کالمز

ہماری ثقافت

تحریر: کریم مدد

جو ناقص الایمان اور عاقبت نااندیش لوگ رقص و موسیقی کو گلگت بلتستان کی ثقافت سمجھتے ہیں اُن کے غدار, جاہل اور دین سے بے بہرہ ہونے میں کوئی امر مانع نہیں. وہ جانتے ہی نہیں کہ گلگت کی اصل ثقافت کے خدو خال کیا ہیں… انھوں نے اپنی بے ہودہ زندگی کا ابتدائی حصہ کسی دیسی روشن خیال گھرانے میں گزارا ہوگا جہاں والدین تربیت کے نام پہ بچوں کو آزاد خیالی کی تعلیم دیتے ہیں, خوفزدہ کرنے کی بجائے دوستی کا رویہ رکھتے ہیں. پھر کافروں کے حرام پیسوں سے چلنے والے کسی سکول سے جدید ابلیسی تعلیم کے چند الفاظ سیکھے ہوں گے, تھوڑی بہت سائنسی اور عقلی علوم میں دستگاہ حاصل کی ہوگی. اس کے بعد کسی مخلوط تعلیمی ادارے سے بے حیائی اور فحاشی کی کوئی سند حاصل کر لی ہوگی اور پھر اسی سند کے طفیل کسی این جی او میں بظاہر نوکری بباطن ملک و ملت سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہوں گے. اگر این جی او میں نوکری نہ ملی ہو تو کوئی ذاتی کاروبار کر رہے ہوں گے جس کے لیے سرمایہ را, موساد اور سی آئی اے فراہم کر رہی ہو ں گی. یا پھر مملکت خداداد سے فرار کسی دشمن ملک میں یہود و ہنود کے آلہ کار بن کر ملک وملت کے خلاف سازشیں کر رہے ہوں.. ایسے غدارانِ ملک وملت آج منہ اٹھا کے گلگت کی ثقافت پہ بحث کرتے ہیں, یہ دشمنانِ ملک و دین کیا جانیں کہ ہماری عظیم ثقافت کن ستونوں پہ ایستادہ ہے…. احمد فراز سے معذرت کے ساتھ

"بے غیرتا” ! تم کو خبر کیا کہ "ثقافت” کیا ہے

روز آجاتے ہو, سمجھاتے ہو, یوں ہے یوں ہے

یہ ہم جیسے وفادارانِ ملک و ملت اور محافظینِ غیرت و عزت ہستیوں سے پوچھئیے تو ہم بتا دیں کہ ہماری ثقافت کتنی مردانہ اور عظیم ہے.

ہمارا کلچر تو ایک دوسرے پہ کفر کے فتوے لگانا ہے، ایک دوسرے کو گالیاں دینا ہے، علاقے کو مسلکی بنیادوں پہ محلوں میں تقسیم کرنا ہے، ایک دوسرے کے علاقوں میں قدم رکھنے سے ڈرنا ہے، کلاشنکوفوں کے سائے میں نمازیں پڑھنا ہے، مسجدوں اور جماعت خانوں کے سامنے سڑکیں بند کرنا ہے. ایک دوسرے کے ہاتھ کا ذبیحہ نہیں کھانا ہے.

مذہبی, علاقائی اور نسلی بنیادوں پہ سرکاری نوکریاں حاصل کرنا اور پھر خدمات انجام دئیے بغیر تنخواہ پانا اور اپنے ذاتی کاروبار کو چمکانا… فراڈ, دھوکہ اور بدعنوانی کے ذریعے فائدے حاصل کرنا, جعلی بل بنا کے سرکار کے خزانے کو نقصان پہنچانا, بجلی کے بل ادا نہ کرنا, فرقہ, علاقہ اور نسل کی آڑ لے کر من پسند مقامات پہ اپنا تبادلہ کروانا…. یہ سب بھی تو ہماری غیور ثقافت کے معجزے ہی تو ہیں

ہماری مردانہ اور غیرت مند ثقافت کا تقاضا ہے کہ بیٹا کسی کو مارے, کسی کی عزت پہ ہاتھ ڈالے, کسی کو اغوا کر کے ریپ کرے تو یہ بات خاندان کے لیے باعث فخر بن جاتی ہے جب کہ بیٹی کا گھر میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے.  بہن سے دوستی کا رشتہ رکھنے سے بھائی کی حمیت پہ آنچ آجاتی ہے. بیوی کو محض جنس ہی سمجھا جاتا ہے بلکہ ہماری زبان میں ضرب المثل ہے کہ عورت بچھائی جانے والی درّی ہے.

ہماری ثقافت مردوں کو سر عام ازار بند کی نمائش کی اجازت تو دیتی ہے لیکن عورت کے سر سے ڈوپٹہ سرک جائے تو قیامت کی نشانی سمجھتی ہے, مردوں کے لیے جوا, نشہ, زنا, قتل سب غیرت کی نشانیاں لیکن عورت کا کسی کام کے لیے بھی دہلیز پار کرنا بے راہ روی. ہماری ثقافت عورت کو گھر سے سیدھے گور پہنچا دیتی ہے, بیچ میں کوئی پڑاؤ نہیں. اگر کوئی عورت ہمت کر کے گور جانے سے پہلے دنیا کے بازار میں قدم رکھے تو غیور مردوں کی عقابی نظریں کپڑوں میں لپٹے اس کے بدن کو ہر زاویے سے برہنہ کر کے چھو ڑتی ہیں اور اس وقت تک ان کی غیرت کی رال ٹپکتی رہتی ہے جب تک عورت حدِ نگاہ سے باہر نہیں جاتی..

ہمارا کلچر ہم کو غصہ سکھاتا ہے جب ہمارا سامنا کسی کمزور شخص سے ہو.. جب ہماری مڈ بھیڑ کسی طاقتور سے ہوتی ہے تو اس کی چاپلوسی کرنا ہمارے کلچر کا حصہ ہے. یہ کلچر خوف سکھاتا ہے, نفرت سکھاتا ہے اور بات بات پہ غلیظ گالیاں دینا سکھاتا ہے… معصوم بچوں کا ریپ کر کے ان کو قتل کرنا, بیٹیوں, بہنوں اور بیویوں کو قتل کر کے لاشوں کو جلانا سکھاتا ہے.

یہ ہے وہ مردانہ ثقافت جس کے ہم علمبردار اور امین ہیں. ایسی مردانہ اور غیرت مند ثقافت میں ہنسنا, مسکرانا, ناچنا, گانا اور خوش ہونا جیسی زنانہ اور بے غیرتی پہ مبنی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں.

لہذا جس نے بھی ہماری پاکیزہ و مقدس مردانہ ثقافت میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کی تو وہ کافر ہے, میراثی ہے, غدار ہے اور واجب القتل ہے…

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button