیں۔