کالمز

سفر نامہ:‌ گاہکوچ سے چین تک۔۔۔قسط (1)

 تحریر: دردانہ شیر

چین کے بالائی صوبہ سینکایانگ کے عوام1997 تک غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ اس صوبے کے شہر کاشغر میں چند ہوٹل ہوا کرتے تھے جبکہ سڑک پر درجنوں کے حساب سے گاڑیاں گزرتی تھی 99فی صد لوگ سائیکلوں پر سفر کرتے تھے جبکہ پھل فروٹ کی پیداوار بھی نہ ہونے کے برابر تھی پاکستان سے لوگ چین کے اس قدیم شہر کاشغر پہنچتے توکاشغر لوگ ان کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے کہ پاکستان سے آنے والے مہمانوں سے فروٹ خرید سکے جب چین جانے والے پاکستانی گاڑی سے نیچے اترتے تھے تو سب سے پہلے احتراماً کاشغر کے لوگ ا ن ہاتھ چومتے تھے کہ کہ آپ پاکستان کی پاک زمین سے آئے ہیں کاشغر کے لوگ ان افراد سے ڈرائی فروٹ خریدتے اور انھیں اپنے گھر میں مہمان لے جاتے تھے 2005کے بعد چین کی حکومت نے اس بالائی صوبے پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دیا اور زراعت سے وابسطہ افراد کو بغیر منافع کے کروڑں ین قرضے دئیے اور زراعت کے ماہرین کو باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان بھیجاگیا کہ جاکر دیکھ لو کہ جو موسم گلگت بلتستان کا ہے وہی موسم کاشغر کا بھی ہے تو ایسی کیا وجہ ہے کہ اخروٹ،خوبانی اور سیب کی پیداوارگلگت بلتستان میں ہوتی ہے مگر کاشغر میں نہیں زراعت کے یہ ماہرین نے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کے شمالی علاقے ہزارہ ڈویثرن اور سوات کا بھی دورہ کیا اور واپس جاکر اپنے کاشتکاروں کو باقاعدہ پر ٹریننگ دی کہ وہ اخروٹ،بادام،سیب اور خوبانی کے پودے لگائے جس پر کاشغر کے کاشتکاروں نے حکومت کی طرف سے زراعت کی ترقی کے لئے دئیے گئے کروڑوں ین کے پودے خرید لئے اور چند سال بعد ان پودوں نے پھل دینا شروع کر دیا آج کاشغر شہر اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں اخروٹ،سیب،بادام اورخوبانی کے درخت نظر آرہے ہیں اور یہاں کے باغبان اپنے پھل فروٹ سے کروڑوں ین کمارہے ہیں اور یہ صوبہ اب ترقی کے میدان میں اتنے آگے نکل چکا ہے کہ آج پورے کاشغر شہر میں کوئی سائیکل چلانے والا نظر نہیں آتا اسی فی صد لوگوں کے پاس جدید طرز کی گاڑیاں ہیں کاشغر شہر میں سالانہ بڑے بڑے پلازے تعمیر ہورہے ہیں اور سی پیک کی وجہ سے اس صوبے خصوصاً کاشغر اور تشقر غان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے کاشغر میں ایک مزدور روزانہ دو سو ین مزدوری لیتا ہے جو پاکستانی روپیوں میں چار ہزارچھ سو روپے بنتے ہیں ٹھیکداروں کو مزدور نہیں مل رہے ہیں بیجنگ سے بڑے بڑے کاروباری افراد نے اپنا کاروبار کو کاشغر شفٹ کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ تشقر غان شہر کے قریب انٹرنیشنل طرز کا ائر پورٹ تعمیرکیا جارہا ہے اور ایشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی اس شہر میں تعمیر کرنے کی چین کی حکومت نے پلان بنایاہے جبکہ خنجراب سے کاشغر تک موٹر وے طرز کی جدید ترین روڈ کی تعمیر کا کام زور شور سے جاری ہے حالانکہ کاشغر تاشقرغان تک موٹر وے طرز کی سڑک دو سال قبل بنائی گئی تھی اب اس سڑک کو دوبارہ اکھاڑ کر ایک بیس فٹ چوڑھی سڑک کی تعمیرکا کام زورشور سے جاری ہے اور جس تیزی سے یہ کام ہورہا ہے اگر ایسی رفتار سے اس کی تعمیر جاری رہی تو اگلے سال جون تک یہ اہم منصوبہ مکمل ہوگا سی پیک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے بڑے کاروباری افراد نے اپناتمام کاروبار کاشغر اور تاشقرغان شفٹ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کاشغر سے چین کے شہر بیجنگ تک جہاز کا سفر اٹھ گھنٹے کا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک کنٹرینر اگر بیجنگ سے گوادر کی طرف روانہ ہوجائے تو اس کو گوادر پہنچنے تک دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ در کار ہوگا اگر یہ کنٹینرکاشغر سے گوادر کی طرف روانہ ہو تو مسافت صرف ایک ہفتے کی ہوگی اس لئے چین کے کاروباری افراد روزانہ کی بنیاد پر کاشغر اور تشقر غان شفٹ ہورہے ہیں ہر سال ان دونوں شہروں کی نہ صرف اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ فلک پوش عمارتوں کی تعمیر نے ان خوبصورت شہروں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور یہاں کے عوام سالانہ خوشحال ہورہے ہیں کوئی بندہ بیروزگار نظر نہیں آرہا ہے راقم 2014سے سالانہ چائینہ جارہاہے اور ہر سال کاشغر اور تشقر غان کے یہ دونوں شہر ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں اس سال بھی میں اور صدر پریس کلب غذر جاوید اقبال صاحب نے چائنہ جانے کا پروگرام بنایا ہمارا ارادہ تھا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں نکل جائینگے مگر مصروفیات کی وجہ سے6نومبر کو اللہ کانام لیکر غذر سے سوسست کی طرف روانہ ہوگئے جاوید اقبال صاحب کہنا تھا کہ سو سست تک اپنی گاڑی میں جاتے ہیں میں نے بھی ان کی بات سے اتفاق کر لی چونکہ چائنہ سے واپسی پر سو سست کی خون جمانی والی سردی کا مجھے اندازہ تھا اس لئے جاوید اقبال صاحب کی گاڑی میں ہم نے گاہکوچ سے اپنے سفر کا آغاز کر دیا جاوید اقبال صاحب پہلی بار چائینہ آرہے تھے اس لئے ان کواس ملک کے حوالے سے کوئی پتہ نہیں تھا میں نے ان کو بریفنگ دی ہماری گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ ہنزل کے قریب پہنچے تو ہمارے گاڑی میں دھماکے کی آواز سنائی دی (جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button