کالمز
سیکولرازم کا خوف
سیکولرازم پاکستان میں خوف کی علامت ہے لیکن پڑوسی ملک بھارت میں اُمید کی کرن ہے۔اور دونوں باتیں مسلمانوں میں مشہور ہیں۔تاریخ کی بھول بھلیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے یا فلسفے کی موشگافیوں میں اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔بھارت کی34کروڑ مسلمان،اُنکے علماء،خطیب،آئیمہ مساجداورمدارس کے مدار المہام سب ملکرسیکوالرزم کو آزادی کی علامت قراردیتے ہیں جبکہ واہگہ کی سرحد کے اس طرف پاکستان کے مسلمان،ہمارے علماء،ہمارے مشائیخ،ہمارے مذہبی پیشوا سب یک زبان ہوکر سیکولرازم کوبے دینی،کفر،شرک اور دین بیزاری کانام دیتے ہیں۔اگر یہ فرق مراکش اور پاکستان میں ہوتا تو بات سمجھ میں آسکتی تھی۔دونوں ملکوں میں جغرافیہ،تاریخ،ثقافت اور اسلام پھیلنے کی تدریجی مراحل کا نمایاں فرق ہے۔مراکش میں عورت کا ذبیحہ بھی جائز ہے۔عورت کی امامت بھی جائز ہے۔مردوں کی جماعت عورت کی امامت میں نماز اداکرسکتی ہے۔پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں اس کا تصور محال ہے اہل نظر اس بات پر حیران وپریشان ہیں کہ آخر سیکوالرزم کا انگریزی لفظ بھارت اور پاکستان میں الگ الگ مفہوم کیوں رکھتا ہے۔ایک طبقہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق سرد جنگ سے ہے1950ء کے عشرے میں امریکہ نے کمیونزم کے خلاف اپنی جارحانہ مہم کے لئے پاکستان کو منتخب کیا۔بھارت میں امریکی مہم کی اجازت نہیں ملتی۔امریکی مہم کے نتیجے میں جو رسائل،جرائد اور کتابیں شائع ہوتی رہیں۔محراب ومنبر اور سیاسی جلسوں میں جو تقریریں کروائی گئیں۔ان میں کمیونزم اور سوشلزم کے ساتھ ساتھ ”سیکولرازم“کو بھی نشانہ بنایا گیا۔وقت گذرنے کے ساتھ اس پر لبر ل ازم کا اضافہ کیا گیا گویا انگریزی کے دونوں الفاظ گالی بن گئے۔اس بات پر یورپ اور امریکہ کے بعض دانشور اب بھی حیراں ہیں کہ ان بے ضرر الفاظ کو پاکستانی معاشرے میں گالی کا درجہ کیوں دیا گیا؟جولوگ اخبارپڑھتے،ریڈیو سُنتے اور ٹیلی وژن دیکھتے ہیں۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے سالانہ اجتماع میں جید علماء خطاب کرتے ہیں اور اپنی تقریروں میں سامعین سے اس بات کا عہد لیتے ہیں کہ ہماری نجات کا راستہ سیکولرازم ہے۔ہم ہرحال سیکولرازم کا دفاع کرینگے اور اس راہ میں اپنی جانیں قربان کرینگے۔ان کے مقابلے میں واہگہ سرحد کے اس پار دیکھئیے۔یہاں کے جید علماء دارلعلوم دیوبند کے اکابرین کو اپنا استاد مانتے ہیں۔مگر اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ سیکولرازم کا راستہ ہرحال میں روکینگے۔اور اس جدوجہد میں اپنی جانیں بھی نچھاور کرینگے ذرہ ملاحظہ فرمائیے فیروز پور اور لاہور کا سفر3گھنٹوں سے بھی کم ہے۔دونوں شہروں کا حدود اربعہ دیکھیں تو فیروز پوربھارت میں ہے لاہور پاکستان میں ہے اگر ایک مسافر صبح کی نماز فیروز پور میں پڑھے،درس قرآن میں مولانا صاحب سے سیکولرازم کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والی دلپذیر تقریر سُنے اور اسی روز جمعہ کی نماز لاہور میں پڑھے اور مولانا صاحب کی تقریر میں سیکولرازم کے خلاف دھواں دھار نکات اور دلائل سُنے تو اس بیچارے کا دماغ گھوم جائے گا کہ خدایا!ماجرا کیا ہے قرآن وحدیث کے ماخذات ایک ہی ہیں۔ان کی تشریح فیروز پور میں کچھ اور ہے لاہور میں کچھ اور ہے۔لغوی اور اصطلاحی معنوں کے جھنجھٹ میں پڑے بے غیر کالم کے دائرے میں رہتے ہوئے اگر سیکولرازم اور لبرل ازم کی تشریح کی جائے تویہ بات کہی جاسکتی ہے سیکولرازم نے چرچ کی ناروا پابندیوں کو رد کردیا اور لبرل ازم نے معاشرے کی روایتی پابندیوں سے انحراف کا راستہ اختیار کیا۔چرچ کی ناروا پابندیاں بھی تقدس کا درجہ نہیں رکھتی تھیں معاشرے کی روایتی پابندیوں کو بھی تقدس لبادے میں لپیٹانہیں جاسکتا۔دونوں رویوں سے بغاوت کفر اور شرک کے زمرے میں نہیں آتا۔فیروز پور سے لاہور آنے والا مسافر علمائے کرام کے”یوٹرن“ سے پریشان ہوکر مزار اقبال پر حاضری دیتا ہے تو اس کا شک دور ہوجاتا ہے۔علامہ اقبال کے فارسی قطعے کا اردو مفہوم یہ ہے کہ”ہمیں علمائے کرام کا شکرگذار ہونا چاہیے جنہوں نے خداکے پیغام سے ہمیں آشنا کیا۔تاہم اُنہوں نے خدا کے کلام کی جوتاویل وتشریح فرمائی اس پر خدا بھی،جبرئیل بھی اور مصطفےٰ بھی حیرت زدہ ہوگئے کہ ہم نے کیا کہا تھا یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟” سیکولرازم سے اُمید وبیم،خوف اور سکون کی جو متضاد کیفیات وابستہ ہوگئی ہیں۔ان کی بنیاد اصل میں علماء اور خطیبوں کے طرز تخاطیب اسلوب بیان اور مطمح نظر سے ہے بھارت کے علمائے دین کو باور کرایا گیا ہے کہ سیکولرازم زندگی گذارنے کا ایسا نظام ہے جس میں ریاست کو ایک شہری سے اُس کا مذہب پوچھنے کا حق نہیں۔پاکستان میں علمائے دین کے کان میں سرگوشی کی گئی کہ سیکولرازم علمائے کرام،مدارس اور مساجد کے خلاف گہر ی سازش کانام ہے مصطفےٰ کمال اتاترک نے ترکی میں علمائے کرام پر ظلم کیا۔مدارس کو بند کیا۔حالانکہ ترک انقلاب کا اپنا تاریخی پس منظر تھا آج رجب طیب اردوان کو راسخ العقیدہ مسلمان مانا جاتا ہے مگر اُس نے شریعت کے مطابق مناسب سائز کی داڑھی نہیں رکھی۔اس لحاظ سے ہم اس کو سیکولرکہہ سکتے ہیں۔ہر اسلامی ملک کے اپنے پس منظر کے مطابق ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔چنانچہ پاکستان کے دانشمند،صاحب علم اور دانشور طبقے کو سیکولرازم کے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔