کالمز

کونسل انتخابات،سیاسی نورتن اورمسلم لیگ ن کے کارکن

سیاسی جماعتوں کی زندگیوں میں کارکن سانس اور دھڑکنوں کی مثال ہوا کرتے ہیں،اگر سیاسی کارکن غیر فعال ہوں تو سیاسی جماعت کا سانس رک جاتا ہے ،دل کی دھڑکن بند ہو جاتی ہے،،،،، ایسے میں ایک دن سیاسی جماعت کی یوں خاموشی سے موت واقع ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی ،،،،،،نہ جنازہ تو نہ کفن دفن اور نہ قبر کی نشانی،،،،،،،وہی جماعتیں پورے آب و تاب کے ساتھ زندہ و جاوید رہتی ہیں جن کے کارکنوں کو جماعت میں قدر و منزلت کا مقام ملے ،،،،،لیکن کیا ہے،،،،،،،،، کہا جاتا ہے کہ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے ،،،،سیاسی جماعتیں جب کارکنوں کی قربانیوں کی بدولت مسند اقتدار پر برا جمان ہوتیں ہیں تو پھر کارکنوں کی افادیت حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے ،،،،،خون دینے والے کارکنوں کی جگہ دودہ پینے والے مجنوں لے لیتے ہیں،،، جماعت کے رہنما خوش آمدیوں کے جھرمٹ میں یوں کھو جاتے ہیں کہ کھرے کھوٹے ،،،،سچے جھوٹے ،،،،،وفادار غدار،،،،،نظریہ پرست ،مفاد پرست،،،،،نظریاتی ،اور نظر آتی سیاست، کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ،جماعت کے رہنما مسند اقتدار کو پیارے ہوتے ہیں تو ساتھ ساتھ یہ المیہ بھی ہے کہ زمینی حقائق سے بھی دور ہوتے ہیں ،ان رہنماؤں کے ارد گرد سیاسی،، نورتنوں،،کا ہجوم ہوتا ہے جنہیں کسی بھی صورت یہ منظور نہیں ہوتا ہے کہ حقیقی کارکنوں کی رہنماؤں تک رسائی ہو ،یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے نظریاتی کارکن یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا میری قربانیوں کا صلہ یہ ہے کہ آج جس مقام پر مجھے ہونا چاہئے تھا وہاں وہ لوگ ہیں جو کل تک جماعت کو گالیاں دے رہے تھے ،جن کا جماعت سے دور تک واسطہ نہیں تھا وہ آج اس جماعت کے کرتا دھرتا بنے ہیں ،سیاسی جماعت کے رہنما اقتدار میں جانے کے بعد اگرسیاسی نورتنوں سے دور ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ایک اور، ،،بلا ،،،ان کے سر آن پڑتی ہے،، اس بلا ا نام بیورو کریسی ہے ،یہ بلا سیاسی نورتنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے،سیاسی نورتن تو درباری گیت گا کر حقیقی کارکنوں کو قریب پھڑکنے نہیں دیتے لیکن بیورو کریسی کی بلا قانوں کی موشگافیاں اور پروٹوکول کے چکر میں سیاسی رہنماؤں کو ڈال کر کارکنوں سے دور کرتی ہے ،الغرض سیاسی کارکنوں کیلئے ایک طرف کھائی تو دوسری طرف کنواں والی صورتحال ہوتی ہے ،ایک طرف سیاسی نورتن تو دوسری طرف بیورو کریسی کی بلا ،ایسے میں کارکن جائیں تو جائیں مگر کہاں ؟ یہی و مقام ہوتا ہے جہاں سے سیاسی جماعتوں کی سانسیں اکھڑنی شروع ہوتیں ہیں ،اگرچہ جماعت کو ، سیاست کے ہسپتال میں اقتدار کے،،، وینٹیلیٹر،،،،پر ڈالا جاتا ہے تو رہنماؤں کو خبر ہی نہیں ہوتی ہے کہ جماعت آخری سانسیں لے رہی ہے ،جماعت کی سانسیں ،کارکنِ بکھر چکے ہیں ،اقتدارکا دورانیہ ختم ہوتا ہے تو ایسے میں ان رہنماؤں کی آنکھوں سے وہ چشمہ بھی اتر جاتا ہے جو دوران اقتدار،، سیاسی نورتن،، اور ،بیوروکریسی آنکھوں میں لگا دیتی ہے تو سب اچھا نظر آتا ہے ،جب چشمہ اتر جاتا ہے تو اب سب کچھ وہی نظر آتا ہے جو حقیقت ہو ،لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ،،،س اس لمبی تمحید کا مقصد یہ ہے کہ میں آج کی نشست میں مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے رہنماؤں سے مخاطب ہونا چاہ رہا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کارکنوں کی قربانیوں اور جدو جہد سے اقتدار کی منزل ملی ہے تو اب ان کارکنوں کو بھی وہ مقام دیا جائے جو جس مقام کے حقدار ہوں ،یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے رہنماؤں کے ارد گرد ،ِ،سیاسی نورتن ،،،جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وزیر اعلی حفیظ الرحمان انہیں قریب آنے نہیں دے رہے ہیں اور الحمد اللہ کارکنوں پر توجہ دے رہے ہیں لیکن اگر ناگوار نہ گزرے تو کچھ گزارشات گوش گزر کرنا اپنا فرض تصور کرتا ہوں ،کونسل کے انتخابات سر پر ہیں ،صف بندیا ں ہو رہی ہیں،کچھ جماعت کے حقیقی کارکن اس دوڑ میں شامل ہیں تو کچھ نئے ،سیاسی، نورتن، بھی جماعتی ٹکٹ کے امیدوار ہیں ،بظاہر تو نئے آنے والے سیاسی نورتن ،اپنی وفاداری کے قصے سنا رہے ہیں لیکن ان کی کتاب زندگی کے ایک ایک ورق میں ،وقت پرستی اور مفاد پرستی ،کے افسانے نمایاں ہیں ،ان ،،سیاسی نورتنوں ،،کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وقت اقتدار پورا ہونے کے بعد اس جماعت کا کیا بنے گا ،کیونکہ انہوں نے تو اقتدار کا حلوہ ختم ہوتے ہی اس جماعت کی طرف اڑان بھرنی ہے جس کی جیت کی خبر وقت دے رہا ہو ،کونسل کے لئے تو چار یا پانچ امیدواروں کو جماعت کے ٹکٹ ملیں گے ،سبھی کارکنوں کو کونسل انتخابات میں فائدہ کھبی نہیں مل سکتا ہے ،لیکن اتنا خیال ضرور رہے کہ کونسل میں ان کارکنوں کو جگہ دی جائے جنہوں نے ہر موسم میں جماعت کا دامن پکڑے رکھا ہے ،امید ہے کہ کونسل کے ٹکٹ تو حقیقی کارکنوں کو ملیں گے ،میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کونسل کاٹکٹ کس کس کارکن کو دیا جائے ،کس کو نہ دیا جائے ،یہ بات جماعت کے رہنما بہتر سمجھتے ہیں ،ہاں اس نشست میں کچھ ایسے کارکنوں کے نام ضرور لکھوں گا جنہیں میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ہمیشہ سے جماعت کیلئے جدو جہد کرتے دیکھا اور اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب جماعت کے اقتدار میں آنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں رہے تھے ، ان میں حاجی غندل شاہ ،اشرف صدا، طاہر ایوب ،حاجی مسعودالرحمان ،رانا فاروق،سلیم احمد ،،شفیق الدین ،سلامت جان ،حاجی اورنگزیب،شمس میر،حاجی عبد الوحید ،شہزادہ حسین مقپون ،وزیر اصغر،سلطان مدد،سلطان علی خان ،،،قاری وزیر صدیقی ، محمد ثابت خان ،رضوان راٹھور،وزیر اخلاق،کلب علی،ریاض احمد،فدا حسین ،، یہ وہ نام ہیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کے نام سے جو پودا شہید امن سیف الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے گلگت بلتستان میں لگایا تھا اس کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے ، بہت سے ایسے کارکن اضلاع اور تحصیلوں میں ہوں گے جن کا جماعت کیلئے بہت بڑا کردار ہوگا جنہیں میں نہیں جانتا ان سے معذرت بھی کرتا ہوں کہ ان کے نام تحریر میں نہیں لا سکا، اگرچہ میری یہ تحریر ،سیاسی نورتنوں،، پر گراں گزرے گی لیکن مجھے کچھ پروا نہیں ،مشہور شاعر راحت اندوری کے کچھ اشعار کے ساتھ رخصت چاہوں گا
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button