کالمز

ماسین پی غُوٹ ……. کبھی کبھی

اشرف حسین اشرفؔ
ahashraf07@gmail.com

شہر سے باہر جاتے ہوئے پرانے کھنڈرات کے پاس سے سوکھے درخت کی دیمک زدہ شاخ کی طرح جو ٹوٹی پھوٹی سڑک نکلتی ہے وہ ایک طلسماتی گاؤں میں جاکر ختم ہوتی ہے۔ یہ گاوں پری لونگماکہلاتا ہے۔ گاؤں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کبھی یہاں پریوں کا بسیرا ہوا کرتا تھا۔

آج بھی دور دور تک یہ بات مشہور ہے کہ یہ ایک خوبصورت گھاٹی تھی جہاں کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتاتھا۔ اس کو دیکھتے ہی جنت کا گمان ہونے لگتا تھا۔ ہری نرم گھاس ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ رنگ برنگ اور خوشبووں سے بھرے پھول جابجا کھلے ہوئے تھے اور ان پہ دیوانہ وار گھومتی رنگ برنگ تتلیاں ماحول کو جادو اثر بنا تی تھیں۔ جھرنے مدھر گیت گاتے جبکہ جھیل کے پانی پہ آسمان کا عکس جھوم جھوم کرالگ سماں باندھ دیتا۔پانی اس قدر شیریں اور صاف تھا کہ گویا آب ِ حیات ہو۔ غرض ایک جادو تھا جو یہاں آنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا۔

یہاں سے کچھ فاصلے پہ موجود گاوں کے چرواہے اپنی بھیڑ بکریاں یہاں چرانے لاتے۔انہی چرواہوں کی زبانی پریوں کی موجودگی کے متعدد واقعات مشہور ہوگئے تھے۔ ان چرواہوں نے پریوں کو یہاں آتے، دودھ کی نہروں میں نہاتے، گاتے رقص کرتے اور شرارتیں کرتے دیکھا تھا۔ ان پریوں کا رنگ و روپ، قدوقامت اور حسن و جمال ایسا تھا کہ بیان کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے تھے۔

چرواہوں کی رس بھری باتیں سن کر بہت سے آشفتہ سر رضاکارانہ طور پر چرواہوں کے ساتھ مشکل اور طویل راستہ طے کرکے پریوں کی گھاٹی تک جاتے اور کئی کئی دنوں تک پریوں کو ایک نظر دیکھنے کی حسرت میں خجل ہوتے۔انہیں پریاں دکھائی تو نہ دیتیں لیکن اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے وہ ایسی ایس کہانیاں گھڑتے کہ گاوں کے منچلے انہیں سن کر بے چین ہوجاتے اور اگلے دنوں میں رضاکارانہ چرواہے بن جاتے۔یوں چرواہوں کو بلامعاوضہ مزدور ہاتھ آجاتے۔

وقت بدلاگاوں کو شہر نے نگل لیا اور ہرے بھرے درختوں کی جگہ کنکریٹ کا جنگل اگ آیا۔کھیتی باڑی اور گلہ بانی کے پیشے قصہ پارینہ بن گئے۔پریوں کی گھاٹی انسانی قدموں سے محروم ہوگئی۔بعد مدت کے خانہ بدوشوں کا ایک قافلہ شہر شہر کی خاک چھانتا وہاں آن رکا۔ گھاٹی نے ان کے دلوں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور انہوں نے خاک نوردی کی خاندانی روایت کو ترک کرکے یہیں مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ جب خیمے موسم کی شدتوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو پتھروں اور چکنی مٹی کے گھر تعمیر ہوگئے۔نئے شہر کی وسعت اور وحشت سے گھبرائے ہوئے کچھ لوگ بھی یہاں آگئے اور دھیرے دھیرے ایک جیتا جاگتا گاوں پھلنے پھولنے لگا۔

نہ جانے پریوں کے ساتھ کیا ہوا لیکن عرصہ گزرنے کے باوجود اس گاؤں کو پریوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ گاؤں کے لوگ اسے پرستان کا حصہ بتلاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب پریوں کے ساتھ ساتھ دیو،جن،بھوت کی کہانیاں بھی مشہور ہوگئی ہیں۔لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ شام ہونے سے پہلے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔وہ تنہا سفر بھی نہیں کرتے۔ راتوں کو گھروں سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک انجانا خوف انہیں ہر وقت گھیرے رہتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ گاؤں کے باہر اخروٹ کے بڑے درخت کے آس پاس چاندنی راتوں میں پریاں اترتی ہیں اور اپنا مسکن چھن جانے پر احتجاج کرتی ہیں۔ اس دوران وہ غصے سے چیختی چلاتی ہیں اور غضب بھرا رقص کرتی ہیں۔ گاؤں کے نشیب میں بہتے نالے کے کنارے بڑے بڑے پتھروں پہ چڑیلیں اپنی محفل لگائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ دیو بچوں کو اٹھا کرلے جاتے ہیں۔ غرض قدم قدم پہ دکھائی نہ دینے والی مخلوق کا خوف لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔

اس ڈر اور خوف نے کچھ لوگوں کے لیے کاروبار کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دم درود اور جھاڑ پھونک سے وابستہ لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس خوف میں اضافے اور مختلف واقعات کو عام کرنے کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے۔ جانے غیر مرئی مخلوق کا خوف ہے یا کچھ اور کہ گاؤں کے لوگوں کا دین کی طرف رجحان زیادہ ہے۔ ہر بچے کے گلے میں مختلف رنگوں کے تعویذ لٹک رہے ہوتے ہیں۔جہاں لوگ پریوں‘ جنوں‘ بھوتوں سے ڈرتے ہیں وہیں ایک دوسرے کا خوف بھی انہیں کھائے جاتا ہے۔ نظر ِ بد‘ جادو اور تعویذ گھول کر پلا دینے کا خوف ہمیشہ ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔ اسی شک کی بنا پر وہ آپس میں دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ ان پر جو بھی مشکلات آتی ہیں ان کے پس منظر میں انہیں جادو،نظرِ بد،پریوں کا سایہ یا جنات کا دخل جسیے عوامل دکھائی دیتے ہیں۔

ان توہمات کے علاوہ کوئی سفر درپیش ہو،علاج معالجے کا ارادہ ہو،بچوں کا امتحان ہو،رشتے طے کرنے ہوں،گھر تعمیر کرنا ہو غرض کوئی بھی کام کرنا ہو اس کے لیے پہلے کسی عامل سے رجوع کیا جاتا ہے۔ گاؤں والے اپنے ہی خول میں بند ہیں حالانکہ کیبل کی نشریات بلا تعطل دیکھی جاتی ہیں لیکن ٹی وی پہ نظر آنے والی مخلوق کو ان کی طرح کا انسان خیال نہیں کیا جاتا بلکہ لاشعوری طور پر وہ اپنے آپ کو انسانوں کی الگ قسم تسلیم کرچکے ہیں جن کی زندگی کا محور مافوق الفطرت مخلوقات اور جھاڑ پھونک ہے۔

اسی گاؤں میں ماسین نامی شخص بھی رہتا تھا۔اس کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے لیکن اسے اولاد کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ مختلف درگاہوں میں نذرانے چڑھانے‘ عاملوں سے دم درود کروانے اورصدقہ خیرات کے بعد اب کے اس کی بیوی حاملہ تھی۔ خوراک کے نہ ہونے اور گھریلو کاموں کی زیادتی کے باعث وہ حد سے زیادہ کمزور ہوچکی تھی۔ وہ بار بار چکرا کر گر پڑتی۔ ایک عامل سے اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو اس نے اپنے مخصوص طریقے سے معلوم کیا کہ خاتون پہ کوئی اثر ہے۔ اس نے کچھ تعویذ لکھ کردیے، ایک مہینے تک دعائیں تجویز کیں اور کھٹی،بادی اور ترش اشیا کے استعمال سے منع کیا۔ خاتون بیچاری پہلے ہی خوراک کی کمی کا شکار تھی‘ اس نئی پابندی کے باعث اس کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ اسی عالم میں دن گزرتے رہے۔ ماسین رو رو کر اللہ کے حضور دعائیں مانگتا رہا اور عامل کی ضروریات پوری کرتا رہا۔ خاتون درد ِ زہ میں مبتلا ہوئی۔ ماسین کا خیال تھا کہ اس کی بیوی اس تکلیف کو سہہ نہیں پائے گی اور اللہ کو پیاری ہوجائے گی لیکن معجزہ ہوگیا‘ زچہ بچہ دونوں سلامت رہے۔ ماسین نے بچے کو گود میں اٹھایا۔بچہ اتنا کمزور تھا کہ اس سے رویا بھی نہیں جارہا تھا۔ ماسین نے بچے کے کان میں اذان دی اور پہلے سے تیارہ شدہ نظر ِ بد اور جادو سے بچاو کا تعویذ بچے کے گلے میں ڈال دیا۔

چند ہی دنوں بعد میاں بیوی پہ انکشاف ہوا کہ بچہ سننے اور بولنے سے معذور ہے۔ اس دفعہ عامل نے بتایا کہ جس روز ماسین کی بیوی بڑے اخروٹ کے درخت کے پاس گھاس کے بوجھ کے زیادہ وزن کی وجہ سے چکرا کرگر پڑی تھی اس وقت وہاں نیلی پری اپنے بال سنوار رہی تھی۔ نیلی پری کو غصہ آیا تو اس نے اپنی طاقت سے خاتون کے پیٹ میں موجود بچے کی بولنے اور سننے کی صلاحیت چھین لی تھی۔ اب مشکل یہ ہے کہ نیلی پری کو پھر پرستان سے بلاکر معافی مانگنی پڑے گی اور اس کے مطالبے پورے کرنے پڑیں گے۔یہ بات گاؤں میں مشہور ہوگئی اور لوگ نیلی پری سے خوف کھانے لگے۔ نومولود کو ”غُوٹ“ (گونگا بہرا)کے نام سے پکارا جانے لگا اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ ماسین پی غوٹ کے نام سے مشہور ہوگیا۔کئی سال تک غوٹ کی صلاحیتیں واپس لانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن نیلی پری کی ”ضد“ ختم نہ ہوسکی۔ اسی دوران ماسین کے ہاں ایک اور بیٹا پیدا ہوا۔ اس بچے میں کوئی پیدائشی نقص نہیں تھا۔اس بچے کی پیدائش کے بعد غوٹ والدین کے پیار سے بھی محروم ہوگیا۔اس کے حصے کا پیار بھی نئے بیٹے کو ملنے لگا اس طرح دھیرے دھیرے بیچارا غوٹ محرومی اور استحصال کی زنجیروں میں بندھتا چلا گیا۔

جوں جوں غوٹ بڑا ہوتا گیا گھر کے کام کاج کی ذمہ داریاں اس کے حوالے ہوتی چلی گئیں۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس سے کام لینے لگے۔گھر کا جھوٹا کھانا اسے ملتا‘ پھٹے پرانے کپڑے اس کے حصے میں آتے۔والدین کے انتقال کے بعد تو اس کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔ اسے چرواہا بنا دیا گیا۔ وہ علی الصبح بھیڑ بکریوں کے ساتھ پہاڑوں کی طرف چلا جاتا۔ شام کو واپس آتے ہوئے گھاس یا لکڑیوں کا ایک بڑا بوجھ اس کی پشت پر ہوتا۔ تھک ہار کر جب وہ گھر پہنچتا تو کچھ کام وہاں بھی اس کے منتظر ہوتے۔ وہ بلامعاوضہ نوکر بن چکا تھااور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو مقدر سمجھ کر چپ تھا۔

(جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button