زلزلہ اور استور کی حالت زار
تحریر ثروت صبا
گزشتہ دنوں گلگت بلتستان میں وقفے وقفے سے آنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پھیلا بلکہ سب سے متاثرہ علاقوں ڈوعیاں، دیشکین، مشکیں، شلتر، بونجی اور جگلوٹ کے مکین اس شدید سردی میں گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ الحمدُ اللہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر انتہا درجے کا مالی نقصان ہوا۔ افسوس کہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ دو دنوں تک سوئی رہی اور عوام سخت سردی کے رحم وکرم پر پڑے رہے ۔
میں سلام پیش کرتی ہوں پاک فوج کو خصوصاً فورس کمانڈر جن کو اطلاع ملتے ہی عوام کی خدمت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اللہ کی بابرکت ذات کے بعد گلگت بلتستان کی عوام کو پاک فوج کا ہی سہارا ہے۔ ہر مشکل وقت میں گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ کھڑےہو جاتے۔ گلگت بلتستان کا ہر بچہ ہوش سنبھالتے ہی پاک فوج میں بھرتی کے خواب دیکھتااور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے۔ اس کی وجہ پاک فوج کا گلگت بلتستان کے باسیوں سے ہمدردی اور محبت کا نتیجہ ہے۔
موجودہ فورس کمانڈراحسان محمود نفیس طبیعت ، درد دل رکھنے والااور محبتوں کو فروغ دینے والا انسان ہے۔ گلگت بلتستان کے ہر فرد کے دلوں میں بسنے کی وجہ عوام سے محبت ہے۔
وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ صرف بونجی تک جا سکے اور متاثر ترین علاقے کا صرف فضائی دورہ کیا اور کچھ اعلانات بھی کیے۔ اللہ کرے ان اعلانات پر جلد عمل درآمد بھی ہو۔ زیادہ متاثر ہونے والے دوئیاں، ڈشکیں اور شیلتر میں خوراک کی قلت کے ساتھ ساتھ بے گھر ہونے کی وجہ سے بزرگ، بچے اور خواتین مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ پاک فوج نے مسافروں اور مریضوں کے لئے ہیلی سروس دی۔
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان میں آنے والا زلزلہ دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا۔ جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کل ہلاکتیں ۷۴۶۹۸ تھیں۔ یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں آرہا ہے کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زلزلے کے بارے میں لوگوں میں عجیب وغریب آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیو ہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں وہ زلزلے پیدا کرتے ہیں۔ ہندوٴں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب و ہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمین ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ہے، وہ جب حرکت کرتا ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ یہ سب غیر اسلامی نظریات ہیں۔ سائنس دانوں کے نظریات میں اختلاف ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباوٴ کا شکار ہوکر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں نظر تو نہیں آتے لیکن اِن کی وجہ سے سطح زمین پر موجود ہرچیز ڈولنے لگتی ہے۔ لیکن اِس کے بر خلاف اِسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تویہ بات واضح ہے کہ زلزلے کا بنیادی سبب انسان کا بد اعمالیوں پر اصرار ہے اور اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست آزمائش ہے۔ ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ تمھارا رب تم سے ناراض ہے، تم نیکیوں کی جانب متوجہ ہوجا و اپنے روز مرہ کی زندگی پر نظر دوڑائیں، اپنے اعمال کی درستگی کریں۔
موسم کی نزاکت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر میں فورس کمانڈر احسان محمود، گورنر گلگت بلتستان، صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ متاثرہ عوام کے ریلیف کے ساتھ ساتھ کوئی مستقل منصوبہ بندی کی جائے تا کہ روز روز کی پریشانیوں سے عوام کے ساتھ اعلیٰ حکام بھی بچ سکیں۔ دوعیاں، دیشکیں، شالٹر اور مشکیں کے لوگوں کو کوئی متبادل جگہ فراہم کی جائے تا کہ مستقل عوام کو پریشانیوں سے نکالا جا سکے ۔
استور روڈ کی دوبارہ سروے کر کے نئے روڈ میں ٹنلز بنائے جائیں تا کہ قدرتی آفات سے ممکنہ حد تک روڈ بچ سکے۔ تھلیچی پل سے لے کر حرچو تک روڈ کی دوبارہ سے سروے کیا جائے۔ موجودہ روڈ تھلیچی سے هرچوتک مکمل ختم ہے لہٰذا عوام کو بہلایا نہ جائے کوئی مستقل حل نکالیں تا کہ مستقل پریشانیوں سے بچا جا سکے۔