کالمز

تھری جی اور آواره نسل

اُس دِن کڑاکے کی سردی تھی ، تیز ہوائیں جسم میں پیوست ہو   رہی تھیں۔ موسمی شدت سے خود کو بچانے کی غرض سے ہم نے  کوٹ، بنیان کے ساتھ دوسرے لوازمات بھی کر رکھیں تھے ، لیکن یہ سب بے سود لگ رہے تھے  ، سردی کی شدت  اِن  سرحدوں کو پھلانگ کر بدستور جسم سے ہوتی ہوئی روح میں سرایت کر رہی تھی اور محسوس یوں ہو رہا تھا کہ شاید ہندوکش کی یخ بستہ ہواؤں کو ہمارے وجود میں ہی ٹھکانہ ملا ہو۔
میں جلدی گھر پہنچنا چاہ رہا تھا ، اس لئے موٹر بائیک کی رفتار معمول سے کچھ زیادہ تھی ، شام کے دھندلکے بھی دِن کی روشنی پر غالب ا چکے تھے۔ دھندلاہٹ کے باعث میری نظریں صرف سڑک پر ہی مرکوز تھیں ، حد نگاه بیس گز تک ہی بمشکل  تھی ، تاہم ابھی تک  ہٹ لائٹ جلانے کی نوبت نہیں ائی تھی۔ یکایک میری نظر سڑک کے بیچوں بیچ ایک چمکتی چیز پر پڑی ، مدہم سی روشنی تقریباً بیس گز کے فاصلے سے نظر ا رہی تھی۔  میں روشنی کے  قریب پہنچ کر بریک مارا ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک موبائل فون  سڑک پر پڑا ہوا  ہے ، جس پر برابر کال ا رہی تھی ، میں نے موبائل فون اٹھایا اور کال ریسیو کرنے کی کوشش کی تو کال کٹ گئی ۔ میں نے یہ سوچ کر موبائل فون اٹھا لیا کہ کسی راہگیر سے گرا ہو گا ، اور تحقیق کے بعد مالک کو لوٹا دوں گا اِس غرض سے موبائل فون جیب میں ڈالا اور اپنی  راہ لی ۔  چار ،پانچ منٹ بعد میں گھر پہنچ گیا۔
گھر پہنچ کر کچھ ہی لمحے گزر چکے تھے کہ دوبارہ کال ائی،  میں نے کال اٹین کی تو کوئی نو عمر لڑکا جس کی عمر بمشکل بارہ تیرہ سال ہو گی، انتہائی اضطراب کے عالم میں بات کر رہا تھا ، مجھ سے دعا سلام کی ، جان پہچان ہو گئی ، لڑکا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا ۔
دوران گفتگو  لڑکے نے بتایا کہ فون اُسکا اپنا ہے ،میں نے اُس  کو اطمينان دلایا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں، صبح میرے گھر ا کے اپنا فون اٹھا لینا ۔
موبائل فون میں نہ پاسورڈ لگا تھا اور نہ ہی پیٹرن ۔
نادانستہ طور پر میں نے جب اُس فون میں موجود  ویڈیوز دیکھنا شروع کی تو کم وبیش سو کے قریب انگريزی فحش ویڈیوکلپ موجود تھے۔
کچھ لمحوں کے لئے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں ہوا، اگلے ہی لمحے ذہين میں سوالات اٹھنا   شروع ہوئے، کہ اتنی کم عمری میں بھی کوئی فحش مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟
اِس سارے عمل میں بچوں سے زیادہ دوش اُن کے والدین کا ہوتا ہے ، جو اپنے بچوں کو مہنگے موبائل ہاتھ میں تھما کر فخر محسوس کرتے ہیں ، وہ اِس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ اُن کی اولاد اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مثبت انداز میں کر بھی رہے ہیں یا کہ نہیں ؟  یہ سوال ہر والد کو اپنے اپ سے کرنا چاہیئے ، اور اپنی اولاد کی نگرانی کو یقینی بنائے تاکہ معاشرے کی ارتقاء موثر انداز میں ہو سکے۔
حالیہ دنوں گلگت بلتستان سمت یاسین میں بھی تھری جی سروس عوام کو مہیا کر دی گئی ہے ، جس کا صحیح استعمال  معلومات تک رسائی کو ممکن بنا سکتا ہے، تاہم اس کا غلط استعمال معاشرے کو انتشار اور تباہی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔
بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہو رہا ہے ۔ آنے والے کچھ وقتوں میں اِنٹرنیٹ کا غلط استعمال معاشرے کی تباہی اور نوجوانوں کی بے راہ روی کے لئے پیش خمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو تھری جی سروسز کی افادیت اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے سمیناز کا انعقاد کرنا چاہیئے ،اِن سمیناز کے زریعے  انٹرنیٹ کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جائے ، تاکہ نوجوان اس ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر کے نہ صرف علمی طور پر ترقی کر سکے بلکہ مختلف طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو معاشی طور پر بھی مستحکم  کر سکے ۔ اِس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد کو اگے آنے کی ضرورت ہو گی ۔ ورنہ معاشرہ جب زبو حالی کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا ،تو پھر کسی کا بھی  شیش محل محفوظ نہیں رہ سکے گا ، اور اِس طوفان کی تیز لہریں سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔پھر ازہان کو درست ڈگر پر ڈالنے میں صدیاں لگے گی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button