جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم خطہ، زمہ دارکون؟
تحریر: محبوب حسین
دور جدید کے تقاضوں کومد نظر رکھ کر اگر سہولیات کی بات کریں یا زکر کریں تو وہ تمام وسائل جن کو بروئے کار لاکر انسان اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہیں۔ چاہئے وہ سہولیات مصنوعی ہو یا قدرتی ان سے بھر پور استفادہ حاصل کرنے کی لگن میں رہتا ہیے۔
جب قدرتی سہولیات یا وسائل کی بات کریں تو ان میں پانی، ہوا، ماحول،معدنیات، وغیرہ شامل ہیں۔ اور انہی وسائل کو زیر استعمال کرکے انسان اپنی سہولیات کاحل تلاش کرتا ہے اور انسان کا دارومدار ان پر بہت زیادہ ہوتا ہیں۔
زمانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر شے میں تغیر وتبدیلی رونما ہوئی ہیں۔ جیسے ذبان، کلچر، رہن سہن، رسم ورواج، تہزیب و تمدن، تعلیمی نظام میں تبدیلی، ا یہ تبدیلی یا تو مثبت شکل میں ہوئی ہے یا تو منفی شکل میں۔
یہ وسائل اور سہولیات مندرجہ زیل ہیں۔ انفرسٹرکچر کا نظام، ٹرانسپورٹ، کمیونکیش سروسز انفارمیشن سسٹم، ٹیکنالوجی، میڈیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم تاریخ اٹھا کے دیکھے تو انسان کے پاس اتنے سارے سہولیات میسر نہیں تھے جو آج کے اس کے اس سنہرے دور میں دستیاب ہیں۔ انسان کئی میل کا سفر پیدل چل کے اپنی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور اس میں وقت بھی زیادہ لگتا تھا۔ جب اس دور کو اس دور سے موازینہ کروائیں تو بہت واضع فرق نظر آئے گا۔ انسان اپنی سہولیات کو مدنظر رکھ کر جدید طرز کے شاہرائیں۔ سڑکیں، راہداریاں تعمیر کرنے میں محو ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے طور طریقے، آداب ، غوروفکر، بول چال اور تعلیمی نظام میں بھی بہت ہی انقلابی تبدیلی برپا ہوئی ہیں۔ بیک وقت انسان بہت ہی ذبانیں سکیھنے اور بولنے کی مشق بار بار کر رہا ہے۔
اگر آداب، بول چال، ثقافت، یا تعلیمی نظام کی تبدیلی کی بات کریں تو اس میں بھی واضح تبدیلی نظر ائےگی۔ ہم میں سے کوئی بھی فرد اپنی زبان۔ ثقافت میں مکمل نہیں ہیں۔
زندگی تو موسم کی مانند ہے۔ موسموں کی طرح ہر ذی شعور شے میں تبدیلی آئی ہے۔ کچھ تبدیلی رحمت بن کے چھائی ہے تو کچھ زحمت بن کے۔ کچھ ترقی پزیر ممالک آٹھویں جنریشن میں قدم رکھے ہیں تو کچھ ممالک اول جنریشن میں رینگتے ہوئے نظر آئنگے۔
انسانی زندگی میں مختلف ادوار ہو گزرے ہیں مثلا۔ شروع میں انسان کا گزر بسر شکار کے زریعے خوراک کی تلاش میں اپنی بنیادی ضروریات پورا کرتا تھا۔ اسکے بعد کا دور جیسے ایگریکلچر دور کہا جاتا ہے۔ تیسرا دور انڑسٹریل دور چوتھا دور انفارمیشن ٹیکالوجی اور ابھی جو دور ہے اسے ریلیشنشیب دور (relationship era ) دور تصور کرتے ہیں اور یہ بات درست اور واضح بھی ہیں کیونکہ جن ممالک کے اپس کے تعلقات اور روابطے بہتر ہے وہ ممالک ترقی پہ گامزن ہیں۔ اور دوسرے ممالک کے لیے مثال یا رولماڑل سمجھے جاتے ہیں۔
اگر سہولیات ہمارے پاس ہونے کے باوجود بھی ان وسائل سے قاصر ہے تو سمجھ لینا کہ ہم پھر پتھر کی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں قدرتی وسائل اور سہولیات کی بات کریں تو قدرت نے ہمیں وہ سارے وسائل نعمتوں کی شکل میں عطا کیں ہیں لیکن ان قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے وہ قوت ہمارے پاس میسر نہیں ہیں۔ پانی ہمارے پاس وفر مقدار میں موجود ہیں لیکن اس سے چلنے والے پن بجلی کے کارخانے برائے نام موجود ہیں جو اپنی موجودگی کو ظاہر کر رہے ہیں۔
پہاڈوں میں چھپی ہوئی معدنیات ماہرین کا توجہ اپنی طرف مرکوز رکھے ہوہے ہیں۔
قدرتی وسائل سے ملامال خطہ بدقسمتی سے مسائل میں گیرا ہوا ہے۔
انفاسڑرکچر کا نظام اور مواصلاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ سڑکیں اور مین شاہرائیں کھنڑرات میں تبدیل ہوئے ہیں۔ دور جدید کے جو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کوئی بھی پبلیک لائبرئری اگر ہے تو بھی برئے نام۔
پبلیک پارکس، میوزمز، چھڑیاں گھر، اور دوسرے وہ تمام سہولیات جو میرے پاک وطن میں دوسرے صوبوں کو میسر اور دستیاب ہیں میرے گلگت بلتستان میں انکا نام و نشان تک موجود نہیں ہیں۔
کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت سارے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جیسے معلومات میں اضافہ۔ فاصلوں میں کمی۔ رشتوں میں نزریگی بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح یہاں پہ بھی بہت سارے نیٹ ورکس اپنے سروسز دے رہے ہیں۔ جن میں ٹیلی نار، زونگ،یوفون، واریت، سپیسشل کمیونیکیشن سروس(SCOM ) جیز وغیرہ شامل ہیں۔
سپیشل کمیونیکیشن سووس جو کہ فورتھ جنریشن(4G ) سووس کا لائسنس لیکے پہلے نمبر پر ہے۔ پورے گلگت بلتستان کے ضلعوں میں اپنی سروس مہیاں کر رہی ہیں۔ اگر ہم اس سروس کو ترقی پزیر ممالک کے نیٹ ورک سروسز کے ساتھ موازینہ کریں تو آسمان زمیں کا فرق ہیں۔ اور کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہیں اپ خود بہتر جانتے ہیں۔
مجھے شکوہ موجودہ گلگت بلتستان کی گورئمنٹ سے ہے۔ عوام نے اپنا حق دے کر اپنے ضمیر کا سودا کر کے اپنے اوپر راج کرنے کا حق تو دیا ہے۔ عوام نے اپ پے بھروسہ کر کے اگے گیا ہے تو یہ آپ معزز نمائندوں کا فرض اور زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کا بنیادی حق اور انکا اجتماعی کام بر وقت کیا جائے اور جدید سہولیات مختلف سر کاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کے سہولیات بر وقت مہیا کریں۔
خدا را ! اس نادر موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ میرے اس دیس میں بھی وہ جدید سہولیات دستیاب کروائیں۔ سہولیات انسانوں کے لیے بنائے ہیں نہ کے برائے نام۔ عوام کو انکا بنیادی حق دینا منتخب نمائندوں اور گورئمنٹ کا فرض اور زمہ داری ہیں نہ کہ قرض۔
سہولیات ہمارے پاس ہونے کے باوجود بھی اگر ہم ان سہولیات سے استعفادہ حاصل نہیں کر رہے تو ہمارے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں قدرتی وسائل تو بہت سارے ہیں لیکن ان قدرتی وسائل کو سہولیات میں تبدیل کرنے کےلیے کوئی بھی تجربہ کار نمائندے موجود نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو بھی اس نیت اور خلوص سےکام نہیں کر رہے ہیں جو ہمیں اور بڑے عہدے والے نمائندوں کو کرنی چاہے۔
سرکاری اور غیر سرکاری ادارے تو کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم سرکاری اداروں کی کارکردگی پہ بات کریں تو جگہ جگہ ہمیں سرکاری محلات کی شکل میں بڑے بڑے (buildings ) جوبصورت اسٹریکچر اور وی ائی پیز مشینوں اور گاڑیوں سے لیس نظر آئنگے بدقسمتی سے ان اداروں کی کارکردگی اور کارنامے زیرو ہیں۔