کالمز

آہ۔۔۔۔شیخ سلیم اللہ خان رحمتہ اللہ علیہ۔۔۔امت مسلمہ کے حقیقی محسن۔۔۔۔!

تحریر: عرفان ولی

یہ 15جنوری کی ایک سرد شام تھی ۔عشاء کی نماز کے بعد مجھے کسی ساتھی کا مسیج موصول ہوا ۔جس میں اطلاع دی گئی کہ ’’رئیس المحد ثین،استاد العلماء حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ؒ صاحب کا انتقال ہو گیا ہے ۔یہ مسیج پڑھتے ہی یوں لگا کہ حرکت افلاک تھم گئی ۔زمین ساکت ۔الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ۔تعبیرات گنگ ہوں ۔آنکھیں بے اختیار چھلک اٹھیں ۔اور ایسی برسیں کہ جیسے برسوں کا قرض اتار رہی ہوں ۔میں نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی ۔تو یوں لگا کہ جیسے پورا ماحول سوگوار ہو ۔۔۔کس سے تعزیت کروں۔۔۔۔کس کو غم جاں سناؤں۔۔۔۔؟ بس بے بسی کے عالم میں اتنا بڑ بڑا سکا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون مجھے ایسے میں حضرت نفیس شاہ ؒ کا کلام یا د آنے لگا کہ
دل زخم زخم لوگو ،کوئی ہے جسے دکھائیں
کوئی ہم نفس نہیں ہے ،غم جاں کسے سنائیں
پھر دل سنبھالا ۔دل نے دماغ کو حاضر کر دیا اور یاد دلایا کہ موت ایک نا قابل انکار اٹل حقیقت ہے ۔یہ تو آکر رہے گی ۔ایسے میں اہل علم و حلم کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔جو پیغمبر انقلاب لیکر آئے تھے ۔جو صحابہ کرامؓ نے اپنایا ۔جو آج تک دین اسلام کا شعار رہا ۔وہ تھا صبر کا محتاط راستہ ۔جہاں ہر بڑی سے بڑ ی آفت کواپنے دامن میں سمولینے کی طاقت ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت شیخ نور اللہ کے پڑھائے ہوئے درس صبر کو اپناتے ہوئے ان کی مغفرت کیلئے فاتحہ خوانی کی ۔ٹوٹے پھوٹے بے ربط الفاظ جوڑ کر بار گاہ ڈوالجلال میں عاجزانہ اپیل کی ’’ پرور د گار عالم میرے شیخ کیعلمی ،عملی خدمات کے عوض انہیں کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں میسر فرما ۔انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرما ۔پس ماندگان سمیت حضرت کی روحانی اولاد کو صبر و جمیل کے ساتھ ساتھ ان کے مشن پر کار بند فرما ۔حضرت رئیس المحدثین کوئی عام ہستی نہیں تھی ۔جیسا کہ حضرت مولانا قاسم نا نوتوی نے دار العلوم دیو بند کے قیام کے بعد فرمایا تھا کہ ’’ اس ادارے سے فارغ ہونے والا ہر طالب علم اپنی ذات میں ایک ادارہ ایک تحریک بن کر اٹھے گا ۔۔حضرت شیخ صاحب نانوتوی کے اس تاریخی جملے کے حرف حرف پہ پورے اترے ۔ان کی زندگی پر اگر تفصیل سے لکھا جائے تو ان گنت صفحات پر مشتمل ایک کتاب بن جائے چہ جائے کہ میں ان ٹوٹے پھوٹے۔۔۔بے ربط الفاظ سے حضرت رحمتہ اللہ کی حیات مستعار یہ کچھ لکھ سکوں ۔مگر ارض شمال کی نسل نو ک ان کی امانت ادا کرنے کی سعی نا تمام ضرور کروں گا تا کہ دل کا بوجھ اور امت کا قرض بھی ادا ہو سکے ۔
تعارف:۔
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا آبائی علاقہ خیبر ایجنسی ہے ۔ان کے آباؤ اجداد قیام پاکستان سے قبل انڈیا منتقل ہوئے ۔آپؒ 25 دسمبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن پور لوہاری کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کا خاندان ’’آفریدی پٹھانوں ‘‘ کے قبیلے ملک دین خیل سے ہے ۔
حسن پور لوہاری ہمیشہ اکابرین اہلسنت والجماعت کا مسکن و مرجع رہا ہے ۔حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں سکونت پذیر رہے ۔حضرت شیخ ؒ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح اللہ خان صاحب کے مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی ۔1942ء میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کیلئے دارالعلوم دیو بند میں داخل ہو ئے ۔جہاں آپ نے حدیث ،تفسیر ،فقہ و دیگر علوم فنون کی تکمیل کی اور 1947ء میں آپ نے امتیازی نمبرا ت کے ساتھ سند فراغت حاصل کی ۔فراغت کے بعد اپنے استاد و عربی مولانا مسیح اللہ خان کے مدد سے مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی و تنظیمی امور سر انجام دینے شروع کئے ۔آٹھ سالہ شب وروز کی مخلصانہمحنت رنگ لائی اور مدرسہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی را ہ پر گامزن ہو گیا ۔آپ کی علمی گرفت و محنت کو دیکھ کر شیخ الا سلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے آپ کو پاکستان میں اپنے قائم کردہ ادارہ ’’دارالعلوم ٹنڈو والہ پار سندھ ‘‘ میں تدریس کیلئے لے آئے ۔تین سال کام کرنے کے بعد آپ ملک کے معروف دینی ادارے ’’دارالعلوم کراچی‘‘ سے منسلک ہو گئے وہی مسلسل دس سال تفسیر ،حدیث ،فقہ ،ریاضی ،عربی ادب ،فلسفہ ،کی تدریس میں مشغول رہے ۔اسی دوران ایک سال مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے اصرار پر جامعتہ العلوم الا سلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں فارغ اوقات میں مختلف اسباق پڑھاتے رہے ۔
اوصاف:۔
قدرت نے آپ کے اندر عجیب اوصاف کمالیہ و دیعت رکھے تھے ۔علمی گرفت ،تقویٰ ،جرات ،حق گوئی جیسی عظیم صفات آپ کے اندر کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی ۔اسی وجہ آپ ہمیشہ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کی فکر میں لگے رہتے ۔اس دور کی علمی سرگرمیوں کو دیکھ کر آپ مطمئن نہیں تھے ۔آپ چاہتے تھے کہ ایک ایسی درسگاہ قائم ہو جائے جو دینی و عصری تقاضوں کو پورا کر کے عصر حاضر کے تمام چیلنجز کا مقابلہ کر سکے ۔چنانچہ یہی فکر و سوچ جامعہ فاروقیہ کراچی کی تاسیس کا سبب بنی ۔
خدمات:۔
حضرت شیخ سلیم اللہ خان ؒ بیک وقت ایک مضبوط علمی ،سیاسی ،شخصیت تھے ۔علمی ایسے کہ نصف صددی سے زیادہ آپ کی تدریسانہ زندگی نے ہزاروں ،لاکھوں فرزندان اہل علم کو سیراب کیا اور سیاست ایسی کہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق، تحفظ شعائر اسلام، ترویج مدارس کیلئے ہمہ وقت تیار و کوشاں رہتے ۔ہمیشہ سے مذہبی قوتوں ،تحریکوں کی سر پرستی اور عملی طور پر قیادت کرتے رہے اور مذہبی سرحدات پہ کسی سے سودے بازی نہیں کی ۔تحریک پاکستان ،تحریک تحفظ ختم نبوت ،تحریک حرمت رسول ؐ جیسی بے شمار تحریکوں کی قیادت و سر پرستی پر مشتمل 70 (ستر سالہ) حیات مستعار اس با ت کا مسلمہ ثبوت ہے کہ آپ حقیقی طور پر شیخ العرب والعجم سید نا حسین احمد مرنی ؒ کے روحانی فرزند ہیں ۔ذیل میں حضرت ؒ کی نمایاں خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے ۔
تدریس:۔
آٹھ سال جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد(بھارت ) تین سال دارلعلوم ٹنڈو والہ یاد (سندھ) ایک سال جامعتہ العلوم الا سلامیہ علام بنوری ٹاؤن کراچی ،دس سال جامعہ دارلعلوم کراچی ،38 سال جامعہ فاروقیہ کراچی ۔
تاسیس:۔
23جنوری 1967ء بمطابق شوال 1387ء ھجری میں جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی ۔
مناصب:۔
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ ۔پاکستان (1989-1980 ) صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان 1989 سے 2017 تک )
نامور شاگرد :۔
مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ،مفتی جسٹس محمد تقی عثمانی حفظ اللہ ور عاھم ،مفتی حبیب اللہ مختار شہید ،مفتی نظام الدین شامزئی شہید ،مولانا منظور احمد مینگل صاحب ،مولانا ابن الحسن عباسی صاحب ،مولانا ولی خان المظفر صاحب ۔
تصانیف:۔
1۔ کشف الباری فی شرح صحیح البخاری
2۔ نفخات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح
الغرض حضرت شیخ ؒ نے نصف صدی سے زیادہ خود کو تدریس کے شعبہ سے وابستہ رکھ کر جہاں ہزاروں علمی فرزندوں کا صدقہ جاریہ امت مسلمہ کر دیا ۔وہیں اپنی 70 ستر سالہ قائدانہ زندگی سے امت مسلمہ کو ملی وحدت ،اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پروئے رکھا ۔دینی علوم و تربیت کی ترویج کیلئے مدارس کا سلسلہ قائمکیا ان کے تحفظ اور عملی فیض کے فروغ کیلئے ایک شجر سایہ دار کی طرح زمانے کے گرم سرد ہواؤں میں کھڑے رہے ۔
اپنی تو وہ مثال ہے کہ اک شجر سایہ دار
اوروں کو چھاؤں بخش کے خود دھوپ میں جلے
حضرت امام احمدحنبل ؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے بعد ہماری نشانیاں تمہیں یاددلایا کرینگی کہ ہم کون لوگ تھے ۔آج شیخ کی رحلت کے بعد دنیا و امت مسلمہ کو اندازہ ہو چکا کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک راہنما حقیقی قائد سے محروم ہو گئے ۔آج حضرت کی رحلت کے بعد ہمیں یوں لگا کہ ہم سے سائباں رحمت چھینا گیا ۔ہم اب صحراؤں کے طوفانی جھکڑو زمانے کی کڑی دھوپ اور مغرب کی تہذ یبی یلغار و بر سات کا کیونکر اور کیسے مقابلہ کر سکیں گے ؟ لیکن یہ سوچ کر امید سی بندھ جاتی ہے کہ قدرت خداوندی کے ابدی و سرمدی قانون سے کسی کو راہ فرار نہیں ۔”کل نفس ذائقہ الموت "سے ہر ایک ذی روح کو گزرنا ہو گا ۔سو حضرت شیخ ؒ چلے گئے تو کیا ہوا؟ پیغمبر انقلاب سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی قانون کو اختیار کر کے دنیا سے پردہ فرما گئے ۔ان کے جانے کے بعد دین اسلام کی تبلیغ ونفاذ میں کمی آئی ؟نہیں بلکہ آپ کے روحانی فرزندوں نے تا قیامت آپ ؐ کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم مصمم کیا اور اب تک اسی پہ کار بند ہیں اور رہیں گے ۔ہمارے شیخ ؒ بھی اُسی سلسلے کے ایک کڑی ہیں ۔اب حضرت شیخ ؒ کے روحانی فرزندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حضرت کی سیاسی ،تحریکی ،علمی و عملی خدمات پر کار بند رہیں ۔ان کی ترویج کریں ۔ان کے ادھورے مشن کو آگے بڑھائیں ۔امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق ،مسائل اور سرحدات اسلام پردہرہ دینے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہیں ۔آخر میں رب العالمین کیبار گاہ میں اس سیاہ کار کی التجا ء ہے کہ وہ حضرت شیخ ؒ کی روح کو کروٹ جنت کی راحتیں میسر فرمائے اور مجھ سمیت سب فرزندان توحید کو ان کی سیرت کا عشر عشیر بھی نصیب فرمائے ۔
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے
شکر کرم کیساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button