کالمز

شان سیدنا عمر فاروقؓ

تحریر: مجاہد خان معاویہ

حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کا دوسرا خلیفہ ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وفات کے بعد 23 اگست 634ء مطابق 22 جمادی الثانی 13ھ خلیفہ مقرر ہوئے۔آپ کا شمار علماء و زاہدین صحابہؓ میں ہوتا ہے۔اور اسلام کے لیے آپ کی بےپناہ قربانیاں ہیں۔جسے امت اتنی آسانی سے فراموش نہیں کرسکتے ہے۔شروع میں آپ اسلام کے خلاف تھے۔لیکن ایک دن اللہ کے نبی حضرت محمدصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے رب سے دعا کی یااللہ ابوجہل یا حضرت عمرؓ میں سے ایک کو ہدایت دے۔آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی یہ دعا اللہ تعالی نے قبول کیا۔اور حضرت عمرفاروقؓ کو اسلام کے نور سے منور کیا۔آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو ایک قوت ایک طاقت مل گئی۔آپؓ جب سے مشرف بااسلام ہوئے۔اُس دن کے بعد مسلمانوں نے نماز مسجد نبی میں کھلم کھلا ادا کرنا شروع کیا۔ آپؓ کے پیدائش ۵٨ءمکہ میں ہوئی۔ آپ اُن چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ علم انساب، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری میں آپ طاق تھے۔
آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے فرمایا”میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔”عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے”اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمرؓ کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمرؓ کا پلڑا بھاری ہوگا”حضرت علی مرتضیؓ سے روایت ہے” عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و امین ہیں۔آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ایک اور جگہ میں فرماتے ہیں” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔”
آپ مندرجہ زیل غزوات میں شریک رہے ہیں۔
غزوہ بدر،غزوہ احد، غزوہ خندق،غزوہ صلح حدیبیہ اور بیعت الرضوان،حجۃ الوداع،غزوہ تبوک،غزوہ حنین،غزوہ خیبر،فتح مکہ
عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ فرمائے کرتے تھے” دریائے دجلہ کے کنارے پر کوئی کتا اگر پیاسا مرجائے تو عمر کو کل اُس کا حساب دینا پڑےگا۔ آپ اکثر راتوں کو چھپ کر گشت کیا کرتے تھے۔ کہ کوئی بھوکا تو نہیں سورہا ہے۔

حضرت عمرؓ کے کارناموں کو بیان کرنے کے لیے علم وفہم کی ضرورت ہے. جس کی تعریف اللہ کے حیب صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم خود کرے تو اُس کی تعریف ہم کیا کرسکتے ہیں۔پھر بھی چند چند طالب علمانہ گزارشات پیش خدمت ہیں.
آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فرماتے ہیں” جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکرؓ و عمرؓ میرے دو زمینی وزیر ہیں۔ایک اور جگہ میں فرماتے ہیں” اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتا ہے۔”علیؓ سے روایت ہے”کہ أن عمر لیقول القول فینزل القرآن بتصدیقہ”بیشک عمر فاروق البتہ جب کچھ کہتے ہیں تو قرآن اُن کی بات کی تصدیق کے لیے نازل ہوتا ہے”
آپؓ کے دور حکمومت میں کئی علاقے فتح ہوئے آپ نے اپنے دور حکمومت میں اسلام کا جھنڈا ساسانی سلطنت تک لہرایا۔یہی ریاستیں فتح ہوکر بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پھل گیا۔
آپ کا نام و نسب یوں ہے. عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔ جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
آپ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام ہے۔ایک مجوسی ابو لولو فیروز نے آپ پر فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں خنجر سے حملہ کیا اور تین جگہ وار کیے۔ آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔اور آج تک آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے قدم میں آرام فرمارہے ہیں.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button