مقامی زبانوں کی اہمیت
تحریر: محبوب حسین
کسی بھی علاقے کی زبان و ثقافت اور تہزیب و تمدن ان کی اصل میراث ہوتے ہیں۔ وہ قومیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں جو اپنی زبان اور ثقافت کو معدوم ہونے سے بچاتی ہیں۔ زبان اگر دیکھا جائے تو ہماری ثقافت کا ایک ہم رکن ہے جو قومیں اپنی زبان بھول جاتے ہیں وہ اپنی تمدن اور ثقافت کھو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں تقریبا سات سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں شینا، بروشسکی، کھوار، بلتی، گجراتی، وخی، وغیرہ شامل ہیں۔ گلگت بلتسان کے تمام دس اضلاع میں اپنی اپنی ثقافتی زبان بولی جاتی ہیں۔ ان میں اگر ہم دیکھے تو بلتستان میں زیادہ تر بلتی اور شینا بولی جاتی ہیں اور سمجھی جاتی ہیں۔ دیامر اور استور میں بھی شینا بولی جاتی ہیں اور انکا اپنا ایک الگ لہجہ ہے جو شروع شروع میں سمجھنا بہت مشکل ہی ہوتا ہے۔ گلگت میں تقریبا تمام زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہنزہ اور نگر میں بروشسکی، وخی اور شینا بولی جاتی ہیں جب کہ غزر کے تمام تحصیلوں میں شینا، کھوار، بروسشکی، گجراتی اور وخی بولی جاتی ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی ثقافتی زبانیں اپنی اصلیت کھو چکی ہیں۔ ان زبانوں کے اندر دوسرے الفاظ کی ملاوٹ نے انکی اصل شرینی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انکی افادیت اور اہمیت میں بھی کمی ہوتی جارہی ہے۔
ہم اپنی ثقافتی زبانیں کیوں بھول رہے ہیں اور ان زبانوں میں جدیدیت کو کیون کر استعمال کر رہے ہیں اسکے پیچھے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں۔ ان میں میڈیا کا کردار کیونکہ ہم میڈیا کے زریعے مختلف چینلز میں مختلف پروگرامز دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے ڈرامے، شعرو شاعری اور ان میں جو کچھ ہو رہا ہو ایک دم ہی ہم اپنے زبان کے اندر شامل کرتے ہیں، اکثر انڈیان ڈروموں کی وجہ سے ہمارا پورا زبان اور ثقافت تبدیل ہوا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے نام انڈیان ڈراموں اور فلموں سے رکھتے ہیں۔ اور ان ڈراموں اور فلموں کا ہمارے زبان اور ثقافت پر بہت برا اثر کر رہا ہے۔ چربہ سازی اور دیگر ہتھکنڑوں کے زریعے بعض نام نہاد شعراء جدیدیت کے نام پر زبانوں کے اصل شناخت کو مجروح کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی الفاظ کی اس ملاوٹ کو روکا جائے اور کوئی ایسا فورم تشکیل دیا جائے جس کے زریعے اس معدوم ہوتی ہوئی زبانوں اور ثقافتوں کو سہارا دیا جائے۔
زبان و ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زبانیں وجود میں آتی رہی ہیں اور بہت جلد بعض زبانیں صفحہ ہستی سے مٹ بھی چکی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس طوفان میں کچھ مقامی زبانیں بڑی بڑی زبانوں کی آمیزش کی وجہ سے اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔ ان میں ہمارے تمام مقامی زبانیں جس میں اکثر بڑی بڑی زبانوں کی آمیزش دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا میں جیتنے بھی قومیں آباد ہیں یا بستے ہیں انکی اپنی اپنی مادری زبانیں ہیں اور انکی اپنی اپنی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ہیں۔ کچھ زبانیں مقامی ہوتے ہیں، کچھ قومی تو کچھ انٹرنیشنل سطح تک انکی اہمیت ہوتی ہیں اور کچھ زبانوں کو ہمیں سمجھنا لازمی بھی ہوا ہے اس دور میں کیونکہ زبان کو ہم کمیونیکیشن کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو ہم تجارت اور لین دین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو ہم ہم دوسرے ممالک کے ساتھ ریلیشنشپ اور روابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان کو ہم ایجوکیشن کے لئے استعمال کرتے ہیں اج کے اس دور میں انگریزی تعلیم اور انگریزی زبان کی اہمیت سب کو بخوبی معلوم ہے دنیا کے تمام چھوٹے بڑے براعظموں میں انگریزی زبان کو درس و تدریس اور خط و کتابت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جتنا بین الااقوامی انگریزی زبان ہمارے لیے لازمی ہے اس سے بڑھ کے ہماری اپنی قومی اور مقامی زبانوں کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ہماری زندگی میں۔
زبان اور ثقافت کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کا ثبوت دیتی ہیں۔ انکو زندہ رکھنا اور انہیں تقویت دینا معاشرے کے ہر فرد کی اولین زمہ داری ہے۔ جن قوموں نے اپنی زبان و ثقافت کو بھلا دیا ہے وہ صفحہ ہستی سے بہت جلد مٹ چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کو اگر ختم کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کی زبان و ثقافت کو ختم کردو تو وہ خودبخود ختم ہو جائے گی۔ میری گزارش موجودہ گورئمنٹ کے منتخب نمائندوں، بیروکریٹس، ایجوکیشنسٹ، ریلیجس اسکالرز، سیاستدان اور تمام نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنی اپنی زبانوں کی بقا اور زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے گلگت بلتستان کے تمام زبانوں کو یہاں کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں باقائدہ طور پڑھایا جائے تاکہ ہماری زبانیں اپنی وجود کھونے سے بچ جائے۔