کالمز

ڈائمنڈ جوبلی سکولز کا اجرا ء اور یاسین

یاسین  (یسن) میں پہلا سکول 1935میں گورنمنٹ پرائمری سکول تھوداس یاسین میں برٹش انڈیا سرکار نے قائم کیا۔ اس سکول کا پہلا مدرس راجہ محمد ایوب  ولد راجہ میر باز خان تھا۔ مقامی روایات کے مطابق راجہ ایوب ماسٹر چومر کھن کے نام سے مشہور تھے اور یہ بھی شنید ہے کہ وہ بہت سخت قسم کے انسان تھے اور طلباء کی خوب خبر لیتے تھے، یعنی بہت سخت سزا دیتے تھے۔

اول تو اس سکول میں ہر عام انسان کو داخلے کی اجازت نہیں تھی اور اگر کسی کو راجہ کی طرف سے اجازت مل بھی جاتی تو وہ سفید کپڑے یعنی صاف ستھرے کپڑے پہن کر نہیں جا سکتا تھا۔ یہ ‘اعزاز’ صرف ‘شاہی خاندان’ کے افراد کو حاصل تھا۔ صوبیدار فیض آمان جو کہ خوش وقتیہ خاندان سے تھا  ایک دن سفید کپڑے پہن کر سکول گیا۔ راجہ نے اس کو دیکھا تو نہایت غصے کا اظہار کیا اور جب اسے بتایا گیا کہ یہ تو آپ کے خاندان کا ہے اور فلان لال کا بیٹا ہے تو پھر بھی کچھ غصہ نکال کر ہی چپ ہوگیا۔ یہ حال تھا اس زمانے میں سکولوں کا۔  یہ سنی سنائی باتیں  جو سنہ بہ سینہ چلتا آیا ہے۔ (واللہ عالم بالصواب)

جناب حاجی قدرت اللہ بیگ اپنی کتاب ”تاریخ سنٹر جماعت خانہ گلگت“ کے صفحہ نمبر 45 پر ڈی جے سکولوں کے قیام کے بارے میں یو ں رقم طراز ہیں۔ ” یاسین کے حدود میں سکرٹری سید حاجی جان (عبدالسلطان) کی نگہداشت میں جو کہ موکھی جماعت یاسین و ورشگوم مقرر تھے درج ذیل پرائمری سکول قائم ہوے،

نمبر ۱ :  قسمت یاسین میں گندائے، (۲)  منیچی یاسین

(۳) قسمت سلگان میں سندی(۴) برکولتی (۵)ہندور (۶) درکوت

 (۷) قسمت تھوئی کے لئے بمقام حرف (حرپو)  اور (۸) درسکن“

  سنٹر  یاسین  میں سکول کا قیام:  ان سکولوں میں سے یاسین منیچ کے سکول میں شیر امان (زوندرے) پہلا سکول ماسٹر تھا اور بہت عرصہ سکول میں خدمات انجام دیتا  رہا  اور غالباََ اے کے ای ایس پی کے قیام تک وہ معلم رہا. گندائے کے سکول کا پہلا مدرس یا معلم ماسٹر محمد اعظم (سلیمان شاہی خوشوختے)  مورکہ سے تھا لیکن وہ چند سال بعد چھوڑ گئے تھے

 سندی میں سکول کا  اجرا:  صوبیدار  یاقوت  ولد نمبردار بلبل خان کہتے ہیں کہ ایک دن یہ اطلا ع دیا گیا کہ امام سلطان محمد شا ہ کا  فرمان آیا ہے اور یہ کہ جماعت،  جماعت خانے میں جمع ہوں۔ لیکن فرمان پڑھ کر سنانے والا کوئی نہیں ملا تو ایک بندے کو گھوڑا دے کرسنٹر یاسین بھیجا گیا اور اس نے وہاں سے ایک پٹھان کو لایا اور اُس نے فارسی فرمان کو پڑھ کر کھوار میں ترجمعہ کیا، اس واقع کے بعد ا تالیق  بہادر امان شاہ بیگل نے سندی کے تمام معتبرین کوجمع کر کے ان کو بتایا کہ دیکھو آج ہم میں اپنے امام کے فرمان پڑ ھ کر سنانے کے لئے  بندہ نہیں ہے تو آنے والے وقت کے لئے ہمیں سوچنا چاہئے اگر آپ لوگ میرا ساتھ دیں تو ایک ماسٹر مقرر کریں اور بچوں کو پڑھانا شروع کریں تو لوگوں نے کہا کہ فرمان پڑھنے کے لئے بندہ نہ ملا تو سکول ماسٹر کہاں سے لائے، تو اتالیق نے کہا کہ ایک بندہ کچھ پڑھ لکھ کر آیا ہے اور وہ ہے چیکی موجور کا طوطی دشھمن(مولوی طوطی)  جوکہ پہلے اسماعیلی تھا لیکن اس کے والدین مر گئے اور رشتہ داروں  نے تنگ کیا تو بھاگ گیا اور کہیں سے اسلامی تعلیم حاصل کرکے مولوی بن کر آیا ہے وہ عربی، فارسی اور کچھ اردو پڑھائے گا، اس پر لوگوں نے اتالیق کا شکریہ ادا کیا اور جماعت خانے کے لنگر میں طوطی مولوی نے پڑھانہ شروع کیا اور صوبیدار یاقوت کے مطابق  طالب علم ماہوار ایک ایک سیر گندم فیس کے طور پر ادا کرتے تھے ا ور طوطی مولوی سے اردو عربی اور فاسی پڑھتے تھے اور ابتدائی طور پر میں یعنی یاقوت، وزیر بلبل، ماسٹر غوازاور درزی محمد طاہر خان مشہور ڈسپنسر فیض اللہ المعروف ورکر جو کہ ورکر ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھے اور کچھ اور بڑے عمر کے لوگ سندی سے اور دولت جان اور حولدار مقصد مراد  اور ماسٹر شیر طلہ خان، ماسٹر شاہین اور حوالدار  غیچو ہویلتی (سلطان آباد) سے  داخلہ لیا اور ماسٹر طوطی تیسری جماعت تک پڑھاتے تھے اور پھر چوتھی اور پانچویں کے لئے تھوداس یاسین جانا پڑتا تھا اور جو لو گ ماسٹر ایوب کی مار کو برداشت کر سکتے تھے انھوں نے پانچ جماعت پاس کیا اور جب ڈی جے سکولز قائم ہوے تو ان کو نوکریاں مل گئیں اور وہ ماسٹر بن گئے اور کچھ لوگ فوج میں بھرتی ہوگئے۔

صوبیدار یاقوت کا کہنا تھا کہ جن چند لوگوں کا میں نے نام لیا ہے یہ تقریباََ دس پندہ سالہ تھے لیکن بہت سے بڑے بوڑھوں نے بھی پڑھنا شرع کیا تھا۔  یہ طوطی مولوی کی بڑی نیکی ہے کہ اس نے یاسین کے اس گاؤں میں لوگوں کو  زیور علم سے آراستہ کیا اور بعد میں امام سلطان محمد شاہ کی مہربانی سے ڈی جے سکولز قائم ہوے اور سندی کے اس سکول کا پہلا مدرس بھی مولوی طوطی تھا۔ ڈی جے سکول غالباََ  ۶۴۹۱ء یا ۷۴۹۱ ء میں قائم ہوے تو مختلف گاؤں میں سکول قائم کئے گئے  تھے

  سندی کے سکول  میں جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے پہلا سکول ماسٹر طوطی مولوی تھا

   ما سٹر غواز شھمونے سندی کا کہنا ہے کہ ۰۴۹۱ ء میں سندی میں اتالیق بہادر امان شاہ اور معتبرین سندی کے کوششوں سے جماعت خانے کی  لنگر میں طوطی مولوی نے پڑھانا شروع کیا اور طالبعلم ایک ایک سیر گندم ماہوار دیتے تھے، اور ۷۴۹۱ ء میں جب ڈی جے سکول بن گئے تو طوطی مولوی کو وظیفہ مقرر کیا گیا اور ۳۵۹۱ ء میں ان کو یکمشت کچھ رقم ان کی خدمات کے عوض بطور پنشن گلگت سنٹر جماعت کے دفتر بلا کر دیا گیا۔ یہ ان کی اس عظیم خدمت کی اعتراف کا ایک طریقہ تھا۔ماسٹر غواز کا کہنا ہے کہ اُس نے سندی سے تین جماعت  تک پڑھا اور پھر گورنمنٹ پرائمری سکول تھوداس یاسین سے پانچویں پاس کیااُنیس سو سنتالیس 1947 ء  میں درکوت میں سکول قائم کیا گیا تھا اورمیں اُنیس سوترپن میں بطور سکول ماسٹر درکوت گیااور اُنیس سو ستاون 1957  ء  تک وہا ں تدریس کا کام کیااور پھر واپس اپنے گاؤں سندی آیا اور جب ان ڈی جے سکولوں کو آغا خان ایجوکیشن کے سپر ویژن میں دیا گیا اور جدید تعلیم شروع کیا گیا تو ہمیں فارغ کیا گیا،

 بر کولتی میں سکول کا قیام:  برکولتی میں 1947 ء  میں جب ڈی جے  قائم کرنے کی منظوری آئی تو یہاں بھی سکول ماسٹر تعینات کرنے کیلئے پڑھا لکھا انسان نہیں ملا اور جب کسی طرح شہزادہ حاجی  جان صاحب کو پتہ چلا کہ برکولتی کے زوندرے قوم کے  شیلی خان میکی کا ایک صاحبزادہ  شا محمد ناصر خان  گوپس میں اپنے ماموں کے ہاں رہتا ہے اور اس نے گورنمنٹ پرائمری سکول گوپس سے پانچویں جماعت پاس کرلیا ہے تو کہتے ہیں کہ شہزادہ حاجی جان خود گوپس گیا اور پہلے اس سکول ماسٹر سے ملاقات کی اور ناصر کے بارے میں معلومات لیا کہ کیا وہ اس قابل ہے کہ سکول میں پڑھا سکے پھر ناصر کو ساتھ لے کر برکولتی آگیا اور اس طرح ڈی جے پرائمری سکول برکولتی کا قیام عمل  میں لایا گیا جو کہ کھنے بش کے پاس جماعت خانے کے لنگر  (ایک کمرہ)  میں قائم کیا گیا  اور شا محمد ناصر پہلا سکول ماسٹر مقرر ہوا لیکن چند سال بعد بوجہ یہ سکول بند ہوا اور ناصر کا ہندور میں سکول ماسٹر تعینات کیا گیا  یہ  ساری معلومات شا محمد ناصر کی خاندانی ذرایع سے حاصل کی گیئں ہیں ، اور برکولتی میں گورنمنٹ پرائمری سکول قائم ہوا تو ماسٹر میر اعظم جو پہلے ڈی جے سکول میں مدرس تھا اب گورنمنٹ سکول کھنے بش کا ماسٹر مقرر ہوا،  دوسری بار بر کولتی میں میرے یاداشت میں یعنی بہت بعد میں ڈی جے سکول بن گئے اور برکولتی میں گور نمنٹ پرائمری سکول اب بھی قائم ہے  اس سکول سے پانچویں جماعت تک میجر ڈاکٹر فیض امان نے تعلیم حاصل کیا ہے اور ماسٹر میر اعظم جو کہ ڈی جے سکول سے ا صطفیٰ  دے کر اس سکول میں پڑھاتا رہا اور ۰۶ سال کی عمر میں پنشن ہوگیا۔

ہندور میں سکول کا قیام:  بہت سارے لوگوں سے دریافت کیا  لیکن کسی نے مکمل یقین  کے ساتھ کچھ نہیں بتای البتہ ماسٹر نیت امان (خوش وختے) جو کہ ہندور کا باشندہے کا کہنا ہے کہ ہندور میں پہلی مرتبہ 1952 ء  میں پرائمری سکول کا قیام عمل میں لایا گیا اور پہلا ماسٹر شاہ محمد ناصر خان (زوندرے) بر کولتی کا سکول بند ہو نے کی وجہ سے درکوت میں پرھاتے تھے درکوت سے تبادلہ کر کے ہندور لایا گیا  اور چند سال بعد وہ یہاں سے بھی تدر یس کا کام چھوڑ گیا اور اسی اثنا میں ہویلتی موجودہ سلطان آباد سے مڈل سکشن کو اٹھا کر ہندور لایا گیا لیکن بدقسمتی سے اس کو نہیں چلایا جا سکا اور ماسٹر میر اعظم چھوڑ کر گورنمنٹ سکول بر کولتی چلا گیا اور شہزادہ سید فضل حسن اور مشنری حسن بھی چھوڑ گئے  اور ماسٹر شاہین (غلغوے) سلطان آباد  والے رہ گئے لیکن وہ آخروٹ کے درخت سے گر کر معزور ہو گئے اور   1960 میں مجھے یعنی نیت امان کو معلم مقرر کیا گیا اور میں AKESP   کی قیام کے بعد ریٹائرڈ ہو گیا۔

 درکوت میں سکول کا قیام:  ماسٹر نائب خان درکوت کے مطابق جب درکوت میں 1947  میں سکول قائم کیا گیاتو پڑھانے کے لئے کوئی شخص نہیں ملاتو شہزادہ  عبدلسطان المعرو ف حاجی جان شہزادہ نے ہنزہ کا ایک شخص جس کا نام عبادت تھا کو بطور سکول ماسٹر درکوت مقرر کر کے لایا اور اس نے دو یا تین سال پڑھایا تو اس کے بعد برکولتی کے محمد ناصر خان زوندرے  بطور سکول ماسٹر درکوت آیا اور پھر اُنیس سو ترپن میں ماسٹر غواز سندی والا آیا اور اُس نے اُنیس سو ستاون تک پڑھایا اور ستاون میں مجھے سکول ماسٹر مقرر کیا گیااور پھر AKESP   کی وجود  میں آنے کے بعد پرانے خدمت گاروں کو فارغ کیا گیا۔

تھوئی میں سکول کا قیام:  تھوئی حرف یا حرپو  کے سکول میں نو بر امان لال (خوشوختے) پہلا سکول ماسٹر تھا  جو بہت عرصہ تک پڑھاتا رہا ہے،  مرحوم کا ایک بیٹا بابا خان صاحب ایس پی کے عہدے سے پنشن پایا ہے اور درسکن کے سکول میں ماسٹر محمد امین (چونا کوچ بے گلے) پہلا مدرس مقر کیا گیا تھا جو AKESP   کی قیام تک پرھاتا رہا،

  لیکن ۰۸۹۱ء کے عشرے میں ڈی جے سکولوں کو ایک منظم ادارے آغا خان ایجو کیشن سروسز پاکستان(اے۔کے۔ای۔ایس پی) کے ماتحت جدید تعلیم کا  آغاز کیا گیا اور اس ادارے کا گلگت  بلتستان  میں پہلا سربراہ استادوں کا استاد  جناب دادو خان صاحب کو مقرر کیا گیا۔اور پھر ہنزہ، گلگت اور پورے غذر میں سکولوں کا جال بیچھا دیا گیا یہی وجہ ہے کہ ان تینوں اضلا ع میں شرح خاندگی باقی علاقوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔

  لیکن آغا ایجوکیشن سروسز کے ریکارڈز کچھ اور ہی بتاتے ہیں:

  AKESP    کےریکارڈ کے مطابق یاسین میں جوسب سے پہلے سکول قائم ہوے  وہ کچھ اس طرح سے ہے۔

  نمبر 1 :  ڈی جے پرائمری سکول گندائے  (یاسین)1958

  نمبر2 :  ڈی  جے پرائمری سکول سندی (سلگان)     1946

  نمبر 3 :  ڈی  جے پرائمری سکول درکوت (سلگان)  1947

  نمبر  :4  ڈی جے پرائمری سکول سلطان آباد (ہویلتی) (سلگان) 1957

  نمبر  5 :   ڈی جے پرائمری سکول درچ  تھوئی       1957

  نمبر  6:    ڈی جے  پرائمری سکول  درسکن تھوئی   1946

   نمبر7 :   ڈی جے پرائمری  سکول اُملثت (سلگان)1956  ء

  آغا خان ایجوکیشن کی ریکارڈ کے مطابق  برکولتی (سلگان)  میں دو پرائمری سکول بلترتیب  1974  اور 1982 قائم کئے گئے ہیں جب کہ حاجی قدرت اللہ بیگ کی ریکارڈ کے مطابق  1946 – 47   برکولتی اور ہندور میں بھی سکول قائم کئے گئے تھے جب کہ  آغا خان ایجوکیشن کی ریکارڈ میں ہندور میں پرائمری سکول  1972   میں قائم کیا گیا ہے اسی طرح تھوئی حرپ یا حرپو کے سکول آغا خان ایجو کیشن کی        ریکارڈ کے مطابق  1980  جب کہ درچ میں 1957    میں سکول قائم کیا گیا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہزادہ عبدلسلطان المعروف  حاجی جان شہزادہ نے ان سکولوں کو قائم کرنے میں بڑی محنت کی ہے اس زمانے میں پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے انھوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدرسین یا معلیمین لایا اور لوگوں کو بھی موٹیویٹ کرتا رہا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں  لہٰذا  ان کی خدمات سرہنے کی قابل ہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button