کالمز

طفیل کی شہادت اور پروفیسر سید جلال کا حوصلہ

پروفیسر سید عبدالجلال صاحب میرے جگری دوست ہیں. میرے ہم خیال ہیں. مجھ پر اعتماد بھی کرتے اور مجھ سے محبت بھی. آج سویرے جب ان کے جواں سال اور سب سے چھوٹے بیٹے طفیل کی شہادت کی خبر سنی تو دیر تک سکتے میں رہا… پھر پروفیسر صاحب کو فون کیا تو انتہائی کنفییڈنس کیساتھ پروفیسر نے وعلیکم السلام بھی کہا اور خیریت پوچھنے لگے تو بے ساختہ میرے آنسو نکلے اور ہچکی بندھ گئی. میں چاہتے ہوئے بھی آواز نہ نکال سکا.اور لائن کٹ گئی. کافی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو مولانا صاحب نے دورباہ حوصلے کیساتھ بات کی اور تمام تفصیل بتا دی. انا اللہ وانا الیہ راجعون.

میں طفیل کو اس وقت سے جانتا جب یہ بچہ آرمی پبلک سکول گلگت میں پڑھتا تھا. کئی دفعہ اس کو موٹر پر سکول تک چھوڑ بھی دیا راستے سے. اور دسویں دفعہ پروفیسر جلال صاحب کالج جاتے ہوئے اپنی گاڑی میں مجھے بھی پک کرتے. تب گاڑی میں طفیل بھی ہوتا. یہ جوان انتہائی باصلاحیت ہونے کیساتھ خوبصورت اور وجہیہ بھی تھا.طفیل الرحمان اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں Bs اکنامکس کا طالب علم تھا.پروفیسر صاحب کا دوسرا بیٹا عتیق الرحمان میرا شاگرد ہے.بڑا بیٹا محبوب صاحب ڈاکٹر ہیں. جب بھی گھر جاتا تو دونوں بھائیوں میں ایک اکثر موجود ہوتا.وہ میرے اور اپنے والد گرامی کے لیے چائے اور کھانے پینے کی سروسز دیتے.کھبی ڈاکٹر کا بیٹا یعنی جلال صاحب کا پوتا یہ سروسز دیتا.
یہ لوگ بنیادی طور پر شریف النفس، ملنسار اور خدمت گار اور مہمان نواز بھی ہیں. ضلع غذر کا خمیر ہی کچھ ایسا ہے. پھر مولانا جلال صاحب سر تا پا استاد ہی استاد ہیں. شیخ الحدیث مولانا  عبدالحق سے حدیث اور شیخ القرآن غلام اللہ خان سے علم تفسیر حاصل کی. اپنے اساتذہ کے بہت ہی قدردان تھے. مجھے تین گھنٹے کا انٹرویو دیا جس میں اساتذہ کی محبت جھلک رہی تھی. پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت سے ریٹائرڈ ہونےکے بعد  میری گزارش اور خواہش پر جامعہ نصرۃ الاسلام میں حدیث، فقہ اور ادب کی کتب بغیر کسی معاوضے کے پڑھا رہے ہیں.
مولانا جلال صاحب کو  واقعی اللہ نے صبر اور برداشت کا مادہ عنایت کیا ہے ورنا اتنے لارڈلے بیٹے کی جواں سالی میں شہادت پر کوئی باپ حوصلہ کرسکتا ہے اور ایسی تحریر لکھ سکتا ہے. مولانا پروفیسر جلال صاحب نے اپنی وال سے جو پیغام شیئر کیا ہے ملاحظہ کیجے. لکھتے ہیں:
"آج بروز جمعرات بتاریخ 12 دسمبر 2019 کو لادینیت کے پرچارک طلبہ کے غنڈوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ،،کتاب میلہ ،،پروگرام کے اختتامی نشست کے موقعے پر اچانک مسلح حملہ کر کے میرے سب سے چھوٹے ،والدین اور بہن بھائیوں کے ،،دلارے ،،پیارے سید طفیل الرحمن ھاشمی کو ،،شھید ،،اور دوسرے متعدد طلبہ کو شدید زخمی کردیا ۔میں اسلام آباد سے دور ،،گلگت ،،میں اپنے پیارے کی شھادت کی خبر تقریباً ساڑھے نو بجے فیسبک میں دیکھ لیا  اور اپنے اوسان پر مکمّل قابو رکھتے ہوئے انا للہ واناالیہ راجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی ۔
میں اپنے لاڈلے بیٹے کی شھادت کا اپنے مرشد سید مودودی رح کے اتباع میں اللہ تعالی کے ھاں ایف ۔آئی آر درج کرتے ہوئے اللہ تعالی ھی کے حضور درج کر رھا ھوں ۔اللہ تعالی خود ان سفاک ،ظالم قاتلوں سے نمٹے ،،انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ ۔۔
میں جماعت اور جمعیت کے دوستوں اور سر براھان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔جنھوں نے ٹیلیفونک رابطہ کرکے مجھے تسلیوں اور دعاؤں سے نوازا ۔ان میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے جماعتی اور جمعیتی اعلیٰ قیادتیں شامل ھیں  ۔جزاھم اللہ خیرا
کل صبح ،دس بجے محترم سراج الحق صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا ھونے کے بعد ،،شھید ،،کی جسدِ خاکی پہلے گلگت اور پھر میرے گاؤں پکورہ تحصیل اشکومن بھیجا جائے گا ۔ ۔اللہ تعالی ھم سب کو ،،صبر کی ،،تو فیق عطا فرمائے آمین ؟(احباب تعزیت کیلئے میرے گلگت والے گھر آنے کی زحمت نہ کریں ۔کیوں کہ ھم لوگ صبح سات بجے گاؤں روانہ ھونگے ۔”
جلال صاحب! میں آپ کے حوصلے کو سیلوٹ کرتا ہوں. اور اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ سب کو صبر جمیل دے اور طفیل الرحمان ہاشمی کا نعم البدل دے. اور اپنے دربار میں ان کی شہادت قبول کرے. آمین

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button