کالمز

ویلنٹائین ڈے 

Karimآج چودہ فروری کو ساری دنیا میں ویلنٹائین ڈے کے نام سے مناتے ہیں پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کچھ منچلے ویلنٹائین ڈے جسے’ یومِ محبت‘ بھی کہاجاتاہے منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ دیسی سقراط اور تہذیب و مذہب کے خودساختہ ٹھیکدار دور کی کوڑی لاکر ویلنٹائین ڈے کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ اس دن کے منانے والوں پر تشددبھی ہوتا ہے۔ ویلنٹائین ڈے کی ابتدا اور ان کی تاریخی اہمیت سے متعلق کوئی تسلی بخش لٹریچر موجود نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ آج یہ ایک بین الاقوامی اہمیت کے حامل تہوار کی صورت اختیارکرچکی ہے جو دنیا کے گوشے گوشے میں منایا جاتا ہے ۔ تاریخ عالم پر سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں انہی تہذیبوں کا طوطی بولتا ہے جو طاقتور ہو۔ ایک دور تھا جب عرب وفارس کی تہذیب علم وفن اور سائنس وٹیکنالوجی میں بلند مقام پر فائزتھی ۔تو پوری دنیا کے لوگ عربی وفارسی زبان سیکھنے اور انہی ثقافتوں کو اپنا کر فخر محسوس کرتے تھے کیونکہ اس دور میں انہی تہذیبوں کی علمی کنٹری بیوشن تھی۔ اصفہان، بغداد،دمشق، استنبول، قاہرہ ،بخارا وغیرہ دنیا کے قیمتی شہر ہواکرتے تھے اب جبکہ ہم خود کو علم وعمل اور سائنس وٹیکنالوجی سے دوبھگادیا ہے تو مغرب کی تہذیب علمی میدان میں آگے نکلی آج ہرجانب اسی تہذیب کا چرچا ہے جبکہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس تہذیب کو اپنا نا پڑ رہا ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرااَپشن موجود نہیں۔اسکے علاوہ سائنس وٹیکنالوجی کی بے انتہا ترقی نے دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں ’گلوبل ویلج‘ میں تبدیل کر دیا ہے جسکی بنا پر علم، ادب ،زبان یا تہذیب وثقافت پرمخصوص جغرافیائی قوم کی اجارہ داری نہیں رہی شرط یہ کہ اگر قومین وقت کے تقاضوں سے خود کوہم آہنگ کریں ۔

مثلاََ ’نوروز‘ فارسی تہذیب کا ایک تہوار ہے جسے موجود ہ دور میں اقوام متحدہ نے بین الاقوامی تہوارکے طورپر تسلیم کیا ہے کینڈین پارلیمنٹ نے 2010ء میں ایک بل پاس کرکے’ نوروز‘ کو قومی تہواروں کی فہرست میں شامل کردیااور ہر سال 21مارچ کو’ نوروز‘ انٹرنیشنل ڈے کے طورپر منایا جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تہواروں کا کوئی مذہب یا مخصوص جغرافیہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ہزاروں سال کی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ اسے مذہبی لبادہ پہنانے کے بجائے تہوار ہی رکھا جائے تب ہی دنیا میں مقام حاصل کرسکتے ہیں اگر ہم اپنی ثقافت وتمدن کو آل سعود کی بھنت نہ چڑھاچکے ہوتے تو شائد ویلنٹائین ڈے پر اتنا سیخ پا نہ ہوتے ۔ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ویلنٹائین سمیت کسی بھی دن /ڈے کومنانے کے سرے سے خلاف ہے ان کاموقف بھی بڑامنطقی ہے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ مغرب میں فیملی نظام انتشار کا شکارہے والدین کو یہ پتہ نہیں کہ ان کی اولاد کو ن ہے جبکہ اولاد اپنی والدین سے بھاگتے ہیں جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انہیں اولڈ ہاؤس میں بھیج دیاجاتاہے ۔ سال میں ایک دن ان کے نام منسوب کرکے انہی اولڈ ہاؤسز میں ان سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں ایک مضبوط فیملی نظام موجودہے پھر مغر ب کی دیکھا دیکھی ہم کیوں دن جیسے یوم والدین، فادرڈے،مادرڈے وغیرہ منائے ۔حالانکہ ہم ہر وقت اپنے والدین کے پاس ہی ہوتے ہیں ویلنٹائین ڈے کا نام سنتے ہی ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یوں مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

اگر مذہبی جماعتوں کی اس دلیل کو درست بھی مان لیا جائے تب بھی اسمیں اندرونی تضادات غالب نظر آتی ہیں ۔اگر ڈے منانا اتنا ہی برا اور ہماری اقدار کے خلاف ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 14فروری کو جبکہ پوری دنیا ویلنٹائن ڈے مناتی ہے یہاں کچھ لوگوں کو حیا ڈے منانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کیا اسی چودہ فروری کے علاوہ حیا کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؟مسئلہ یہ نہیں کہ ویلنٹائن ڈے ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ۔مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب چند افراد ویلنٹائن ڈے یا نئی سال کی آمد پر خوشی منانے والوں کو بزورطاقت روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بات سادہ سی ہے اگر کسی کو ویلنٹائن ڈے اچھا نہیں لگتا تو پھر وہ اسے نہ منائے کیا ویلنٹائن ڈے منانے والوں نے کسی پر ظلم کیا ہے کہ خواہ مخواہ وہ ان کے ساتھ ملکر ویلنٹائن ڈے منائے۔اگر ایسا نہیں تو پھر چند شدت پسندوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ لوگوں کی ذاتی معاملات پر غیر ضروری دخل اندازی کریں۔اسکے علاوہ ڈے منانا ہی اتنا برا ہے تو پھر ہر سال 14اگست کو یوم آزادی،6ستمبرکو یوم دفاع، 23مارچ کو یومِ پاکستان،5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر،یوم اقبال،قائد ڈے یا پھر 14فروری کو حیا ڈے کیوں منایاجاتاہے ؟کیا ہم سال کے 364دن غلام اور صرف چودہ اگست کو آزاد ہوتے ہیں اگر نہیں توویلنٹائن ڈے منانے کی اتنی شدد سے مخالفت چہ معنی ؟حقیقت یہ ہے کہ مہذب دنیا نے فیصلہ کیا کہ ہر سال ایک مخصوص دن ایک مخصوص ایونٹ کی یا دمیں منایاجائے گاتاکہ وہ ایونٹ لوگوں کی ذہنوں میں زندہ رہے اور اس مخصوص دن اسی ایونٹ کی یاد میں تقریبات ہوتی ہے اخبارات میں تجزئے اور ٹی وی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں یوں بعض تہوار عالمی شہرت حاصل کرتے ہیں جیسے ویلنٹائن ڈے یا نیوائیر ڈے،اسی طرح بہت سارے دن کسی خاض جغرافیائی قوم کے لئے اہم ہوتے ہیں جیسے کسی قوم کی یوم آزادی اور بعض دن کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لئے اہم ہوتے ہیں جیسے بارہ ربع الاول اور عیدین مسلمانوں کے لئے ، محرم اسلام کے ایک خا ص طبقے کے لئے،کرسمس عیسائیوں کے لئے ،دیوالی ہندووں کے لئے ۔لیکن ان کے اثرات کسی نہ کسی طرح معاشرے میں رہنے والے دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں پر بھی پڑتے ہیں جیسے ’نوروز‘ فارسی زرتشتیوں کی تہوار کینڈا میں جبکہ ویلنٹائن ڈے ہمارے معاشرے میں منایا جاتا ہے ۔حرفِ آخر یہ ہے ہم زوال کے اس نہج پر پہنچے ہیں کہ جس شدد کیساتھ ہمارے معاشرے کے کچھ طبقات ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرتے ہیں اگر اتنی مخالفت ستر ہزار پاکستانیوں کے قاتل طالبان کی جاتی تو پھر شائد ہمارے مساحدومنبر اور سکول وبازار آج خود آلود نہ ہوتے ۔

Karim Ullah is a freelance journalist, writer and blogger, he regularly write different articles & blogs on contemporary political and social issues of Pakistan in different Newspapers and Magazines. He did master in Political Science university of Peshawar.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button